Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 284
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ١ؕ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنْ : اور اگر تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو مَا : جو فِيْٓ : میں اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل اَوْ : یا تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا بِهِ : اس کا اللّٰهُ : اللہ فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو وہ تم سے ضرور حساب لے گا وہ جسے چاہے بخش دے ، جسے چاہے عذاب دے اس نے ہرچیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے
آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے : 504: یہ آیت ایک لحاظ سے گزشتہ آیت کا تتمہ ہے یا اس کا تکملہ ، جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ شہادت کا چھپانا حرام ہے۔ اگر تم نے معاملہ کو جانتے ہوئے چھپایا تو رب کریم جو علیم وخبیر ہے تم سے اس کا حساب لے گا یہ تو اس کی مخصوص صورت اور مخصوص حکم ہے اور عموم الفاظ کے اعتبار سے عام ہے اور تمام اعتقادات ، عبادات اور معاملات کو شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا مشہور قول ہی اس کی تفسیر ہے۔ اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کے تمام اعمال کا محاسبہ فرمائے گا اور وہ عمل بھی جس کو وہ کر گزرے ہیں اور وہ بھی جن کا دل میں پختہ ارادہ کرلیا ہے اور دل میں چھپا کر رکھا مگر عمل کی نوبت نہیں آئی۔ ارکانِ خلافت کو بتایا جا رہا ہے کہ زمین و آسمان کی حکومت اللہ کے قبضہ میں ہے البتہ یہ امانت تمہارے سپرد کردی گئی ہے ، اس لیے اترا نہ جانا بلکہ اعلیٰ ترین حکمران جماعت ہونے کی وجہ سے تمہارا احتساب اور بھی زیادہ سخت ہوگا۔ اگر دوسروں کے اعمال پر نظر ہوگی تو تمہارے ارادے بھی ہمارے محاسبہ سے بچ نہ سکیں گے۔ A نزد یکاں را بیش بود حیرانی ؟ صحابہ ؓ اس حکم کو سن کر چیخ اٹھے اور کانپ کر رہ گئے اور نبی کریم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ وساوس و خطرات سے بچنا مشکل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم یہودیوں کی طرح ” سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا “ نہ کہنے لگ جاؤ ۔ اس پر سب کی گردنیں تسلیم و رضا کے طور پر جھک گئیں اور فوراً بعد دوسری آیت نازل ہوئی ، جس نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ بعض لوگوں نے آیت کو : ” لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا 1ؕ “ سے منسوخ جانا ہے۔ حالانکہ ان آیات میں نسخ کی بحث ماننا ہی بیکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت منسوخ نہیں بلکہ جس وقت صحابہ کرام ؓ پریشان و مضطرب ہو کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو غایت خشیت اور شدت خوف کی بناء پر آپ ﷺ کی نظر بھی الفاظ کے ظاہری عموم پر پڑی ، مگر اللہ تعالیٰ نے فوراً بات کو واضح کردیا اور صحابہ ؓ کے اشکال کو کھول کر رکھ دیا کہ یاد رکھو : ” اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی قدرت سے زائد تکلیف نہیں دیتا۔ “ جس کا حاصل یہ ہے کہ غیر اختیاری وساوس اور خیالات پر مواخذہ نہیں ہوگا ، اس پر صحابہ کرام ؓ کو اطمینان ہوگیا۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں بروایت ابن عباس نقل کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے : 505: انسان پر جو اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں یا حرام کئے گئے ہیں وہ کچھ تو ظاہری اعضاء وجوارح سے متعلق ہیں جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور تمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں اور کچھ اعمال و احکام بھی ہیں جو انسان کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان و اعتقاد کے تمام مسائل اس میں داخل ہیں اور کفر و شرک جو سب سے زیادہ حرام و ناجائز ہیں ان کا تعلق بھی انسان کے قلب ہی سے ہے۔ اخلاق صالحہ ، تواضع ، صبر ، قناعت ، سخاوت وغیرہ اسی طرح اخلاق رذیلہ ، کبر ، حسد ، بغض ، حب ّدنیا ، حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ میں حرام قطعی ہیں۔ ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضاء وجوارح سے نہیں بلکہ دِل سے اور باطن سے ہے۔ سورئہ بقرہ قرآن کریم کی ایسی بڑی اور اہم سورة ہے جس میں احکام الٰہی کا بڑا حصہ آگیا ہے۔ اس سورت میں اصول اور فرعی معاش و معاد کے متعلق اہم ہدایات نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، قصاص ، حج ، جہاد ، طہارت ، طلاق ، عدت ، خلع ، رضاعت ، حرمت شراب ، ربا اور قرض ، لین دین کے جائز و ناجائز طریقوں کا تفصیلی بیان آگیا ہے۔ اس لئے حدیث میں اس سورت کا نام ” سنام القرآن “ بھی آیا ہے یعنی قرآن کریم کا سب سے بلند ترین حصہ اور ان تمام احکام کی تعمیل میں سب کی روح اخلاص ہے ۔ یعنی کسی کام کو کرنا یا اس سے بچنا دونوں ہی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے ہوں۔ ان میں نام و نمود یا دوسری نفسانی اغراض شامل نہ ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اخلاص کا تعلق انسان کے باطن اور قلب سے ہے۔ سب کی دوستی اس پر موقوف ہے۔ اس لئے سورت کے آخر میں اس آیت کے ذریعہ انسانوں کو تنبیہ کردی گئی کہ فرائض کی ادائیگی یا محرمات سے پرہیز کے معاملہ میں مخلوق کے سامنے تو حیلہ جوئی کے ذریعہ بھی راہ فرار اختیار کی جاسکتی ہے مگر حق تعالیٰ علیم وخبیر ہے اس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں اس لئے جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ رقیب و حفیظ میرے سب ظاہری اور باطنی حالات کو دیکھ رہا ہے اور سب کا حساب قیامت کے روز دینا ہے۔ یہی وہ روح ہے جو قرآن کریم انسانوں میں پیدا کرتا ہے کہ ہر قانون کے اول یا آخر میں خوف الٰہی اور فکر آخرت کا ایسا محافظ ان کے قلوب پر بٹھاتا ہے کہ وہ رات کی اندھیری میں اور خلوتوں میں بھی کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اندازہ کرنے کا مطلب قبل ازیں کئی بار بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ بس اپنے ہی ارادہ یا مشیت کے علاوہ کسی اور قانون کا پابند نہیں ہے بلکہ وہ مختار کُل ہے جو قانون اس نے بنائے ہیں اسی حیثیت سے بنائے ہیں ، کسی کی پابندی سے نہیں ۔ وہ قادر مطلق ہے اس نے کوئی قانون ایسا نہیں بنایا کہ وہ قانون بنانے کے بعد اس کے سامنے مجبور ہو۔ اس نے اپنے ہی اختیار سے یہ فرمایا ہے کہ میں اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی خلاف ہونے دیتا ہوں ۔ سزا دینے سے معاف کرنے کے لئے بھی اس نے قانون اپنی مرضی سے بنائے ہیں اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس طرح اس کا قانون بھی ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا۔ وہ کسی کے سامنے مجبور نہیں بلکہ ہر قانون اس کی ذات کے مقابلہ میں کمزور ہے کیونکہ اس کا بنایا ہوا ہے۔ اور خلق خالق پر زور آور نہیں ہو سکتی۔
Top