Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 284
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ١ؕ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنْ : اور اگر تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو مَا : جو فِيْٓ : میں اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل اَوْ : یا تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا بِهِ : اس کا اللّٰهُ : اللہ فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : اللہ ہی کا جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے یعنی سب کچھ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اسی کے زیر حکم ہے اور اسی کی ملک ہے۔ بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کے سوا ہر چیز مادی اور جسمانی ہے مادہ اور جسمیت سے خالی کوئی مخلوق نہیں ورنہ اس جگہ اللہ کی خالقیت اور مالکیت کا بیان ناقص ہوگا کیونکہ غیر مادی مخلوق کے مالک ہونے کا اظہار زیادہ اہم ہے (اور آیت میں غیرمادی مخلوق کو اللہ کے زیر حکم اور ملکیت کے اندر ظاہر نہیں کیا گیا ہے) لیکن یہ استدلال غلط ہے۔ بکثرت ممکنات غیر مادی ہیں انسانوں کی روحیں، ملائکہ وغیرہ سب مادہ سے خالی ہیں۔ اہل دل واقف ہیں کہ قلب، روح، سر خفی اخفیٰ تمام کے تمام غیر مادی ہیں اللہ ہی اپنی مخلوق سے واقف ہے کہ کتنی ہے۔ : مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ رہی اس کی وجہ کہ آیت میں صرف موجودات سماوی و ارضی کا ہی ذکر کیوں کیا گیا تو اس کا سبب یہ کہ عوام کی نظر صرف انہی چیزوں کو دیکھتی ہے صانع کا وجود ثابت کرنے کے لیے انہی کا ذکر کافی ہے۔ استدلال میں صرف وہی چیزیں پیش کی جاتی ہیں جو عوام کی نظر کے سامنے ہوں اور ان کو معلوم ہوں ایسے امور کو محل استدلال میں نہیں پیش کیا جاسکتا ‘ جو خواص سے بھی پوشیدہ ہوں اسی لیے اس جگہ عرش و کرسی کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ وہ ما فی السمٰوات والارض سے خارج اپنی مستقل ہستی رکھتے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ : جو کچھ تمہارے دلوں کے اندر ہے اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ (ا اللہ اس سے واقف ہے) انسان کی نفسانی اور قلبی بیماریاں بہت ہیں جیسے نفاق ‘ دکھاوا ‘ بیجا تعصب ‘ دنیا کی محبت ‘ غصہ ‘ غرور ‘، پندار ‘ آرزو ‘ حرص ‘ ترک توکل ‘ ترک صبر ‘ حسد ‘ کینہ وغیرہ۔ حضرت جبیر بن مطعم راوی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جو اپنے (جاہلیت کے) تعصب پر (کنبہ جتھ کو) بلاتا ہے اور ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جو اپنے (جاہلی) تعصب پر مرتا ہے۔ (رواہ ابو داود) حضرت حارثہ بن وہب راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کیا میں تم کو بتاؤں کہ جنتی کون ہے ؟ جنتی ہر وہ ضعیف ہے جس کو کمزور سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ خدا کے اعتماد پر قسم کھا لیتا ہے تو اللہ اسکی قسم پوری کردیتا ہے میں تم کو بتاؤ کہ دوزخی کون ہے ؟ دوزخی ہر وہ شخص ہے جو درشت خو، مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنے والا اور مغرور ہو۔ (متفق علیہ) مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنے والا زنیم مغرور۔ (1) [ زنیم اس شخص کو کہتے ہیں جو رشتہ اور قرابت کے لحاظ سے تو کسی اور خاندان کا فرد ہو لیکن اپنے قبیلہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے قبیلہ میں وہ جا گھسے اور اپنا نسب مؤخر الذکر قبیلہ سے جوڑے۔] حسن بصری (رح) کی مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : دنیا کی محبت ہر گناہ کی چوٹی ہے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر اور عمر ؓ سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے۔ (رواہ ابن عدی) حضرت جابر ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ ابوبکر و عمر ؓ سے محبت رکھنا ایمان کا (جزء یا علامت) ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے اور انصار سے محبت رکھنا ایمان (کا جزء یا نشان) ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے اور عرب سے محبت رکھنا ایمان کا (جزء یا نشان) ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی۔ اس پر اللہ کی لعنت اور جس نے میرے اصحاب ؓ کے بارے میں میرا لحاظ رکھا میں قیامت کے دن اس کا لحاظ رکھوں گا۔ (رواہ ابن عساکر) حضرت رسول اللہ نے فرمایا : علی ؓ سے محبت کرنا عبادت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے خود فرمایا : قسم ہے اس کی جو دانہ کو چیر کر سبزہ نکالتا ہے اور جان دار کو پیدا کرتا ہے مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تجھ سے محبت نہیں کرتا ہے مگر مؤمن اور تجھ سے بغض نہیں رکھتا مگر منافق۔ (رواہ مسلم) حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ خود راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : تیرے اندر عیسیٰ کی مشابہت ہے عیسیٰ ( علیہ السلام) سے یہودیوں نے اتنی عداوت کی کہ ان کی والدہ پر (زناء کی) تہمت لگائی اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ ان کو اس مقام پر لے گئے جو ان کے لیے سزا وار نہ تھا (یعنی خدا کا بیٹا کہنے لگے) یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت علی ؓ نے فرمایا : میرے سلسلہ میں دو (طرح کے) آدمی ہلاک ہوجائیں گے ایک تو حد سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا جو میرے اندر افراط محبت کی وجہ سے ایسی چیزیں قرار دے گا جو مجھ میں نہیں ہیں دوسرا وہ شخص جو مجھ سے بغض رکھتا ہے اور میری عداوت اس سے مجھ پر الزام تراشی کراتی ہے 1 ؂۔ (رواہ احمد) حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اللہ کا ارشاد ہے بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند (یعنی بڑائی اور عظمت میرا خصوصی وصف ہے) جو شخص ان میں سے کسی ایک کو مجھ سے کھینچے گا (یعنی بڑائی یا عظمت کا دعویدار بنے گا) میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا۔ (رواہ مسلم) حضرت عطیہ ؓ سعدی کی مرفوع روایت ہے کہ غصہ شیطان (کے اثر یا غلبہ) سے ہوتا ہے۔ (رواہ ابو داؤد) بہز بن حکیم نے بوساطت حکیم اپنے دادا کی مرفوع روایت بیان کی کہ غصہ ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) عمرو بن شعیب نے بوساطت شعیب اپنے دادا کی مرفوع روایت بیان کی کہ اس امت کی اول ترین سنوار یقین اور دنیا سے بےرغبتی ہے اور اوّل ترین بگاڑ بخل اور آرزو ہے۔ (رواہ البیہقی) حضرت سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا آدمی کی خوش نصیبی ہے اور قضاء خداوندی سے ناراضگی آدمی کی بد بختی۔ (رواہ احمد والترمذی) حضرت معاذ بن جبل ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ اپنی مخلوق کی طرف خاص نظر فرماتا ہے اور سوائے مشرک اور دل میں کینہ رکھنے والے کے سب کو بخش دیتا ہے۔ (رواہ الدار قطنی) ابن حبان نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ نفسانی فضائل و عیوب کے متعلق ان گنت حدیثیں آئی ہیں۔ شعبی اور عکرمہ نے آیت کا تفسیری مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ اخفاء شہادت کا جو خیال تمہارے دلوں کے اندر ہوگا اس کو ظاہر کرو یا نہ کرو۔ اللہ اس کی حساب فہمی کرے گا۔ مقاتل نے یہ مطلب بیان کیا کہ کافروں سے دوستی کا جو خیال تمہارے دلوں میں ہوگا اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ اس کا محاسبہ کرے گا گویا اس آیت میں اسی مضمون کو بیان کیا ہے جس کو آل عمران میں بیان کیا ہے۔ آل عمران میں فرمایا ہے : لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اس حکم کے آخر میں فرمایا : قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِی صُدُوْرِکُمْ (الایۃ) تحقیق یہ ہے کہ اخفاء شہادت ہو یا کفار کی دوستی دونوں کو ما فی انفسکم کا لفظ شامل ہے تعیین مراد بلا ثبوت ہے لفظ عام ہے نصوص شرعیہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ بلا تخصیص ہر ارادۂ مخفی کا مواخذہ ہوگا۔ بعض علماء نے کہا ما فی انفسکم سے مراد ہے عملی گناہ کا محکم عزم۔ عبد اللہ بن مبارک کا بیان ہے میں نے سفیان (ثوری) سے پوچھا کیا ارادہ پر بھی بندہ کا مواخذہ ہوگا ؟ سفیان نے کہا ہاں اگر ارادہ محکم ہو۔ میں کہتا ہوں کہ عزم پر بھی اگر مواخذہ ثابت ہوجائے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ عزم (اگرچہ عملی گناہ نہیں مگر) قلبی گناہوں میں داخل ہے (اور ہر گناہ کا مواخذہ ضروری ہے) لیکن صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اگر کوئی کسی گناہ کا ارادہ کرے اور کر نہ پائے تو وہ نہیں لکھا جاتا اور کرلیتا ہے تو اتنا ہی لکھا جاتا ہے (پس عمل سے پہلے ارادہ گناہ خواہ محکم ہی ہو قابل مواخذہ نہیں۔ ہاں محاسبہ جدا چیز ہے وہ ضرور پیدا ہوگا) ۔ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ : قیامت کے دن اللہ تم سے اس کی حساب فہمی کریگا۔ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ : اب یہ حساب فہمی اگر خفیف ہوگی صرف پیشی کی حد تک تو جس کو بخشنا چاہے گا بخش دے گا اور تحقیقاتی حساب فہمی ہوگی تو اس کی گرفت ہوگی۔ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ : اور جس کو عذاب دینا چاہے گا اللہ عذاب دے گا۔ ابو جعفر، ابن عامر، عاصم اور یعقوب نے فَیَغْفِرُاوروَ یُعَذِّبُ رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قاریوں نے جواب شرط ہونے کی بناء پر جزم کے ساتھ قراءت کی ہے۔ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : اور اللہ ہر چیز پر قابورکھنے والا ہے یعنی عذاب و مغفرت وغیرہ پر کوئی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ وہ چاہے تو چھوٹے گناہ پر بھی عذاب دے اور چاہے تو بڑے گناہ کو بغیر توبہ کے معاف کردے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ تمام گناہوں کی حساب فہمی حق ہے قلبی گناہ ہوں یا باطنی یا جسمانی اور چھوٹے بڑے تمام گناہوں کی سزا دینا بھی حق ہے۔ مگر لازم نہیں بلکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ طاؤس نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے۔ کہفیغفر لمن یشاء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اگر چاہے گا تو کبیرہ گناہوں کو بھی معاف کردے گا خواہ گناہ کرنے والے نے توبہ کی ہو یا نہ کی ہو اور و یعذب من یشاء کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ چاہے گا تو چھوٹے گناہ پر بھی عذاب دے گا کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا۔ معتزلہ و رافضی آخرت کے حساب کے منکر ہیں۔ معتزلہ وغیرہ کہتے ہیں کہ گناہگاروں کو عذاب دینا واجب ہے۔ ہمارے قول کا ثبوت اس آیت سے بھی ہوتا ہے اور دوسری آیات سے بھی اور احادیث سے بھی حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن جس شخص کا بھی محاسبہ ہوگا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ میں نے عرض کیا : کیا اللہ نے : فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا نہیں فرمایا ہے ارشاد فرمایا : یہ تو صرف پیشی ہوگی مگر جس سے حساب میں جھگڑا کیا گیا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (متفق علیہ) حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ مؤمن کو (اتنا) قریب کرلے گا کہ اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر چھپا دے گا اور فرمائے گا کیا تجھے (اپنا) فلاں گناہ معلوم ہے کیا تجھے (اپنا فلاں گناہ معلوم ہے بندہ عرض کرے گا اے میرے ربّ ! بیشک (مجھے اپنا گناہ یاد ہے) جب اللہ اس سے اقرار کرالے گا اور وہ خیال کرے گا کہ بس اب میں ہلاک ہوگیا تو فرمائے گا دنیا میں نے تیرا یہ گناہ چھپایا تھا (تجھے رسوا نہیں کیا تھا) آج میں معاف کرتا ہوں اس کے بعد نیکیوں کا صحیفہ اس کے ہاتھ میں دیدیا جائے گا۔ رہے کافر اور منافق تو علی الاعلان ان کے متعلق پکار کر فرمائے گا۔ : ھآؤُلَآءِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللہ عَلَی الظَّالِمِیْنَ .(متفق علیہ) حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور رسول اللہ کے سامنے بیٹھ کر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے، ہیں میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں میں ان کو گالیاں دیتا اور مارتا ہوں میرا ان سے یہ سلوک کیسا ہے ؟ فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے جھوٹ، خیانت، نافرمانی اور تیری سزا کا حساب لگایا جائے گا اگر تیری سزا ان کے قصور کے برابر ہوگی تو برابر سرابر معاملہ چھوٹ جائے گا نہ تیرا فائدہ ہوگا نہ ضرر اگر سزا قصور سے کم ہوگی تو بقیہ حصہ تیرے لیے سود مند ہوگا (یعنی جس گناہ کی تو نے سزا نہیں دی ہوگی اس کا ثواب ملے گا) اور اگر سزا قصور سے زائد ہوگی تو زیادتی کا عوض ان کو تجھ سے دلوایا جائے گا۔ (رواہ الترمذی) حساب اور مغفرت کے سلسلہ میں حدیثیں ان گنت بکثرت ہیں۔ فصل بعض لوگ جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت ہے کہ میں نے خود سنارسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہے کہ میری امت کے سترّہزار آدمیوں کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمائے گا اور ہر ایک کے ساتھ سترّ سترّ ہزار شخص ہوں گے اور (پھر) میرے رب کے تین لپ (بھر) بھی (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل ہوں گے۔ (رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ) حضرت اسماء بنت یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا پھر ایک پکار نے والا پکار کر کہے گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے تھے کچھ لوگ کھڑے ہوجائیں گے مگر وہ تھوڑے ہوں گے ان کو جنت میں بلا حساب داخل کردیا جائے گا پھر باقی لوگوں کو حساب کے لیے جانیکا حکم ہوگا۔ (رواہ البیہقی) حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میری امت کے سترّ ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے، جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے ہوں گے، شگون نہیں لیتے ہوں گے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہوں گے۔ (متفق علیہ) حضرت ابن عباس ؓ سے ایک طویل حدیث میں اسی طرح مروی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید اور احادیث مقدسہ کی رفتار عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا حساب جنت میں جانے والے اہل تصوف ہی ہوں گے جو اللہ کے عاشق ہیں کیونکہ آیت : و ان تبدوا ما فی انفسکم میں اللہ نے حساب فہمی کو نفسانی گناہوں سے متعلق فرمایا ہے۔ اس آیت میں اظہار اور اخفاء دونوں کو محاسبہ کے لیے مساوی قرار دیا ہے۔ جیسے آیت : اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ میں استغفار اور عدم استغفار کو مساوی قرار دیا ہے۔ حساب فہمی اگرچہ اعمال اعضاء کی بھی ہوگی کچھ نفسانی گناہوں کی ہی خصوصیت نہیں ہے۔ لیکن اعمال کے مقابلہ میں نفسانی رذائل شدید ترین ہوتے ہیں ان کی بدی زیادہ ہے اور جسمانی گناہ بھی انہی سے پیدا ہوتے ہیں تزکیہ نفس اور جلاء قلب کے بعد گناہوں کا ارتکاب بہت ہی کم ہوتا ہے اس لیے صرف باطنی گناہوں کی حساب فہمی کا ذکر کیا۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے : بدن کے اندر ایک ایسی بوٹی ہے کہ جب وہ درست ہوتی ہے تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتی ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے اور وہ دل ہے۔ تمام آلودگیوں سے قلب کی صفائی اور نفس کے پاکیزہ و مطمئن ہونے کے بعد بھی آدمی سے کبھی گناہ کا صدور ہوجاتا ہے تو اس کو فوراً ندامت ہوتی ہے اور توبہ کرلیتا ہے اس طرح اس کی بدیاں نیکیوں سے بدل جاتی ہیں اللہ غفور و رحیم ہے اس کو معاف کردیتا ہے حضرت ابن مسعود ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا بےگناہ کی طرح (ہو جاتا) ہے۔ (رواہ ابن ماجہ والبیہقی) شرح السنہ میں حضرت ابن مسعود ؓ کی موقوف حدیث آئی ہے کہ گناہ پر پشیمانی توبہ ہے۔ صوفیہ ہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث مبارکہ میں فقراء مؤمنین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے رسول اللہ نے فرمایا : جنت (کے دروازہ) کی زنجیر کو ہلانے والا سب سے پہلے میں ہی ہوں گا۔ اللہ جنت (کا دروازہ سب سے پہلے) میرے لیے کھول دے گا اور مجھے اندر داخل فرمائے گا اس وقت میرے ساتھ فقراء مؤمنین ہوں گے اور (میرا یہ کلام بطور) فخر نہیں ہے۔ آیت : ورفع بعضھم درجات کی تفسیر میں یہ حدیث گذر چکی ہے۔ فقیر وہی ہوتا ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو صوفیہ کے پاس بھی کچھ نہیں ہوتا نہ اپنا وجود، نہ متعلقات وجود (وہ اپنی ہستی مرضی مولی کے حصول کے لیے وقف کردیتے ہیں) امراض نفسانیہ اور باطنی گناہ تو ان سے بالکل ہی سلب ہو چکتے ہیں وجود اور کمالات ہستی ان کے پاس ضرور ہوتے ہیں مگر وہ ان کمالات کو اللہ کی امانت اور ودیعت سمجھتے ہیں اور ہر کمال کو خدا داد جانتے ہیں اور ہر نیکی کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں (گویا اپنی ذات کو نیکی سے متصف بھی نہیں کرتے اور نہ کسی اچھے کام کا صدور اپنی ذات سے جانتے ہیں) اسی لیے کسی اچھے کام سے ان کے اندر غرور پیدا ہوتا ہے نہ فخر، نہ الوہیت باطلہ کا کوئی شائبہ۔ حدیث مذکور میں حضور اقدس نے اپنے ساتھ سترّ ہزار کا داخلہ بتایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ سترّ ہزار ہوں گے غالباً اوّل سترّ ہزار سے تو حضور کی مراد وہ لوگ ہیں جو بجائے خود کامل ہونے کے بعد دوسرے کاملوں کے لیے رہنما ہوتے ہیں جیسے انبیاء اور بہت سے اولیاء مرشدین ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایسے سترّ ہزار علماء راسخین اور اولیاء صالحین اور صدیقین ہوں گے جن کے لیے اوّل گروہ راہنما اور مرشد ہوتا ہے اوّل گروہ کامل گروں کا ہے اور دوسرا کاملوں کا۔ رہا اللہ کے تین لپ بھر لوگوں کا داخلہ۔ تو ظاہر ہے کہ اس سے مراد کثرت ہے (ورنہ اللہ کے لپ کا نہ کوئی مفہوم ہے نہ لپوں کی تعداد کا) اللہ کے تو ایک لپ میں اوّل آخر سارا جہان آجا تا ہے (تین لپ کا کیا معنی) قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اور تمام آسمان لپٹے لپٹائے اس کے دست قدرت میں ہوں گے پس غالباً تین لپ فرمانے سے انسانوں کی تین قسمیں مراد ہیں ایک گروہ وہ جنہوں نے راہ خدا میں اپنی جانیں دیدیں یعنی شہداء۔ دوسرا گروہ جنہوں نے مرضی مولیٰ کی طلب میں اپنی عمریں اس کی اطاعت میں صرف کردیں یہ گروہ ان باصفا مریدوں کا ہے جو مذکورۂ بالا مکملین و کاملین کے دامن سے وابستہ ہے۔ تیسرا گروہ وہ جنہوں نے مرضی خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے مال خرچ کئے یہ گروہ اوّل اور دوسرے نمبر کے گروہ کے درجہ تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان کی راہ پر چلنے والا ضرور ہے (پس یہی تین گروہ اللہ کے تین لپوں میں ہوں گے اور ہر لپ بھر کر اللہ ایک ایک گروہ کو جنت میں داخل فرمائے گا) رب پر ہی بھروسہ رکھنا صوفیہ کی باطنی صفت ہے اور راتوں کو ذکر و عبادت کے لیے بستروں سے پہلو الگ رکھنا ظاہری علامت ہے۔ بخاری (رح) مسلم (رح) اور امام احمد (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور مسلم وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب آیت : وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ ٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہ نازل ہوئی تو صحابہ ؓ پر یہ بات بہت شاق گذری اور دو زانو بیٹھ کر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ( نماز، روزہ جہاد اور خیرات کا ہم کو حکم دیا گیا تھا اس کو ادا کرنے کی ہم میں طاقت تھی لیکن اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی اس کو برداشت کرنے کی تو ہم میں طاقت نہیں (ہم نفسانی اور قلبی خطرات پر کس طرح قابو پاسکتے ہیں اور کس طرح محاسبہ سے بچ سکتے ہیں) حضور ﷺ نے جواب میں فرمایا : کیا تم وہ بات کہنی چاہتے ہو جو تم سے پہلے دونوں کتابوں والوں (یہودیوں و عیسائیوں) نے کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا : سَمِعْنَا و عَصِیْنَا نہیں ایسا نہ کہو بلکہ یوں کہو : سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرحسب الحکم لوگ یہ آیت پڑھنے لگے جب زبانوں پر یہ الفاظ خوب رواں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی۔
Top