Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 59
اِ۟لَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١ۛۚ اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِهٖ خَبِیْرًا
الَّذِيْ : اور جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا بَيْنَهُمَا : اور جو ان دونوں کے درمیان فِيْ : میں سِتَّةِ اَيَّامٍ : چھ دنوں ثُمَّ اسْتَوٰي : پھر قائم ہوا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر اَلرَّحْمٰنُ : جو رحم کرنے والا فَسْئَلْ : تو پوچھو بِهٖ : اس کے متعلق خَبِيْرًا : کسی باخبر
) وہ) وہی ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ دونوں کے درمیان ہے اسے پیدا کردیا چھ دنوں میں پھر وہ تخت پر قائم ہوگیا،67۔ (وہی ہے خدائے) رحمن سو اس کی شان کسی جاننے والے سے پوچھا چاہیے،68۔
67۔ تخت یعنی تخت حکومت۔ (آیت) ” ستۃ ایام، استوی “۔ عرش سب پر مفصل حاشیے سورة اعراف رکوع 7 میں گزر چکے۔ 68۔ (کافروں ومشرکوں، منکروں کو کیا خبر اور کیا قدر ؟ ) مشرک جاہلی قومیں اپنے دیوی دیوتاؤں کو ہوا بنائے ہوئے ان سے محض ڈرنا، سہمنا، خوف کرنا جانتی ہیں۔ صفت رحمانیت کا مظہر کامل ہونا ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ خود مسیحیوں کو بھی اسی صفت باری کے سمجھنے میں ٹھوکر لگی، اور اسی سے انہیں کفار وغیرہ کے عقاید تراشنے کی ضرورت پڑی۔ (آیت) ” بہ “۔ میں ب عن کے معنی میں ہے، یہ بھی کیا گیا ہے کہ سوال کا صلہ جس طرح عن آتا ہے۔ ب بھی آتا ہے۔ اہل نحو سے دونوں قول منقول ہیں۔ والباء فی بہ صلۃ سئل کماتکون عن صلتہ (کشاف) والسوال کما یعدی بعن لتضمنہ معنی التفتیش یعدی بالیاء لتضمنہ معنی الاعتناء (بیضاوی) قال الزجاج معناہ عنہ (کبیر)
Top