Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
بڑی برکت دینے والی ہے وہ ذات اگر چاہے تو بنا دے آپ کے لیے بہتر اس سے باغات جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں ، اور بنا دے آپ کے لیے محلات
حقانیات گزشتہ آیات میں کفار و مشرکین کی طرف سے قرآن پاک کی حقانیت کے متعلق اعتراض تھا کہ یہ خود ساختہ ہے اور پرانے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ یہ کسی مخلوق کا کلام نہیں بلکہ خدائے علیم وخبیر کا نازل کردہ ہے۔ ان کا دوسرا اعتراض رسالت پر تھا کہ یہ کیسے نبی ہو سکتا ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا ہے۔ کہتے تھے کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہئے تھا جو اس کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا ۔ نیز یہ ہے کہ پیغمبر کے خزانے اور باغات ہونے چاہئیں ۔ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ لوازمات بشریت رسالت و نبوت کے مانع نہیں ہیں ۔ رسول بھی انسان ہی ہوتا ہے جو کھاتا پیتا اور تمام بشری تقاضے پورے کرتا ہے۔ البتہ وہ معصوم عن افطار اور تمام امت سے افضل ہوتا ہے۔ نبی کی مالی کمزوری بھی نبوت کے منافی نہیں ہوتی کیونکہ مال و دولت رسالت کا لازمی جزو نہیں ہے۔ اب آج کے درس میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا کا مال و متاع اور باغات و محلات بھی عطاکر سکتا ہے ، مگر متقیوں کو آخرت میں ملنے والے انعامات دنیا کے لوازمات سے بہت بہتر اور دائمی ہوں گے۔ نبی کے لیے دینی لوازمات ارشاد ہوتا ہے تبرک الذی برسی برکت دینے والی ہے ۔ ذات خداوندی ان شاء جعل لک خیر ا من ذلک کہ اگر وہ چاہے تو بنا دے آپ کے لیے اس سے بہتر یہ مطلب یہ کہ کافر اور مشرک لوگ تو آپ کے لیے باغات ، کوٹھی ، خزانہ اور نوکر چاکر کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں سے کہیں زیادہ آپ کو عطا کرنے پر قادر ہیں ۔ فرمایا جنت تجری من تحتھا الانھر وہ ایسے باغات عنایت کرسکتا ہے جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں ۔ صرف باغات ہی نہیں بلکہ وہ یجعل لک قصورا وہ آپ کو من پسند محلات بھی عطا کرسکتا ہے ۔ اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ۔ وہ نہ صرف جنت میں عالی شان محل دے گا ۔ بلکہ اس دنیا میں بھی عطا کرنے پر قادر ہے۔ معترضین کا اعتراض بیہودہ ہے کہ نبی کے پاس مال و دولت ، زر و جواہر ، باغات اور مکانات ہونے چاہئیں ، نبوت و رسالت کے لیے یہ چیزیں ضروری نہیں ہیں یہ تو اضافی چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق عطا کرتا ہے ۔ نبی کے لیے تو علم و عصمت ، پاکیزگی اور اعلیٰ اخلاق واطوار کی ضرورت ہے جو اسے اس دنیا میں میسر آتے ہیں ۔ تا ہم اللہ کے نبی دنیا میں مصائب و تکالیف برداشت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور آخرت میں بہتر اجر کے امیدوار ہوتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں امام احمد اور امام ترمذی نے ابو امامہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیش کش کی ان یجعل لی بطحاء مکۃ فھبا کہ اگر میں چاہوں تو میرے لیے مکہ کی پتھریلی زمین سونے کی بنا دی جائے ۔ میں نے اس پیش کش کے جواب عرض کیا ، پروردگار ! مجھے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اشبع یوما ً و اجوع یوماً میں ایک د پیٹ بھر کر کھائوں تو دوسرے دن بھوکارہوں ۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ (1 ؎۔ معالم التنزیل ص 91 و تفسیر …………) ………نے نقل کیا ہے کہ جب میں بھوکا ہوں گا قضر عت الیک تو تیرے سامنے گڑ گڑائوں گا اور جب پیٹ بھرا ہوا ہوگا حمد تک وشکر تک تو تیری تعریف بیان کروں گا اور تیرا شکر کروں گا ۔ بہر حال مجھے دنیا کے ان خزانوں اور مال کی ضرورت نہیں۔ حضور ﷺ کی انکساری حضرت عائشہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک موقع پر ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار آپ کو سلا م کہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں ان شئت نبیاً عبدا او شدت نبیاً ملکاً یعنی اگر آپ چاہیں تو نبی اور اللہ کے عبادت گزار بن جائیں یا چاہیں تو نبی اور بادشاہ ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ پاس ہی جبریل (علیہ السلام) بھی کھڑے تھے ، انہوں نے مجھے اشارے سے کہا کہ آپ تواضع والی بات پسند کریں چناچہ میں نے اس فرشتے سے کہا کہ میں نبوت اور عبدیت کا طلب گار ہوں مجھے بادشاہت کی ضرورت نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ جب کھانا تناول فرماتے تھے تو نہایت عاجزی کے ساھ بیٹھ کر کھاتے ۔ آپ نے کبھی ٹیک لگاکر کھانا نہیں کھایا ۔ آج کل کے طریقے کے مطابق نہ کبھی میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور نہ کھڑے ہو کر بلکہ انکساری کے ساتھ بیٹھ کر ۔ آپ نے فرمایا اکل کمایا کل العبد میں تو اس طرح کھانا کھاتا ہوں جس طرح اللہ کا کوئی بندہ کھانا کھاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے حضور ﷺ کے جسم مبارک پر چٹائی کے نشان دیکھے تو آبدیدہ ہو کر عرض کیا حضور ! قیصر و کسریٰ کے بڑے بڑے نافرمان تو عیش و عشرت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جب کہ آپ اللہ کے برگزیدہ رسول ہو کر عسرت کا وقت گزار رہے ہیں ۔ حضور ﷺ نے پر جوش انداز میں فرمایا افی ھذا ایا ابن الخطاب اے ابن خطاب ( عمر ؓ آپ (1 ؎۔ معالم التنزیل ص 98 ، 43 و خازن ص 45 ج 5 (فیاض) اس قسم کے تصورات میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ان آرام پسند لوگوں کی حالت تو یہ ہے کہ عجلت لھم طیبت فی الحیوۃ الدنیا ان کو ساری بھلائیاں اور عیش و آرام دنیا میں ہی دے دیا گیا ہے جب کہ آخرت میں یہ لوگ تہی دامن ہوں گے ۔ تو کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ ہم اہل ایمان کو بہتری کی ساری چیزیں آخرت میں نصیب ہوں اور یہ لوگ وہاں محروم ہیں ؟ آخرت میں ان لوگوں کے پاس کفر و شرک اور معاصی کے پلندوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ اگرچہ صحابہ کرام ؓ کو بعد میں اللہ نے بڑا مال و دولت بھی دیا مگر وہ ہمیشہ اس خیال میں متفکر رہتے تھے کہ کہیں آخرت کے ہمارے اجر میں کمی نہ آجائے ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کثیر المال صحابی تھے اور بڑے فیاض بھی تھے ۔ ایک موقع پر آپ کے سامنے بہترین گوشت کے ساتھ کھانا آیا تو دیکھ کر رونے لگے حتیٰ کہ آپ سے کھانا ہی نہ کھایا گیا ۔ کہنے لگے کہ اتنی اچھی نعمتیں کھالوں تو قیامت والے خدا تعالیٰ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ میں نے تمہیں ساری نعمتیں دنیا میں ہی دے دی تھیں اور اس طرح میں آخرت کے اجر سے محروم نہ رہ جائوں۔ وقوع قیامت کی تکذیب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر (علیہ السلام) ! یہ کفار و مشرکین آپ کی کسی کمزوری یا خامی کی وجہ سے تکذیب رسالت نہیں کرتے بل کذبوابالساعۃ بلکہ در حقیقت انہوں نے وقوع قیامت کو جھٹلایا ہے جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے وہ احساس ذمہ داری سے قطعاً محروم ہوتا ہے ، کفر و شرک کی بنیاد عام طور پر احساس ذمہ داری سے محرومی ہوتی ہے۔ جب کسی شخص کو یہ وہم ہوجائے کہ اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی ، کوئی قیامت نہیں آئے گی ، نہ کوئی حساب کتاب کی منزل ہوگی ۔ اور نہ جنت دوزخ کا کوئی تصور ہے تو پھر انسان چھوٹ ہوجاتا ہے ۔ وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتابل کہ جو چاہے آزادی کے ساتھ کرتا رہتا ہے ۔ نہ اسے اپنے کسی قول کا خیال آتا ہے اور نہ کسی عمل کی ذمہ داری کی طرف دھیان جاتا ہے ۔ فرمایا ایسے مادر پدر آزاد لوگوں کے لیے واعتدنا لمن کذب بالساعۃ بسعیر جنہوں نے قیامت کا انکار کیا ، بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے قیامت والے دن ان کا یہی ٹھکانہ ہوگا ۔ جس قیامت کی تکذیب کرتے تھے وہ ان کے لیے ابدی سزا کا موجب بن جائے گی ۔ دور معیوب کی چیخ و پکار فرمایا اذا راتھم من مکان بعید جب وہ دوزخ ان کو دور سے دیکھے گی ۔ سمعوالھا تغیظ ورفیر تو وہ لوگ اس کے جوش اور چلانے کی آواز کو سنیں گے۔ یہ اتنی سخت اور غضبناک آواز ہوگی کہ دور سے ہی ناقابل برداشت ہوگی ۔ دوزخ کے جوش اور غیظ و غضب کے متعلق ابو وائل ؓ کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ۔ ایک بزرگ صحابی ربیع ؓ بھی ہمراہ تھے ۔ راستے میں لوہار کی دکان آئی ۔ جہاں لوہا آگ میں تپایا جا رہا تھا ۔ اس بھٹی کو دیکھ کر حضرت بیع کا حال تو خراب ہوگیا ۔ عذاب الٰہی کا نقشہ آنکھوں میں گھوم گیا ۔ اور قریب تھا کہ آپ بےہوش ہو کر گر پڑیں ۔ پھر آگے نہر کے کنارے پر ایک آتشیں بھٹی کو جوش مارتے ہوئے دیکھا ۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی زبا ن سے یہ آیت نکلی اذا راتھم۔۔ تفسظا وزفیر پھر آپ نے پلٹ کر دیکھا تو حضرت ربیع ؓ پر غشی طاری ہوچکی تھی ۔ وہ اس حال میں مستغرق ہوگئے کہ جب دنیا کی اس بھٹی کا یہ جوش و خروش ہے تو جہنم کا جوش و خروش کہ قدر تند و تیز ہوگا ۔ حضرت ابن مسعود ؓ دوپہر تک حضرت ربیع ؓ کے پاس بیٹھے ان کو ہوش میں لانے کا چارہ کرتے رہے مگر وہ ہوش میں نہ آئے اور اسی حالت میں ختم ہوگئے۔ فرمایا واذا القوا منھا مکانا ضیقا مقرنین جب دوزخی دوزخ میں کسی تنگ جگہ میں جکڑے ہوئے ڈالے جائیں گے۔ (1 ؎ تفسیر مواہب الرحمن 773 (فیاض) دعوا ھنالک تبورا تو اس ہلاکت کو پکاریں گے اور کہیں گے ہائے ! ہماری ہلاکت و تباہی ۔ مسند احمد کی روایت 1 ؎ (1 ؎ مسند احمد ص ابن کثیر ص 13 ج 3 و معالم التنزیل ص 9 و قرطبی ص 8 ص 2 ابو دائودص 833 ج 2 ( فیاض) میں آتا ہے کہ ابلیس کو دوزخ کی آگ کا لباس پہنایا جائے گا ۔ وہ اس لباس کو اپنے سر پر رکھ کر چیخ و پکار کریگا ۔ اور ہائے ہلاکت ، ہلائے ہلاکت کہتا ہوا دوڑے گا ۔ اس کے ساتھ اس کے ماننے والے بھی ہلاکت و تباہی کو پکاریں گے ۔ پھر ادھر سے جواب آئے گا ۔ لا تدعوا الیوم ثبورا واحدا آج صرف ایک ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ وادعوا تبورا نثین بہت سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ آج تمہیں ہر عملی کی علیحدہ علیحدہ سزا ملے گی ، لہٰذا تم پر بہت سی ہلاکتیں آئیں گی ، ان سب کو پکارو اور کسی ایک پر اکتفا نہ کرو۔ دوزخ میں تنگ جگہ میں ڈالنے کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ دوزخیوں کو کسی تنگ و تاریک مقام پر اس طرح ٹھونس دیا جائے گا ، جس طرح کسی پتھر میں کیل ٹھونک دیا جائے۔ اس کے علاوہ حشر کے دن کی تنگی بھی ہوگی ۔ اس لیے حضور ﷺ نے دعا 2 ؎ میں سکھا یا ہے اللھم انی اعوذ بک من ضیوالدنیا و ضیق یوم القیمۃ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ دنیا اور قیامت کے دن کی تنگی سے پناہ چاہتا ہوں ۔ حشر کی تنگی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کو پائوں ٹکانے کی جگہ بھی میسر نہیں آئے گی ۔ اوپر سے گرمی اور پسینہ ہوگا ، اور پھر دوزخ کی تنگی کا تو کیا کہنا ۔ متقیوں کے لیے انعامات فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اذلک خیر کیا یہ بات بہتر ہے کہ انسان جہنم کی تنگ و تاریک جگہوں پر جکڑ دیا جائے ؟ امر جنۃ الخلد التی و عد المتقون یا ہمیشہ کا باغ بہتر ہے جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی توحید کو ماننے والے اور کفر ، شرک ، اور معاصی سے بچنے والے لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں اپنی رحمت کے مقا م جنت میں پہنچائے گا ۔ اور پھر ان کا بدلہ بھی یہ بتلایا کانت لھم جزاء و ومصیر اور یہی ان کا بدلہ اور لوٹ کر جانے کی جگہ ہوگی ۔ لھو فیہا مایشاءون وہاں ان کے لیے ہر وہ شے ہوگی جسے وہ چاہیں گے ۔ ہاں اپنی من مانی مرادیں پائیں گے۔ اور یہ نعمتیں عارضی نہیں ہوں گی اور نہ ختم ہوجانے والی ہوں گی خلدین جنتی لوگ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور ان کے انعامات بھی لازوال ہوں گے۔ وہاں سے نکلنے یا کسی نعمت کے ختم ہوجانے کا خطرہ نہیں ہوگا پھر فرمایا کان علی ربک وعدا مسئولاً اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے ساتھ یہ وعدہ اپنے ذمے لے رکھا ہے جو کہ پورا ہو کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اپنی رحمت کے مقام جنت میں ضرو ر پہنچائے گا ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان آیت میں دونوں مقامات کا ذکر دیا ہے۔ قیامت کے منکرین کے لیے دوزخ کی تنگ ترین وادیاں ہوں گی اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ہوگا ۔ اس کے بر خلاف متقین کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہوں گے جہاں انہیں خواہش کے مطاق ہر چیز میسر ہوگی ۔ وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ نہ وہاں سے نکال جائیں گے اور نہ کسی نعمت میں کمی آئے گی ۔ اللہ نے انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو لو ان دونوں مقامات میں سے کون سا مقام بہتر ہے اور تم کس کو پسند کرتے ہو ؟ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ اپنے عقیدے اور عمل کی بناء پر جونسا مقام چاہو منتخب کرلو۔
Top