Dure-Mansoor - Al-Baqara : 284
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ١ؕ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنْ : اور اگر تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو مَا : جو فِيْٓ : میں اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل اَوْ : یا تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا بِهِ : اس کا اللّٰهُ : اللہ فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے نفسون میں ہے یا اس کو پوشیدہ رکھو اللہ اس کا محاسبہ فرمائے گا، پھر جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) سعید بن منصور، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت شہادت کے بارے میں نازل ہوئی۔ (2) ابن جریر، ابن المنذر مقسم کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت شہادت کو چھپانے اور اس کو قائم کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ (3) احمد، مسلم، ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” للہ ما فی السموت وما فی الارض وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ فیغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر “ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر یہ حکم بھاری ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ان اعمال کے مکلف بنائے گئے جس کی ہم طاقت رکھتے ہیں (جیسے) نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ اور یہ آیت ہم پر اتاری گئی اور ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات کے کہنے کا ارادہ رکھتے ہو جیسے تم سے پہلے اہل کتاب والوں نے کہی تھی کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی، بلکہ تم یوں کہو لفظ آیت ” سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر “ جب قوم نے اس کو پڑھا اور ان کی زبانیں اس کے ساتھ چلنے لگیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے پیچھے یہ آیت اتاری ” امن الرسول۔۔ الخ “ جب انہوں نے اس کام کو کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا اور یہ آیت اتاری لفظ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “ آخر تک۔ (4) احمد، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، انم المنذر، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں روایت کی کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب یہ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ نازل ہوئی تو اس میں سے کوئی چیز (پریشانی) ان کے دلوں میں داخل ہوئی تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا آپ نے فرمایا تم کہو ہم نے سن لیا ہم نے اطاعت کی اور ہم نے تسلیم کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان کو ڈال دیا (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمؤمنون کل امن باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ وقالوا سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت ربنا لا تؤخذنا ان نسینا او اخطانا “ پھر فرمایا (اے اللہ) آپ نے اس کام کو کرلیا (اور اب) ” ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا “ (یعنی ہم پر ایسا بوجھ کو نہ اٹھوائیے جو آپ نے ان لوگوں پر اٹھوائے تھے جو ہم سے پہلے تھے پھر فرمایا (اے اللہ) آپ نے اس کام کو کرلیا (اور اب) ” ربنا ولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ “ پھر فرمایا اے اللہ ! آپ نے یہ کام بھی کرلیا، (اور اب) ” واعف عنا واغفرلنا وارحمنا “ پھر فرمایا اے اللہ ! آپ نے اس کام کو کرلیا یعنی ہم سے درگزر فرمایا ہم کو بخش دیا اور ہم پر رحم فرمایا۔ صحابہ پر خوف کا طاری ہونا (5) عبد الرزاق، احمد، ابن جریر، ابن المنذر نے روایت کیا کہ مجاہد (رح) نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے پاس تھا اور انہوں نے اس آیت کو پڑھا تو وہ رونے لگے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ؟ میں نے کہ یہ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا بلاشبہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو شدید غم ہوا اور شدید پریشانی میں ڈوب گئے، اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم تو ہلاک ہوجائیں گے اگر ہم اپنے بولنے پر اور اپنے عمل کرنے پر پکڑے گئے، لیکن ہمارے دل ہاتھوں میں نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تم کہو ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، راوی نے کہا پھر اس آیت ” امن الرسول “ نے اس (حکم) کو منسوخ کردیا ” وعلیھا ما اکتسبت “ تک اب ان کے لیے دل کی بات جائز ہوگئی لیکن وہ اعمال سے پکڑے جائیں گے۔ (یعنی اعمال کا مواخذہ ہوگا) ۔ (6) عبد بن حمید، ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں، ابن جریر (یعنی اعمال کا مواخذہ ہوگا) طبرانی نے شعب میں سعید بن مرجانہ (رح) سے روایت کیا اس درمیان کے ہم عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے یہ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ پڑھی اور فرمایا اللہ کی قسم ! اگر ہم کو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ پکڑنا چاہیں تو ہم ضرور ہلاک ہوجائیں گے پھر (اتنا) روئے یہاں تک کہ ان کی ہچکی بندھ گئی ابن مرجانہ (رح) نے فرمایا کہ میں وہاں سے اٹھ کر حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان کو وہ بات بتائی جو ابن عمر نے فرمائی تھی، اس کی تلاوت کے وقت جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ بھی بتایا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن کی مغفرت فرمائے، مجھے قسم ہے اپنی عمر کی جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے اس میں سے مسلمانوں کو ایسے ہی پایا جیسے عبد اللہ بن عمر ؓ کو پایا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “ آخر سورت تک (پھر) ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ وسوسہ تھا ان چیزوں میں سے جس کی مسلمانوں کو طاقت نہیں تھی، اور یہ کام ہوگیا اس بات کی طرف کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا، کہ ہر ایک آدمی کے لیے وہی (بدلہ) ہوگا جو اس نے کمایا اور اس کے لیے وہی سزا ہوگی قول سے اور عمل سے جو اس نے کمایا۔ (7) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، نحاس نے اپنی ناسخ میں اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) سالم (رح) سے روایت کیا کہ ان کے والد (عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ تو ان کی آنکھیں بہہ پڑیں یہ بات جب ابن عباس ؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا ابو عبد الرحمن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بھی ایسا ہی کیا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تھی، اس آیت (کے حکم) کو منسوخ کردیا (اس آیت نے) جو اس کے بعد ہے لفظ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ (8) ابن ابی شیبہ، احمد نے الزہد میں، عبد بن حمید نے نافع (رح) سے روایت کیا بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ حضرت ابن عمر ؓ اس آیت پر (جب) آتے تھے مگر روتے تھے (وہ آیت یہ تھی) لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ آخری آیت تک۔ اور فرماتے تھے کہ یہ گنتی بہت سخت ہے۔ (9) بخاری، و بیہقی نے شعب میں مروان اصغر (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی جس کو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ابن عمر ؓ تھے انہوں نے فرمایا کہ اس آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ (کے حکم) کو بعد والی آیت نے منسوخ کردیا۔ (10) عبد بن حمید اور ترمذی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی جس کو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ابن عمر ؓ تھے انہوں نے فرمایا کہ اس آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ نازل ہوئی تو (اس آیت نے) ہم کو غمگین کردیا ہم نے عرض کیا ہم میں سے کوئی ایک اپنے دل میں بات کرتا ہے تو اس کا بھی حساب لیا جائے گا ہم نہیں جانتے کہ اس سے مغفرت ہوگی یا نہیں اس کے بعد یہ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “ نازل ہوئی۔ تو (پہلی آیت کے حکم کو) اس (آیت) نے منسوخ کردیا۔ (11) سعید بن منصور ابن جریر اور طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت ” لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “ کے نازل ہونے سے پہلے محاسبہ تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے اس آیت کے حکم کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے تھی۔ (12) ابن جریر نے قتادہ کے طریق سے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت کو لفظ آیت ” لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “ نے منسوخ کردیا۔ (13) سفیان، عبد بن حمید، بخاری مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اور ابن المنذر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ خیال معاف کر دئیے ہیں جو دل میں آئیں جب تک زبان سے نہ نکالیں یا ہاتھ پاؤں سے ان پر عمل کریں۔ ہر آسمانی کتاب میں موجود آیت (14) الفریابی، عبد بن حمید اور ابن المنذر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو یا کسی رسول کو نہیں بھیجا کہ جس پر کتاب اتاری ہو اور اس میں یہ آیت نازل نہ ہو لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ فیغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر۔ “ تو امتوں نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر انکار کیا اور کہنے لگا کہ ہم پکڑے جائیں گے جو کچھ ہم دلوں میں سوچتے ہیں لیکن ہمارے اعضاء وجوارح نے عمل نہیں کیا تو وہ کافر اور گمراہ ہوجاتے تھے جب یہ آیت نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم پکڑے جائیں گے ان باتوں سے جو ہم اپنے دلوں میں سوچتے ہیں حالانکہ ہمارے اعضاء وجوارح نے عمل نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا ہاں ! تم لوگ (اللہ تعالیٰ کے فرمان کو) سنو اور اطاعت کرو اور اپنے رب سے (مغفرت) طلب کرو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول (نازل ہوا) لفظ آیت ” امن الرسول “ (آخر تک) تو اللہ تعالیٰ ان کے دل کی بات کو ان سے معاف کردیا مگر جو اعضاء جوارح نے کام کیا (وہ معاف نہیں ہوگا) ان کے لیے اجر ہوگا جو کچھ انہوں نے خیر کا کام کیا اور ان پر ہی وبال ہوگا جو کچھ بھی انہوں نے گناہ کا کام کیا پھر فرمایا (یوں کہو) لفظ آیت ” ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا او اخطانا “ تو (اس آیت سے) اللہ تعالیٰ نے یوں خطا اور نسیان کو بھی معاف کردیا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا “ یعنی وہ لوگ اس کام کی تکلیف نہیں دئیے گئے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے اور ان پر وہ بوجھ نہیں اٹھوایا گیا جو ان سے پہلی امتوں پر تھا ان سے معاف کردیا ان کو بخش دیا اور ان کی مدد فرمائی۔ (15) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے علی ؓ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ سے تمہاری چھپی ہوئی باتیں اور ظاہری مراد ہیں ” یحاسبکم بہ اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا حساب لیں گے اس (حکم) کو منسوخ نہیں فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب ساری مخلوق کو جمع فرمائیں گے تو فرمائیں گے میں تم کو بتاتا ہوں تمہاری وہ باتیں جو تم دلوں میں چھپاتے تھے جو میرے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہیں لیکن ایمان والوں کو جب ان کو بتائیں گے تو ان کے دلوں کی باتوں کو معاف کردیں گے اور فرمایا ” یحاسبکم بہ اللہ “ سے مراد ہے یعنی تم کو (تمہارے چھپے ہوئے اعمال) بتادیں گے لیکن شک کرنے والوں کو یعنی کافروں اور منافقوں کو بتائیں گے جو کچھ وہ تکذیب (یعنی اللہ کے دین کو جھٹلایا کرتے) تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” ولکن یؤخذکم بما کسبت قلوبکم “ (یعنی تم پکڑے جاؤ گے جو کچھ تمہارے دلوں نے کمایا یعنی دلوں میں برے کاموں کے بارے میں سوچا) ۔ (16) عبد بن حمید، ابو داؤد نے اپنی نحاسخ میں ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم اور نحاس نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ سے مراد ہے یقین میں سے ہے اور شک میں سے (جو کچھ تم ظاہر کرو گے یا اس کو چھپاؤگے) ۔ (17) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ سے مراد ہے کہ تیرے عمل کا چھپانا اور اس کا اعلانیہ کرنا لفظ آیت ” یحاسبکم بہ اللہ “ سے (اللہ تعالیٰ حساب لیں گے اس چیز کا بھی جو مؤمن بندہ اپنے دل میں خیر (کی نیت) کو چھپاتا ہے تاکہ اس پر عمل کرے اگر اس نے عمل کرلیا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گے اور اگر وہ اس کے کرنے پر قادر نہیں ہوا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اس وجہ سے کہ وہ مؤمن ہے اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے چھپے ہوئے اور اعلانیہ (نیک) کاموں سے راضی ہوتے ہیں اگر اس نے اپنے دل میں برے کام کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس دن بتائیں گے جس دن بھیدوں کا بھی امتحان لیا جائے گا اگر اس نے عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو نہیں پکڑیں گے یہاں تک کہ وہ اس کے ساتھ عمل نہ کرے اگر اس نے عمل کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ اس سے در گذر فرما دیں گے جیسا کہ فرمایا لفظ آیت ” اولئک الذین نتقبل عنہم احسن ما عملوا ونتجاوز عن سیاتہم “ (الاحقاف آیت 16) ۔ (18) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ (کا حکم) منسوخ کردیا گیا اور فرمایا لفظ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ (19) طبرانی اور بیہقی نے شعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر (یہ حکم) بھاری ہوا اور ان پر مشقت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے (یہ حکم) منسوخ فرمادیا اور اللہ تعالیٰ نے (یہ حکم) نازل فرمایا لفظ آیت ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ (20) طبرانی نے مسند الشامیین میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ “ نازل ہوئی تو ابو بکر، عمر، معاذ بن جبل اور سعد بن زارہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرج کیا کہ ہم پر اس سے زیادہ سخت آیت نازل نہیں ہوئی۔ (21) ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے بلاشبہ میری کتاب نے تمہارے ان اعمال کو لکھا جو اس میں سے ظاہر تھے اور جو کچھ تم نے اپنے دلوں میں چھپایا تھا، تو میں آج ان کا حساب لوں گا، جس کو چاہوں گا بخش دوں گا، اور جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا۔ (22) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت محکم ہے کوئی چیز منسوخ نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بتائیں گے جو تو نے اپنے دل میں اس طرح اور اس طرح چھپایا تھا، اور (پھر) اس کا مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔ (23) الطیالسی، احمد، ترمذی (نے اس کو حسن کہا) ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں امیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “ اور ” من یعمل سوء یجز بہ “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کسی نے مجھ سے اس بارے میں نہیں پوچھا جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا پھر فرمایا یہ اللہ کا عذاب ہے بندہ کو اس چیز میں جو اسے بخار یا کسی مصیبت سے پہنچے، یہاں تک کہ سامان تجارت جو اس نے اپنی قمیص کی آستین میں رکھا تھا پھر اس کو گم کردیا اور گھبرا گیا پھر اس کو اپنے کنبہ کے پاس پایا، یہاں تک کہ آدمی نکل جاتا ہے اپنے گناہوں سے (پاک ہو کر) جیسا کہ سونا نکل آتا ہے بھٹی سے (صاف ہو کر) ۔ (24) سعید بن منصور، ابن جریر نے ضحاک (رح) کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت ” وان تبدوا ما فی انفسکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اس کے گناہ کے بقدر اس پر غم اور رنج کو بھیجا جاتا ہے، تو یہ محاسبہ ہوا۔ (25) ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہر بندہ (جب) کسی برے کام کا اور گناہ کا ارادہ کرتا ہے اور اپنے نفس کو (گناہ کرنے پر) آمادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کا حساب لے لیتے ہیں وہ ڈرتا ہے اور غمگین ہوتا ہے اور مضبوط ارادہ کرتا ہے مگر اس میں سے کسی چیز کو نہیں پاتا، جیسا کہ وہ برے کام کا ارادہ کرتا ہے مگر اس پر ذرا بھی عمل نہیں کرتا۔ (26) عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فیغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء “ پڑھا یعنی دونوں کو رفع کے ساتھ۔ (27) اعمش (رح) نے ان دونوں کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے۔ (28) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابن مسعود ؓ کی قرات میں یوں ہے لفظ آیت ” یحاسبکم بہ اللہ فیغفر لمن یشاء “ بغیر فاء کے۔ (29) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرات میں یوں ہے لفظ آیت ” فیغفر لمن یشاء “ سے مراد ہے کہ (اللہ تعالیٰ ) جس کے لیے چاہیں گے اس کے بڑے گناہ معاف کردیں گے اور چھوٹے گناہوں پر عذاب دیں گے جس کے لیے چاہیں گے۔
Top