Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جس وقت آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو اس لیے بتائے دیتے ہو کہ (قیامت کے دن) اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم کو الزام دیں کیا تم سمجھتے نہیں ؟
(2:76) لقوا۔ ماضی جمع مذکر غایب۔ لقی ولقاء (باب سمع) مصدر، وہ ملے۔ مطلب یہ کہ جب وہ ملتے ہیں ۔ جب وہ سامنے آتے ہیں ۔ لقوا اصل میں لقیوا تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا ماقبل کو دیا۔ ی بسبب اجتماع ساکین گرگئی۔ لقی مادہ۔ خلا ماضی واحد مذکر غائب خلاء (باب نصر) مصدر، بمعنی خلوت میں ہونا ۔ اکیلے ہونا ۔ خلا۔ وہ تنہا ہوا ۔ وہ اکیلا ہوا۔ وہ خلوت میں ہوا۔ مطلب۔ جب ان میں سے بعض دوسرے کے پاس خلوت میں ہوتے ہیں۔ (3:75) افتطمعون ان یؤمنوا لکم وقد کان فریق منھم یسمعون کلم اللہ ثم یحرفونہ من بعد ما عقلوہ وھم یعلمون ۔ ۔ أ ہمزہ استفہامیہ۔ ف۔ حرف عطف۔ تطمعون فعل بافاعل۔ ان مصدریہ۔ یؤمنوا فعل اس میں ھم ضمیر مستتر اس کا فاعل ۔ فعل اپنے فاعل سے مل کر ذوالحال لکم جار مجرور متعلق ہوا یؤمنوا فعل کے۔ واؤ حالیہ قد تحقیق کا۔ کان فعل ناقص۔ فریق موصوف منھم جار مجرور متعلق کائن محذوف کے کائن اپنے متعلق سے مل کر صفت ہوئی فریق موصوف کی۔ صفت موصوف سے مل کر اسم ہوا کان کا۔ یسمعون فعل اس میں ھم ضمیر اس کا فاعل کلام مضاف اللہ مضاف الیہ۔ مجاف اپنے مضاف الیہ سے مل کر مفعول ہوا فعل یسمعون کا فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر معطوف علیہ۔ ثم حرف عطف یحرفون۔ فعل مضارع ھم ضمیر اس کا فاعل ہ ضمیر مفعول۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے مل کر ذوالحلال من حرف جار بعد مضاف ما مصدریہ عقلوا فعل ھم ضمیر فاعل ہ ضمیر مفعول ۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ خیر یہ ہوکر ب تاویل مصدر مضاف الیہ ہوا بعد مضاف کا۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور ہوا جار کا ۔ جار مجرور سے مل کر متعلق ہوا یحرفون کا۔ و۔ حالیہ ھم ضمیر مبتداء یعلمون فعل با فاعل۔ فعل اپنے فاعل سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوکر خبر ہوئی مبتدا کی مبتدا خبر سے مل کر حال ہوا ذوالحال یحرفون کا ۔ یحرفون فعل اپنے فاعل (ھم) اور مفعول (ہ) اور متعلق (من بعد) سے مل کر معطوف ہوا۔ معطوف علیہ یسمعون کا۔ معطوف معطوف علیہ سے مل کر خبر ہوئی کان کی۔ کان اپنے اسم اور خبر سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوکر حال ہوا ذوالحلال (ان یؤمنوا) کا ۔ ان یؤمنوا فعل اپنے فاعل (ہم) اور متعلق (لکم) سے مل کر ب تاویل مصدر مفعول ہوا تطمعون کا۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ ہوا۔ اتحدثونھم : الف استفہامیہ ، تحدثون مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر، تحدیث (تفعیل) مصدر بمعنی باتیں کرنا۔ بیان کرنا۔ کہنا۔ ھم ضمیر جمع مذکر غائب (ضمیر کا مرجع مسلمان ہیں) کیا تم ان کو (مسلمانوں کو) بتا دیتے ہو۔ بما ۔ ب حرف جار ہے ما موصولہ فتح اللہ علیکم صلہ ہے اپنے موصول کا۔ موصول وصلہ مل کر مجرور ب کا۔ جار مجرور مل کر فعل تحدثون کے متعلق۔ لیحاجوکم میں لام کی کا ہء بمعنی تاکہ۔ یحاجوا فعل مجارع منصوب جمر مذکر غائب ، مھاجۃ (مفاعلۃ) مصدر کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تاکہ وہ (یعنی مسلمان) جھگڑا کریں تم سے (یعنی اہل یہود سے) افلا تعقلون الف استفہامیہ ہےعاطفہ ۔ حرف استفہامیہ کے حرف عطف سے متقدم ہونے کے متعلق ملاحظہ ہو۔ (2:44) کیا تم نہیں سمجھتے۔ قالوا تحدثونھم ۔۔ تعقلون ۔ وہ (یعنی اہل یہود) کہتے ہیں (اپنے ساتھیوں سے خلوت میں) کیا تم ان کو (یعنی مسلمانوں کو) وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کھولی ہیں (یعنی توراۃ میں جو باتیں دین اسلام کے برحق ہونے کے متعلق آئی ہیں) تاکہ وہ (یعنی مسلمان) تمہارے مقابلہ میں تمہارے رب کے حضور قیامت کے روز بطور حجت پیش کرسکیں۔ کیا تمہیں عقل نہیں ہے۔
Top