Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنے آپ کو ایمان والوں سے ظاہر کرتے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” جو کچھ تمہیں اللہ نے علم دیا ہے وہ ان لوگوں پر کیوں ظاہر کرتے ہو ؟ اس لیے کہ وہ تمہارے خلاف تمہارے رب کے ہاں اس سے دلیل پکڑیں ، کیا تم اتنے عقل کے کورے ہو ؟ “
حق چھپانے کے عادی ہوچکے ہیں : 152: نفاق کا مرض ایسا ہے کہ وہ جس گروہ میں بھی ہوگا وہ چکنی چپڑی باتیں کرنے کے عادی ضرور ہوں گے اور ظاہر ہے چکنی چپڑی باتیں وہی ہو سکتی ہیں جو اندر اور باہر سے ایک طرح کی نہ ہوں۔ اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہی کو چکنی چپڑی کہا جاتا ہے۔ اس وصف کو بیان کرنے کے لئے محاورہ استعمال ہوتا ہے کہ ” ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور “ منافقین یہود کی حالت بھی یہی تھی کہ وہ مسلمانوں پر اپنا اخلاص و ایمان ظاہر کرنے کے لئے کبھی کبھی ان پیش گوئیوں کو بیان کردیا کرتے تھے جن میں نبی ﷺ کا ذکر ہوتا۔ اس طرح کی باتیں کر کے وہ مسلمانوں کو اپنی ہمدردیاں جتلاتے تھے کہ ہم تمہارے خیر خواہ ہیں تاکہ مسلمانوں کی اندرونی حالت سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ لیکن ان مجلسوں سے اٹھ کر جب وہ اپنے احبار ، رہبان اور سیاسین کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان مجلسوں میں وہ اپنی چکنی باتوں کا ذکر بھی کرتے تو وہ ان کو تنبیہ کرتے کہ ان امور کی اطلاع مسلمان کو کس لیے دیتے ہو۔ یہی چیزیں تو تمہارے رب کے ہاں ہمارے لئے باعث الزام بن جائیں گی اور ہم اللہ کے روبرو ملزم قرار دیئے جائیں گے لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے تھے کہ ان کے چھپانے سے ہوتا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے وہ یقیناً وحی والہام کے ذریعے پیغمبر اسلام کو ان پیش گوئیوں کی اطلاع دے دے گا چناچہ ابھی آپ مکہ ہی میں تھے کہ ناموس الٰہی نے آپ ﷺ کو مثیل موسیٰ قرار دے دیا۔ ارشاد الٰہی ہوا کہ : ” ہم نے تمہاری جانب ایک رسول بھیجا تمہارے سامنے حق کی شہادت دینے والا جس طرح فرعون کی جانب ہم نے ایک رسول بھیجا تھا۔ “ ان کے حق چھپانے کا طریقہ کیا تھا ؟ 153: ” عِنْدَ رَبِّكُمْ 1ؕ“ تمہارے رب کے ہاں کا مطلب اکثر تو یہی سمجھا گیا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن یعنی آخرت میں تمہیں دلیل سے قائل کرلیں گے لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں بلکہ درست معنی یا اس مضمون کے ساتھ زیادہ لگتے ہوئے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا میں تم پر حجت قوی قائم کردیں گے اس لئے کہ اللہ کے سامنے حجت قائم کرنے کے لئے کسی ایسے ظاہری سہارے کی ضرورت ہی کیا ہوگی وہاں تو کشف حقائق قانون الٰہی کے مطابق از خود ہو کر رہے گا۔ اس لئے قرین قیاس اور عقل کی بات یہی ہے کہ اس جگہ احتجاج بکتاب اللہ کو عند اللہ سے تعبیر کیا ہے کہ مسلمانوں کو تمہاری باتوں سے رہنمائی حاصل ہوگی اور وہ تمہاری کتاب یعنی تورات کا مطالعہ کر کے اپنے رسول کی پیش گوئیاں جو ہماری تورات کے اندر موجود ہیں نکال کر ہمارے منہ پر بطور شہادت پیش کریں گے۔ کہ رسول کریم ﷺ کی رسالت کا کیسے انکار کرسکتے ہو۔ تمہاری کتاب تورات میں ہمارے رسول کی یہ یہ پیشگوئیاں آج بھی موجود ہیں اور پھر جب وہ ان کو وہاں سے نکال کر تمہارے سامنے پیش کردیں گے تو پھر تم کیا جواب دے سکو گے کہ تمہاری ہی بتائی ہوئی باتوں نے تمہارا منہ بند کردیا۔ گویا یہی ان کی علمیت کا تضاضا تھا کہ حق کو خود بھی چھپائیں اور دوسروں کو بھی حق چھپانے کے دلائل مہیا کریں تاکہ وہ بھی حق کو ظاہر نہ ہونے دیں۔
Top