Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوشخبری ہے، پس میرے ان بندوں کو خوشخبری پہنچا دو
وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَا بُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی ج فَبَشِّرْ عِبَادِ ۔ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَـہٗ ط اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰہُمُ اللّٰہُ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمْ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ۔ (الزمر : 17، 18) (اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوشخبری ہے، پس میرے ان بندوں کو خوشخبری پہنچا دو ۔ جو بات کو غور سے سنتے اور اس میں سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی ہیں جو عقل والے ہیں۔ ) طاغوت کا مفہوم طاغوت، طغیان سے ہے۔ بعض اہل علم اس سے ہر اس ذات کو مراد لیتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بندگی کی جاتی ہے۔ خواہ وہ اصنام ہوں یا جنّات و شیاطین یا اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت سے برگشتہ کرنے والے لیڈر اور مذہبی پیشوا۔ بعض اہل علم کے نزدیک طاغوت کے معنی سرکشی کے ہیں۔ طاغی سرکش کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کا اسم فاعل ہے۔ جب کسی کو طاغی کہنے کی بجائے طاغوت کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ کیونکہ اسم فاعل کی جگہ پر مصدر کا استعمال مبالغے کے معنی کو پیدا کرتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو حسین کہنے کی بجائے حسن کہا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ ان اہل علم کے نزدیک طاغوت ہر وہ قوت ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی پر زور دیتی اور اپنی غیرمشروط اطاعت پر اصرار کرتی ہے۔ فلاح پانے والوں کی صفات اور ان کو بشارت گزشتہ سے پیوستہ آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا جو انتہائی نقصان اٹھانے والے یعنی خاسرین ہیں۔ اور اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو مفلحین ہیں یعنی جنھیں فوزوفلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔ بڑے سے بڑا طاغوت انھیں اپنے سامنے نہیں جھکا سکتا۔ ان کی گردن کاٹی جاسکتی ہے لیکن جھکائی نہیں جاسکتی۔ وہ باطل کو حق تسلیم کرنے میں اس سے زیادہ گریزاں ہیں جتنا کوئی بھی عقلمند آدمی سیاہ کو سفید کہنے سے گریز کرتا ہے۔ ان کی پوری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی اطاعت میں گزرتی ہے۔ اور دوسری صفت ان کی یہ ہے کہ جس طرح وہ کبھی غیر اللہ کی عبادت و اطاعت میں ملوث نہیں ہوتے، اسی طرح ان کی زندگی کی شناخت یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور وہ اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ معاملہ احکام کا ہو تو فوراً اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور اگر معاملہ خوف و خطر کا ہو تو گھبرانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا فرمائے تو اسے ذاتی محنت کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ہی عطا اور بخشش قرار دیتے ہیں۔ اور تیسری صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نہایت سلیم الطبع لوگ ہیں کہ جب بھی ان کے سامنے کبھی کوئی بات پیش کی جاتی ہے تو چاہے خلاف طبع ہی کیوں نہ ہو وہ کہنے والے سے الجھنے کی بجائے کہی جانے والی بات کو دیکھتے اور نہایت توجہ سے سنتے اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ بات کو سن کر غور و فکر کرتے ہیں اور جو بات حق ہوتی ہے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اور چونکہ ان کی طبیعت میں سلامتی ہے اس لیے وہ بات کو غلط معنی پہنانے کی بجائے اس کے اچھے اور بہتر پہلو کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صفات کے حاملین کو پیش نظر دونوں آیتوں میں دو طرح کے انعامات کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک تو انھیں فوزوفلاح کی بشارت دی گئی، اور دوسرا انعام یہ دیا گیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت عقل والے ہیں۔ اور اسی عقل سلیم کے باعث وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور اس کی آیات سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
Top