Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور (ان کا حال یہ ہے کہ) جب یہ ملتے ہیں ایمان والوں سے، تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، مگر جب یہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں، تاکہ اس طرح وہ تمہارے خلاف حجت قائم کریں، تمہارے رب کے یہاں ؟ کیا تم لوگ سمجھتے نہیں ہو ؟6
221 یہودیوں کی مت ماری کا ایک نمونہ و مظہر : سو اسی طرح مت مار کر رکھ دی جاتی ہے ان لوگوں کی جو راہ ِحق و ہدایت سے سرتابی کرتے، اور جان بوجھ کر منہ موڑتے ہیں۔ بھلا ان لوگوں کو دیکھئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ہدایت پانے والے، اہل کتاب ہونے کا شرف و امتیاز رکھنے والے اور انبیاء کرام ۔ عَلَیْہِمُ الصَّلٰٰٰوۃُ وَ السَّلاَمُ ۔ کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ لیکن حضرت خاتم الانبیاء پر اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی آخری اور کامل و جامع کتاب قرآن مجید پر ایمان لانے سے انکار کر کے یہ لوگ منصہ شرف سے حضیض مذلت میں اس طرح اور اس حد تک گرگئے کہ یہ اپنے ان لوگوں سے اس طرح کہتے تھے جو کہ مسلمانوں میں سے کسی کو آنحضرت ﷺ کی ان صفات میں سے کچھ بتادیں جو کہ ان کی کتابوں میں آپ ﷺ سے متعلق وارد ہوئی تھیں۔ تو یہ ان سے کہتے کہ تم نے ایسے کیوں کیا اور مسلمانوں کو ان کے نبی سے متعلق ان صفات کی خبر کیوں دے دی، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں، اور تمہاری کتاب میں ذکر فرمائی ہیں۔ اس طرح تو مسلمان کل حشر میں تمہارے رب کے یہاں تمہارے خلاف حجت قائم کردیں گے، یعنی اگر تم ان کو بتاؤ گے نہیں، اور حق کو اس طرح چھپائے رکھو گے، تو پھر کوئی بات نہیں، گویا کہ پھر اللہ کو پتہ نہیں چلے گا، اور اس طرح کل قیامت کے روز ان کے خلاف حجت قائم نہیں ہو سکے گی۔ یہ حال ہے اس قوم اور ان لوگوں کا جو ایمان و یقین کے دعویدار اور انبیاء و رسل کی نسل اور ان کی اولاد میں سے ہونے کا زعم اور گھمنڈ رکھتے ہیں، اس وحدہ لاشریک کے بارے میں جو کہ " علیم بذات الصدور " ہے۔ ان لوگوں کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ اگر تم لوگ مسلمانوں کو نبی آخر الزماں سے متعلق ان صفات کی خبر نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں تمہارے خلاف کوئی حجت قائم نہیں ہوگی، گویا اللہ کو تمہارے اس جرم حق پوشی کا پھر کوئی پتہ نہیں چل سکے گا، سو اس سے بڑھ کر اندھے اور اوندھے پن کی اور محرومی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ؟ مگر ان بدبختوں کو اس کا احساس و شعور ہی نہیں جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العظیم -
Top