Mufradat-ul-Quran - Al-Waaqia : 28
فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ
فِيْ سِدْرٍ : بیریوں میں مَّخْضُوْدٍ : بغیر کانٹوں کے
(یعنی) بےخار کی بیریوں میں
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝ 28 ۙ سدر السِّدْرُ : شجر قلیل الغناء عند الأكل، ولذلک قال تعالی: وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ/ 16] ، وقد يخضد ويستظلّ به، فجعل ذلک مثلا لظلّ الجنة ونعیمها في قوله تعالی: فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28] ، لکثرة غنائه في الاستظلال، وقوله تعالی: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم/ 16] ، فإشارة إلى مکان اختصّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فيه بالإفاضة الإلهية، والآلاء الجسیمة، وقد قيل : إنها الشجرة التي بویع النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم تحتها»، فأنزل اللہ تعالیٰ السّكينة فيها علی المؤمنین، والسّدر : تحيّر البصر، والسَّادِرُ : المتحيّر، وسَدَرَ شَعْرَهُ ، قيل : هو مقلوب عن دَسَرَ. ( س د ر ) السدر ( بیری کا ) درخت جس کا پھل بہت کم غذائیت کا کام دیتا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ/ 16] اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں ۔ اور کبھی ( گابھا دے کر ) اسے بےکانٹا کر کے اس سے یہ حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اسے جنت کے آرام اور اس کی نعمتوں کے لئے بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28] بےخار کی بیریوں میں ( مزے کر رہے ) ہوں گے ۔ کیونکہ ایسا درخت بہت زیادہ سایہ دار ہوتا ہے اور آیت : ۔ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم/ 16] جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ۔ میں السدرۃ سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ آنحضرت ﷺ کو فیوضات الہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ درخت ہے جس کے نیچے آنحضرت نے بیعت رضوان لی تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر سکینت الہیہ نازل فرمائی تھی ۔ السدر کے معنی خیرہ چشم ہونے کے ہیں اور خیرہ چشم کو سادر کہا جاتا ہے اور سدر شعرہ کے معنی بال لٹکانے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ ( دسر ) سے مقلوب ہے ۔ خضد قال اللہ : فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28] ، أي : مکسور الشّوك، يقال : خَضَدْتُهُ فانخضد، فهو مخضود وخضید، والخَضْدُ : المخضود، کالنّقض في المنقوض، ومنه استعیر : خَضَدَ عُنُقَ البعیر، أي : كسر . ( خ ض د ) خضدتہ فانخضد کے معنی ہیں میں نے درخت کے کانٹے توڑے چناچہ وہ ٹوٹ گئے اور ایسے درخت کو جس کے کانٹے توڑ دیئے گئے ہوں اسے مخضود اور خضد کہاجاتا ہے جیسے فرمایا :۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28]( یعنی ) بےخار کی بیر یوں میں ۔ اور خضد بمعنی مخضود آتا ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اور اسی سے استعارہ خضد عتق البعیر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اس نے اونٹ کی گردن توڑ ڈالی ۔
Top