Aasan Quran - Al-Furqaan : 59
اِ۟لَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١ۛۚ اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِهٖ خَبِیْرًا
الَّذِيْ : اور جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا بَيْنَهُمَا : اور جو ان دونوں کے درمیان فِيْ : میں سِتَّةِ اَيَّامٍ : چھ دنوں ثُمَّ اسْتَوٰي : پھر قائم ہوا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر اَلرَّحْمٰنُ : جو رحم کرنے والا فَسْئَلْ : تو پوچھو بِهٖ : اس کے متعلق خَبِيْرًا : کسی باخبر
وہ ذات جس نے چھ دن میں سارے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں پیدا کیں، پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا (19) وہ رحمن ہے، اس لیے اس کی شان کسی جاننے والے سے پوچھو۔
19:”استواء“ کے لفظی معنی سیدھا ہوجانے اور مضبوطی سے بیٹھ جانے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء فرمانے کا کیا مطلب اور اس کی کیا کیفیت ہے ؟ یہ بات ہماری محدود عقل سے ماورا ہے، اور ان متشابہات میں سے جن کا ذکر سورة آل عمران کے بالکل شروع میں آیا ہے۔ اس لیے اس پر جوں کا توں ایمان رکھنا چاہیے۔ اور اس کی کیفیت کی تحقیق و جستجو میں نہیں پڑنا چاہیے۔
Top