Al-Qurtubi - Al-An'aam : 81
وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا١ؕ فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ
وَكَيْفَ : اور کیونکر اَخَافُ : میں ڈروں مَآ اَشْرَكْتُمْ : جو تم شریک کرتے ہو (تمہارے شریک) وَلَا تَخَافُوْنَ : اور تم نہیں ڈرتے اَنَّكُمْ : کہ تم اَشْرَكْتُمْ : شریک کرتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ کا مَا : جو لَمْ يُنَزِّلْ : نہیں اتاری بِهٖ : اس کی عَلَيْكُمْ : تم پر سُلْطٰنًا : کوئی دلیل فَاَيُّ : سو کون الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِالْاَمْنِ : امن کا اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
بھلا میں ان چیزوں سے جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو کیونکہ ڈروں جبکہ تم اس نے نہیں ڈرتے کہ خدا کے ساتھ شریک بناتے ہو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ اب دونوں فریق میں سے کون سا فریق امن (اور جمعیت خاطر) کا مستحق ہے۔ اگر سمجھ رکھتے ہو (تو بتاؤ)
آیت نمبر 81۔ 82 قولہ تعالیٰ : آیت : وکیف اخاف ما اشرکتم یہاں کیف میں انکار کا معنی ہے۔ یہ ان پر اس بات کا انکار ہے کہ وہ اسے بتوں سے ڈرا سکتے ہیں، حالانکہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے، یعنی میں کیسے ڈروں ان سے جو مردوہ ہیں، حالانکہ تم اس اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جو ہر شے پر قادر ہے۔ آیت : مالم ینزل بہ علیکم سلطنا اس میں سلطان کا معنی حجت اور دلیل ہے۔ اس پر بحث پہلے گزر چکی ہے۔ آیت : فای الفریقین احق بالامن یعنی دونوں فریقوں میں سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے امن و سلامتی کا کون زیادہ حق دار ہے ؟ کیا موحد یا مشرک۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : آیت : الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اس میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی، حضرت سلمان اور حضرت حذیفہ ؓ نے یہی کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول میں سے ہے، جیسا کہ عالم سوال کرتا ہے اور وہ خودہی اپنے آپ کو جواب دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا قول ہے۔ یعنی انہوں نے اس کے ساتھ جواب دیا جو ان پر حجت اور دلیل ہے۔ یہ ابن جریج نے کہا ہے۔ اور صیحین میں حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی : آیت : الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر یہ خاصی شاق گزری، وہ کہنے لگے : ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا ؟ تو حضور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ” ایسا نہیں جس طرح تم گمان کر رہے ہو بلکہ کہ تو اس طرح ہے جیسے لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا تھا : آیت : یبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم (لقمان۔۔ ) (اے میرے پیارے فرزند ! کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا، یقینا شرک ظلم عظیم ہے) آیت : وھم مھتدون اور وہی دنیا میں ہدایت یافتہ ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة لقمان، باب لا تشرک باللہ، حدیث نمبر 4403، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
Top