Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 125
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ١ۚ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
فَمَنْ : پس جس يُّرِدِ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّهدِيَهٗ : کہ اسے ہدایت دے يَشْرَحْ : کھول دیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے وَمَنْ : اور جس يُّرِدْ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّضِلَّهٗ : اسے گمرہا کرے يَجْعَلْ : کردیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ ضَيِّقًا : تنگ حَرَجًا : بھینچا ہوا كَاَنَّمَا : گویا کہ يَصَّعَّدُ : زور سے چڑھتا ہے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں۔ آسمان پر كَذٰلِكَ : اسی طرح يَجْعَلُ : کردیتا ہے (ڈالے گا) اللّٰهُ : اللہ الرِّجْسَ : ناپاکی (عذاب) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کردیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے، اسی طرح اللہ ان لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ۔۔ : ”اسلام“ کا لفظی معنی ہے تابع ہوجانا، اپنے آپ کو سپرد کردینا۔ ”حَرَجًا“ نہایت تنگ، گھٹا ہوا، درختوں کا وہ جھنڈ جس میں کوئی چیز داخل نہ ہو سکے۔ ”حَرَجًا“ یہ ”صَعِدَ یَصْعَدُ“ (س) سے باب تفعل کا مضارع ہے، یعنی ”یَصَّعَّدُ“ اصل میں ”یَتَصَعَّدُ“ تھا، حروف زیادہ ہونے سے معنی میں ایک لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی مشکل سے چڑھ رہا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ رسالت کی طرح ہدایت و گمراہی بھی اس کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے نظام عدل کے مطابق جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ صحیح بات تسلیم کرنے کے لیے کھول دیتا ہے، اس کے لیے ہدایت کے راستے آسان کردیتا ہے، اسے حق قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور وہ آسانی سے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان کردیتا ہے اور جسے اس کی سرکشی کے باعث ہدایت نہیں دینا چاہتا اس کا سینہ حق قبول کرنے کے لیے تنگ اور نہایت گھٹا ہوا کردیتا ہے، جیسا کہ وہ بلندی کی طرف مشکل سے چڑھ رہا ہے، جوں جوں اوپر چڑھتا ہے، ایک تو چڑھائی کی وجہ سے دوسرے آکسیجن کے کم اور پھر ختم ہونے کی وجہ سے سانس ہی نہیں لے سکتا۔ جو لوگ حق سمجھ کر انکار کا راستہ اختیار کرنے والے ہیں ان پر ایمان کی طہارت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کفر کی گندگی چڑھتی چلی جاتی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (6، 7) ، سورة توبہ (125) ، سورة لیل (5 تا 10) اور سورة یونس (100)۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”اوپر فرمایا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ ایک آیت (نشانی) دیکھیں تو ضرور یقین لے آئیں گے، اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لائیں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے ذکر کیے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات کو نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے، ان کو کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔“ (موضح)
Top