Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 3
خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌۙ
خَافِضَةٌ : پست کرنے والی ہے رَّافِعَةٌ : اونچا کرنے والی ہے
وہ پست کرنے والی بلند کرنے والی ہو گی
وہ پست کرنے والی ‘ بلند کرنے والی ہو گی 3 ؎ (حافضۃ) پست کردینے والی۔ نیچا کردینے والی۔ خفض سے جس کے معنی پست ہونے ‘ پست کرنے اور جھکا دینے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مونث۔ (رافعۃ) بلند کرنی والی ‘ اونچا کرنے والی رفع سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مونث۔ مراد اس سے وہی قیامت کی گھڑی ہے جس سے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو دنیا میں بلند بنے بیٹھے تھے لیکن اس روز وہ پست ہو کر رہ جائیں گے اور کتنے ہی ایسے ہوں گے جو بہت پست تھے لیکن وہ اس روز بلند ہوجائیں گے۔ جیسا کہ فاروق اعظم ؓ کا ارشاد ہے کہ : خفضت اعداء اللہ فی النار و رفعت اولیاء اللہ فی الجنۃ یعنی قیامت اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو آتش جہنم میں نگوں سار کر دے گی اور اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو جنت میں سربلند و سرفراز کرے گی۔ اس طرح جو کچھ ہوگا وہ یقینا لوگوں کے اپنے اعمال ہی کے باعچ ہوگا جن کے اعمال ان کو پست کردینے کے ہوں گے وہ پست ہوجائیں گے اور جن کے اعمال ان کو بلند کردینے والے ہوں گے وہ بلند ہوجائیں گے لیکن یہ کب ہوگا ؟ جب دارالعمل سے انسان نکل جائے گا اور دارالجزاء میں داخل ہوجائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ موت آنے کے بعد انسان دارالعمل سے نکل جاتا ہے لیکن دارالجزاء میں بھی داخل نہیں ہوتا کیونکہ دارالجزاء دارالعمل کے فنا کے بعد ہی سے شروع ہوگا۔ ایک انسان جب دارالعمل سے نکل گیا اور دارالجزاء میں وہ ابھی پہنچا نہین تو درمیان کے زمانہ کا نام دارالبرزخ رکھا گیا۔ گویا یہ زمانہ پردہ میں ہے اور جب دارالجزاء کو تسلیم کرلیا گیا تو اس پردہ کے زمانہ کو برزخ تسلیم کرنے میں کیا مشکل حائل ہوئی جب کہ دارالجزاء بھی آخرت سے متعلق ہے اور دارالبرزخ بھی مشاہدہ کی چیز نہیں اور یہ نام تو محض تفہیم کے لئے اختیار کئے گئے ہیں تاکہ اس طرح بات کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ دارالبرزخ کا دوسرا نام قبر ہے جو اس گڑھے کے نام سے موسوم کی جاتی ہے جس گڑھے میں انسان کو مرنے کے بعد منتقل کیا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک علامت ہے جو فطری طور پر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اگرچہ اس گڑھے کے اندر کچھ نہیں ہے۔ آپ غور کریں کہ مرنے کے بعد اس نعش کے اندر کوئی چیز ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک بت ہے جو ایک دو دن کے بعد متعفن ہو کر دوسروں کو بیزار کر دے گا یا اس کو رکھنے کیلئے کوئی خاص طریقہ استعمال کرنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ جو فطری لگائو ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن جب اس کو کسی گڑھے میں منتقل کردیا جائے تو اس گڑھے سے عبرت حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف منتقل ہونا بھی ایک فطری عمل ہے اور زندوں کی تفہیم کے لئے اس کو بطور استعارہ اور اشارہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے بھی اس کو بطور استعارہ و اشارہ استعمال کیا ہے کہ اس قبر والے کو عذاب دیا جا رہا ہے یا اس صاحب قبر کی قبر وسیع ہوگئی ہے۔ اس گڑھے کا اندر کیا ہے ؟ ایک تعفن کا ڈھیر ہی تو ہے لیکن اس کے اوپر چڑھنا ‘ اوپر بیٹھنا جب کہ قبر کا نشان موجود ہو اسلام میں منع کیا گیا ہی ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ بےحرمتی میں داخل ہے لیکن قبر کا نشان باقی رکھنے کی ہدایت نہیں کی گئی کہ وہ مٹتے مٹتے خود بخود مٹ جائے تو یہ دوسری بات ہے کسی نعش کی بےحرمتی ‘ اس کا کوئی اعضا کاٹ دینا یا کسی طرح کا کوئی ناجائز عمل کرنا بالکل اسی طرح ہے جس طرح زندہ انسان سے ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کی انسانیت کا احترام ہے کہ وہ ڈھانچہ ایک انسان کا ہے۔ لیکن افسوس کہ جنہوں نے ان باتوں کو مانا انہوں نے اکثر شرک کا ارتکاب کیا اور جنہوں نے تسلیم نہ کیا انہوں نے خواہ مخواہ تنقید شروع کردی حالانکہ ترغیب و ترہیب سے انسانی اصلاح ممکن ہے اور اصلاح کے لئے جو استعارات و اشارات کئے گئے ہیں وہ قرآن کریم میں کثرت سے موجود ہیں۔ یہ جنت و دوزخ اور جنت و دوزخ کے عذاب وثواب کیا ہیں ؟ جب کہ یہ بات واضح ہے کہ جنت اور دوزخ دراصل انسان کے اپنے اعمال کے نتائج کا نام ہے۔ اعمال ہی انسان کو پست کرنے والے ہیں اور اعمال ہی بلند کرنے والے ہیں۔
Top