Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات، وہ جو اگر چاہے تو تمہیں اس سے بھی کہیں بہتر چیزیں بخش دے۔ بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور آپ کے لیے محل بنوا دے
تَبٰرَکَ الَّذِیْٓ اِنْ شَآئَ جَعَلَ لَـکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھَرُ لا وَیَجْعَلْ لَّـکَ قُصُوْرًا۔ (الفرقان : 10) (بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات، جو اگر چاہے تو آپ کو اس سے بھی کہیں بہتر چیزیں بخش دے۔ بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور آپ کے لیے محل بنوا دے۔ ) سورة کا آغاز تبارک کے لفظ سے کیا گیا تھا۔ گزشتہ رکوع میں معترضین کے چند اعتراضات کا ذکر فرمایا گیا تھا، اب ان کا جواب دیا جارہا ہے اور اس کا آغاز اسی لفظ تبارک سے ہورہا ہے۔ اعتراضات کا جواب تبارک کی تشریح میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ اس میں افزونی اور کثرت، بقا اور دوام اور مبالغے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة کا آغاز اس لفظ سے فرما کر اپنی ذات کا تعارف کرایا تھا جس سے خودبخود شرک کی تردید ہوجاتی ہے۔ اب اسی لفظ کی معنوی حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعتراضات کا جواب دیا جارہا ہے کہ جس ذات کی قدرت، حکمت اور فیضان کی کوئی انتہا نہیں اور جو ہر طرح کے تغیر و انقلاب کے تصور سے پاک ہے اس کی ہر صفت بقا اور دوام رکھتی ہے۔ اس کے رسول کے بارے میں مخالفین کا تمسخر کرتے ہوئے اس کی غربت اور ناداری کو نشانہ بنانا یہ درحقیقت اس ذات سے بدگمانی اور اس کی بےادبی پر دلالت کرتا ہے جس کے خزانوں کی وسعت کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا اور جس کا جودوکرم یوں تو تمام مخلوقات کے لیے ہر وقت ابلتا ہے لیکن اپنے مخصوص بندوں کے لیے تو اس کی عنایات بےپایاں ہیں۔ اس کے رسول کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ اگر اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایک باغ بھی اتارتا جس طرح مکہ کے رئیسوں کے طائف میں باغات ہیں اور وہ انھیں باغات اور مال و منال کی وجہ سے تکبر کا اظہار کرتے اور آنحضرت ﷺ کی غربت پر طعن توڑتے ہیں۔ تو آپ ﷺ کا اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے بازاروں میں جانا اور دوسرے عام لوگوں کی طرح رزق کے حصول کی کوشش میں لگے رہنا یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقام سے بہت فروتر بات ہے۔ اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں ہیں۔ چناچہ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے رسول کو مال و منال کی کثرت سے گراں بار نہ کرنا اور باغ وغیرہ کی مصروفیت میں نہ ڈالنا یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا ہے، ورنہ اس کی قدرت اور اس کے فیضان سے ایک باغ کیا بہت سے باغات بھی آنحضرت ﷺ کے لیے مہیا کردینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اسی طرح آپ ﷺ کے لیے بڑے بڑے محلات کھڑے کردینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے لیے معمولی بات ہے۔ لیکن قدرت کا ایسا نہ کرنا اس وجہ سے ہے کہ یہ باتیں رسالت کی ضروریات میں شامل نہیں۔ رسالت علم کی وسعت، کردار کی عظمت، مال و منال کی نگاہوں میں بےقدری، رشتہ و پیوند کی بےوقعتی، طلبِ دنیا کی بجائے طلب آخرت کی بیتابی، ضروریات کو ضروریات کی حد پر رکھ کر مقاصدِ زندگی کی بارآوری، مخلوقِ خدا کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی جسم و جان کے اصل ہدف کے طور پر چارہ گری یہ اور اسی قسم کی صفات وہ سرمایہ ہے جس کی رسول کے گھر میں فراوانی ہوتی ہے اور جس سے اہل دنیا عموماً محروم رہتے ہیں، لیکن قریش کی ذہنی رسائی اور ان کی کامیابیوں کے لیے ہدف کی بلندی کا تعلق چونکہ صرف درہم و دینار، مال و دولت، محلات اور باغات ہیں اور جہاں کہیں انھیں اس کی کمیابی دکھائی دیتی ہے وہ اسے اپنی بساط علم کے مطابق کمزوری اور ناداری سمجھ کر تکبر کا اظہار کرتے اور تمسخر اڑانے لگتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جس طرح دولت کی فراوانی اور دنیوی اعزازات نبوت و رسالت کی ضرورت نہیں، اسی طرح اس عظیم منصب پر فائز ہونے والی عظیم شخصیات کے ذوق کی چیز بھی نہیں۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس آیت کو لے کر خازن جنت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ رضوان نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ پھر کہا، یا محمد ﷺ رب العزت آپ ﷺ کو سلام فرماتے ہیں اور یہ ایک صندوقچی ہے اس صندوقچی میں سے نور چمک رہا تھا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ھذہ مفاتیح خزائن الدنیا ” اس میں دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں ہیں، آپ ﷺ یہ لے لیں۔ اس کی وجہ سے آپ ﷺ کے آخرت کے اجر میں مچھر کے برابر بھی کمی نہیں ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا، گویا آپ ﷺ ان کی رائے پوچھ رہے تھے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، یہ اشارہ کرنے کے لیے کہ آپ ﷺ تواضع اختیار کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یا رضوان ! لاحاجۃ لی فیھا، الفقر اَحَبُّ الی وان اکون عبدا صابرا شکورا ” اے رضوان مجھے ان کی ضرورت نہیں، مجھے فقر زیادہ پسند ہے اور مجھے یہ چیز زیادہ مرغوب ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا صابر اور شکرگزار بندہ بنوں۔ “ قال رضوان اصبت، اللہ لک ” آپ کا یہ فیصلہ درست ہے، اللہ آپ کا ہے۔ “ (قرطبی) اسی اختیار کردہ فقر کا نتیجہ تھا کہ جب فتوحات کا راستہ بھی کھل گیا اور بعض علاقوں سے عشر اور خراج بھی آنے لگا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے فقر و فاقہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سچ کہا ظفر علی خان نے : قدموں میں ڈھیر اشرفیوں کا لگا ہوا ہے تین دن سے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا ہیں دوسروں کے واسطے سیم و زر و گہر اپنا یہ حال کہ ہے چولھا بجھا ہوا
Top