Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، کیا تم ان کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں کہ وہ تمہارے رب کے پاس تم سے حجت کریں۔ کیا تم سمجھتے نہیں ؟
“اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں”۔ یعنی دین وایمان کے اجارہ دار تنہا مسلمان ہی نہیں ہیں ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اس قول سے ان کا مطلب جیسا کہ آیات ۸-۹ کی تفسیر کرتے ہوئے ہم بیان کر چکے ہیں محض مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا تھا۔ وہ اس قول کے ظاہر الفاظ سے مسلمانوں کو فریب دیتے تھے تاکہ مسلمان ان کے اوپر اعتماد کرنے لگیں خود اپنے ذہن میں وہ اس کا مطلب یہ لیتے تھے کہ وہ اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر تو ایمان رکھتے ہی ہیں ایمان اور کس چیز کو کہتے ہیں۔ قرآن نے یہاں مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے اس قسم کے پرفریب حملوں کے دام میں آ کر ان سے کچھ اچھی امیدیں نہ لگا بیٹھیں اس لئے کہ ان کی خلوت اور جلوت کی باتوں میں بڑا فرق ہے۔ سامنے تو یہ آمَنّا کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب یہ اپنی خاص مجلسوں میں ہوتے ہیں تو وہاں آپس میں ایک دوسرے کا بڑی شدت سے محاسبہ کرتے ہیں۔ اگر اظہار رواداری کے جوش میں تمہارے سامنے ان میں سے کسی کی زبان سے غلطی سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جو اسلام کے حق میں ہوتی ہے تو یہ اپنی مجلسوں میں اس پر سختی سے گرفت کرتے ہیں کہ کیا تم مسلمانوں کے سامنے نبی آخر الزمان ﷺ اور اسلام سے متعلق وہ باتیں کھولتے ہو جوخدا نے اپنے صحیفوں کے ذریعے سے صرف تم پر کھولی ہیں اور اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ تمہارے انہی بیانات کو مسلمان قیامت کے دن تمہارے خلاف شہادت اور حجت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ ۱؂ ۱؂ اس موقع پر اسی سورہ کی تفسیر آیات ۸۔۱۴ تدبر قرآن میں پڑھ لینی چاہیے۔ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ایک ہی مضمون دونوں جگہ بیان ہوا ہے۔
Top