Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 3
خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌۙ
خَافِضَةٌ : پست کرنے والی ہے رَّافِعَةٌ : اونچا کرنے والی ہے
کسی کو پست کرے کسی کو بلند
خافضۃ رافعۃ۔ عکرمہ، مقاتل اور سدی نے کہا : مفہوم یہ بنتا ہے خفت الصت فاسمعت من ونا و رفعت فاسمعت من نای۔ یعنی اس نے قریب اور بعید کو آواز سنائی (1) ۔ سدی نے کہا : اس نے متکبرین کو پست کیا اور کمزوروں کو بلند کیا۔ قتادہ نے کہا : اس نے کچھ قوموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں پست کیا اور کچھ قوموں کو اللہ تعالیٰ کی طاعت کی طرف بلند کیا۔ حضرت عمربن خطاب ؓ نے کہا : اس نے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو جہنم میں پست کیا اور اولیاء اللہ کو جنت میں بلند کیا (2) ۔ محمد بن کعب نے کہا : اس نے ان لوگوں کو پست کیا جو دنیا میں بلند تھے اور اس نے ایسی قوموں کو بلند کیا جو دنیا میں پست تھے۔ ابن عطاء نے کہا : اس نے کچھ لوگوں کو عدل کے ذریعے پست کیا اور دوسروں کو فضل کے ذریعے بلند کیا۔ خفض رفع کا لفظ عربوں کے ہاں مکان، مرتبہ، عزت اور ذلت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خفض اور رفع کی نسبت کی طرف ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5 صفحہ 446 2 ؎۔ ایضاً یہ بطور مجاز ہے جس طرح عربوں کی عادت ہے کہ وہ فعل کی نسبت محل زمان اور دوسری چیزوں کی طرف کردیتے ہیں جن سے فعل حقیقت میں واقع نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں لیل نائم، نھار صائم۔ قرآن کریم میں ہے بل مکر الیل والنھار ( سبا : 33) حقیقت میں بلند کرنے والا اور پست کرنے والا اللہ واحدہٗ لا شریک ہے اس نے اپنے اولیاء کو اعلیٰ درجات میں بلند کیا اور اس نے اپنے دشمنوں کو سب سے نچلے درجے میں پست کیا۔ حضرت حسن بصری اور عیسیٰ ثقفی نے پڑھا خافضۃ رافعۃً یعنی منصوب پڑھا ہے (1) باقی قراء نے اسے مرفوع پڑھا ہے اس صورت میں مبتداء محذوف ہوگا۔ جس نے اسے نصب دی ہے تو حال ہونے کی حیثیت میں نصب دی۔ فراء کے نزدیک یہاں فعل مضمر ہوگا، معنی ہوگا وقعت خافضۃ رافعۃً قیامت کے وقوع میں کوئی شک نہیں یہ بعض لوگوں کو بلند کرے گی اور بعض کو پست کرے گی جس طرح ہم نے بیان کیا ہے۔ اذا رجت الارض رجا۔ جب زمین میں زلزلہ برپا ہوگا اور اس میں حرکت ہوگی : مجاہد اور دوسرے علماء سے یہی مروی ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : رجہ یرجہ رجا اسے حرکت دی اور اس میں زلزلہ برپا کیا۔ ناقۃ رجاء ایسی اونٹنی جس کی کوہان بڑی ہو۔ حدیث طیبہ میں ہے ” جو آدمی سمندر پر اس وقت سوار ہوا جب وہ موجزن تھا تو اس کی کوئی ضمانت نہ ہوگی “۔ (2) کلبی نے کہا : اس کی وجہ یہ ہوگی جب اللہ تعالیٰ زمین کی طرف وحی کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے خوف کی وجہ سے وہ مضطرب ہوگی۔ مفسرین نے کہا : وہ اس طرح مضطرب ہوگی جس طرح بچہ پنگھوڑے میں مضطرب ہوتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ اس کے اوپر ہوگا وہ گر جائے گا اور پہاڑ وغیرہ جو اس کے اوپر ہوگا وہ ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : رجہ سے مراد شدید حرکت ہے جس کی آواز سنی جائے گی۔ اذا، اذا وقت کا بدل ہونے کی حیثیت سے منصوب ہوگا۔ یہ بھی جائز ہے کہ وہ خافصۃ رافعۃ۔ کی وجہ سے منصوب ہو، یعنی جب زمین میں زلزلہ بر پا ہوگا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو اس وقت یہ کچھ کو پست کرے گی اور کچھ کو بلند کرے گی کیونکہ اس موقع پر جو بلند ہوگا وہ پست ہوجائے گا اور جو پست ہوگا وہ بلند ہوجائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب زمین میں زلزلہ برپا ہوگا تو قیامت برپا ہوجائے گی یہ زجاج اور جرجانی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یہ ہے اذکر اذا رجت الارض رجا، رجا مصدر یہ اس امر پر دلیل ہے کہ زلزلہ دوبارہ واقع ہوگا۔ وبست الجبال بسا۔ یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے : یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ مجاہد نے کہا : جس طرح آٹے کو گھٹی سے لت پت کیا جاتا ہے بسیہ سے مراد ستو یا آٹا ہے جسے گھی یا تیل سے لت پت کیا جاتا ہے پھر اسے کھایا جاتا ہے اسے پکایا نہیں جاتا۔ بعض اوقات اسے زادراہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ راجز نے کہا : لا تخبز اخیز وبسابسا تم دونوں روٹی نہ پکائو اسے گھی سے لت پت کر دو ۔ ابو عبید نے یہ ذکر کیا ہے یہ غطفان کا ایک چور تھا اس نے روٹی پکانے کا ارادذہ کیا اسے خوف ہوا کہ وقت کم ہے تو اس نے آٹا ہی کھالیا۔ مطلب یہ ہے انہیں خلط ملط کیا گیا تو وہ اس آٹے کی طرح ہو گئے 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 239 2 ؎۔ کنز العمال، جلد 15، صفحہ 582، حدیث 41371 جسے پانی کے ساتھ ملایا گیا ہو یعنی پاڑ مٹی ہوجائیں گے اور بعض کو بعض سے ملا دیا جائے گا۔ حضرت حسن بصری نے کہا : بست کا معنی ہے انہیں جڑ سے اکھیڑ دیا جائے گا تو وہ جہنم ہوجائیں گے : اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ینسقھاربی نسقا۔ (طہٰ ) عطیہ نے کہا : انہیں پھیلا دیا جائے گا جس طرح ریت اور مٹی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ابتس سے مراد چلانا ہے یعنی پہاڑوں کو چلایا جائے گا۔ ابو زید نے کہا : سب سے مراد ہانکنا ہے قد بست الابل ابسھا بسا میں نے اونٹوں کو ہانکا۔ ابو عبید نے کہا : بست الابل، ابست یہ دونوں لغتیں ہیں جب تو ان کو جھڑکے اور تو انہیں کہے بس بس حدیث طیبہ میں ہے یخرج قوم من المدینۃ الی الیمن والشام والعراق یبسون والمدینۃ خیر لھم لوکانو یعلمون (1) اس معنی میں ایک اور حدیث ہے جا حکم اھل الیمن یبسنون عیالھم (2) اہل یمن تمہارے پاس آئے جب کہ وہ اپنے عیال کو ہانک رہے ہیں۔ عرب کہتے ہیں : حی بہ من حسک وبسک ابو زید نے دونوں کو کسرہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ من حسک کا معنی ہے جہاں سے تو نے اس کا احساس کیا۔ من بسک جہاں سے اسے تیرا چلنا پہنچا۔ مجاہد نے کہا : معنی ہے وہ بہہ پڑے۔ عکرمہ نے کہا : انہیں گرایا گیا۔ محمد بن کعب نے کہا : انہیں چلا گیا : اسی معنی میں اغلب کا عجلی کا قول ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : انہیں کاٹ دیا گیا۔ معنی قریب قریب ہے۔
Top