Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور جب وہ ان سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے ہیں،263 ۔ اور جب آپس میں تنہا ہوتے ہیں،264 ۔ تو کہتے ہیں کہ ارے کیا تم انہیں وہ بتا دیتے ہو جو خدا نے تم پر منکشف کیا ہے،265 ۔ جس سے وہ تمہیں تمہارے پروردگار کے حضور میں قائل کردیں گے ، 266 سو کیا تم نہیں سمجھتے ؟267 ۔
263 ۔ اب ذکر منافقین یہود کا شروع ہورہا ہے۔ یہود کی ایک تعداد تو مدینہ میں علانیہ دشمن اسلام تھی ہی۔ لیکن کچھ ان کے علاوہ اس قماش کے بھی تھے کہ مسلمانوں کے سامنے اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے تھے یہ ذکر انہیں منافقین کا ہے۔ یعنی المنافقین من الیھود (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ 264 ۔ یعنی یہ دیکھ لیتے ہیں کہ آس پاس کوئی مسلمان تو نہیں سن رہا ہے۔ 265 ۔ یعنی وہ اسرار وتعلیمات جو تمہاری مقدس کتابوں اور آسمانی صحیفوں میں محفوظ ہیں۔ مثلا آخری نبی کی بشارتیں اور علامتیں۔ یہود جب آپس میں ملتے، تو ایک دوسرے کو قائل کرتے کہ تم اپنے ہاں کی پیشگوئیاں اور خاص تعلیمات مسلمانوں پر کیوں ظاہر کرکے خواہ مخواہ ان کے ہاتھ میں ہتھیار اپنے خلاف دے دیتے ہو۔ انہیں معلومات سے وہ ہمیں قائل کرتے ہیں۔ یہی دلائل وہ ہمارے تمہارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔۔۔ گویا یہ احمق یہ سمجھ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اسلام اور پیروان اسلام کو جو کچھ بھی علم ہوگا محض انہیں کے بتانے ہی سے ہوسکتا ہے اور بس اس کے سوا ان پر علم ومعلومات کے کل دروازے بند ہیں ! یہ جہل مرکب بالکل اسی طرح کا تھا، جس میں آج سارا فرنگستان مبتلا ہے۔ یہ لوگ قرآن مجید پر جب تبصرہ کرنے بیٹھتے ہیں۔ تو اس مفروضہ کو بنیاد کار بنالیتے ہیں، کہ اس میں جو کچھ بھی مذکور ہے وہ یہود کی توریت مروجہ، مسیحیوں کی انجیل مروجہ، اور اسی طرح کے دوسرے انسانی ہی ذرائع سے ماخوذ ومنقول ہے۔ اور اس کا تو کوئی امکان دور کا بھی نہیں کہ اس میں کوئی غیبی امداد، وحی والہام کے قسم کے شامل ہو ! لفظ اللہ اب تو ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ لیکن پہلے بھی اس کا استعمال صرف اہل عرب کی زبان پر تھا، یہاں ایسے لوگوں کی زبان سے نقل ہوا ہے جو نہ مسلم تھے نہ عرب، اس لیے بجائے اسی کو بجنسہ لے آنے کے اس کا ترجمہ ” خدا “ درج کیا گیا۔ 266 ۔ (آیت) ” عندربکم ‘ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اور آخرت میں تمہیں قائل کریں گے، چناچہ ایک گروہ نے یہی معنی لیے ہیں۔ المراد یحاجوکم یوم القیمۃ (کبیر۔ عن الاصم) اے عندربکم یوم القیمۃ (جلالین) لیکن زیادہ لگتے ہوئے معنی یہ ہیں کہ اسی دنیا میں تم پر حجت قومی قائم کردیں گے۔ اور (آیت) ” عندربکم یہاں عنداللہ “ کی طرح حجت قوی ومعروف کے معنی میں ہے۔ اس لیے کہ اول تو یہود عالم آخرت کے پوری طرح قائل نہ تھے۔ دوسرے وہاں حجت قائم کرنے کے لیے کسی ایسے ظاہری سہارے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہاں تو کشف حقائق از خود ہو کر رہے گا، اس لیے یہاں گویا احتجاج بہ کتاب اللہ کو عنداللہ سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ امر قدیم ائمہ تفسیر کی عظمت پر بس کرتا ہے، کہ انہوں نے یہود کے عقائد متعلق بہ آخرت کا پورا علم رکھے بغیر بھی یہی پہلو اختیار کرلیا ہے۔ ھو فی کتاب اللہ ھکذا وھو عند اللہ ھکذا بمعنی واحد (کشاف) اے فی حکم اللہ (کبیر۔ عن القفال) قیل ھذا علی اضمار المضاف اے عند کتاب ربکم (مدارک) لیحتجوا علیکم بما انزل ربکم فی کتابہ (بیضاوی) اے فی کتابہ وحکمہ (روح) 267 ۔ (جو مسلمانوں کو اپنے رازوں سے اپنی زبان سے واقف کئے دیتے، اور ان کے ہاتھوں میں اپنے خلاف ہتھیار دیئے دیتے ہو) اب جاکر اکابر یہود کی تقریر اپنے ہم قوموں سے ختم ہوئی۔
Top