Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کئے گئے،649 ۔ جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں،650 ۔ عجب نہیں کہ تم متقی بن جاؤ،651 ۔
649 ۔ صیام جمع ہے صوم کی۔ صوم یا روزہ اصطلاح شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے، پینے اور عمل زوجیت سے روکے رہے، جو روزے فرض ہیں وہ ماہ رمضان کے ہیں۔ غیبت، فحش، بدزبانی، وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزہ میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں، جدید وقدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے لیے ایک بہترین مصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی روح جو ساری امت میں تازہ ہوجاتی ہے۔ اس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔ 650 ۔ روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریبا ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا، طبع چہاردہم کی جلد 9 صفحہ 102 اور جلد 10 صفحہ 193 سے ظاہر ہے لیکن قرآن کو مشرکانہ مذہبوں سے بحث نہیں (آیت) ” الذین من قبلکم “ سے اس کی اصل مراد اہل کتاب ہی سے ہوسکتی ہے۔ چناچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور مشہور جزو ہے۔ مذاہب عالم سے اتنی گہری واقفیت، کہ صاف صاف ان میں روزہ کے جزومذہب ہونے کی خبر دے دی، ڈاک اور ریل کے زمانہ سے صدیوں قبل اور اخبارات اور کتب خانوں کے دور سے ہزار بارہ سو سال پیشتر عرب جیسے دور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بےتعلق جزیرہ نما میں ایک امی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں۔ بجز وحی الہی کے توسط کے۔ 651 ۔ روزہ تعمیل ارشاد خداوندی میں تزکیہ نفس، تربیت جسم دونوں کا ایک بہترین دستورالعمل ہے، اشخاص کے انفرادی اور امت کے اجتماعی ہر دو نقطہ نظر سے (آیت) ” لعلکم تتقون “ کے ارشاد سے اسلامی روزہ کی اصل غرض وغایت کی تصریح ہوگئی کہ اس سے مقصود تقوی کی عادت ڈالنا اور امت وافراد کو متقی بنانا ہے۔ تقوی نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے۔ جس طرح مضر غذاؤں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہوجاتی ہے اور مادی لذتوں سے لطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے، بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اس عالم میں تقوی اختیار کرلینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی وحیات اخلاقی کے حق میں مضر ہیں، ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہو کر رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزہ کی افضیلت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزوں پر علانیہ ثابت ہوتی ہے اور خیر مشرک قوموں کے ناقص، ادھورے اور برائے نام روزوں کا تو ذکر ہی نہیں، خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلاکو دفع کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں، یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کو، یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے :۔ ” قدیم زمانہ میں روزہ یا تو بطور علامت ماتم کے رکھا جاتا تھا، اور یا جب کوئی خطرہ درپیش ہوتا تھا، اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبول الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا۔ “ (جلد 5 ۔ صفحہ 347) اسلام میں روزہ نام ہے اپنے قصد و ارادہ سے، ایک مدت معین تک کے لیے اپنی جائز اور طبعی خواہشوں کی تکمیل سے دستبرداری کا۔ اور اس سے ایک طرف طبی اور جسمانی، دوسری طرح روحانی اور اخلاقی جو فائدے حاصل ہوتے ہیں، فرد اور امت دونوں کو، ان کی تفصیل کی گنجائش تو یہاں بہرحال نہیں۔ البتہ سورة کے آخر میں بطور ضمیمہ اس نامہ سیاہ کی بعض اور تحریریں پر چہ صدق اور سچ سے نقل کرکے درج کی جاتی ہیں۔ ضمیمہ پارہ 2 متعلق آیت نمبر 183 حاشیہ نمبر 651 ( 1) کھانا انسان کی زندگی قائم رکھنے کے لیے ہے، یا انسان کی زندگی اس لیے ہے، کہ اسے کھانے پینے کی لذتوں میں بسر کیا جائے ؟ موجودہ مادی دنیا نے شق دوم کو اختیار کیا ہے، اور اس کا عمل بھی اسی پر ہے، مذہب نے شق اول کو اختیار کیا ہے، اور اپنے پیرو وں کو اس پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ اسلام دین فطرت کا دوسرا نام ہے اس میں کوئی شے فطرت انسان و فطرت کائنات کے مخالف ہو نہیں سکتی۔ وہ ایک طرف اپنے پیرو وں کو جائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی بار بار دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف قدم قدم پر (آیت) ” لا تسرفوا ! “ دائرہ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھو کی بھی تاکید کرتا جاتا ہے۔ لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق ہے، اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہوجانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ اسلام نے جو شاہراہ ہدایت دنیا کے سامنے پیش کی ہے، وہ فسق ورہبانیت، دونوں سے بچ کر ان کی درمیانی راہ ہے۔ خواص جب گمراہ ہوتے ہیں، تورہبانیت کے ڈھرے پر پڑجاتے ہیں۔ عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے۔ نفس انسانی میں لذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے، انسان اکثر انہی لذتوں پر گرتا ہے اور ایسا گرتا ہے کہ انسانیت سے گزر کر بہمیت کے غار تک پہنچ جاتا ہے، روح کو چاہیے کہ روز بروز لطافت کی جانب ترقی کرتی جائے تاکہ جب جسم سے جدا ہوجانے کا وقت آئے تو اپنے مرکز اصلی کی جانب پرواز کرکے، جواز سرتاپانور ولطافت ہے، وصل ووصال کا وہ انتہائی لطف و سرور حاصل کرے، جس کا نام مذہب کی اصطلاح میں جنت ہے۔ لیکن انسان جب فسق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یعنی ان مادی لذتوں میں پڑجاتا ہے، جو اس کی روحانی صحت کے حق میں مضر ہیں، تو رفتہ رفتہ اس کی روح کثافت اور گندگی میں آلودہ رہنے لگتی ہے، یہاں تک کہ جسم سے جدا ہونے کے بعد اس میں اپنے مرکز اصلی کی جانب پرواز کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ اور مجبورا اسے تنزل کرکے مادہ کی کثافتوں اور آلائشوں کے مرکز سے آمیز ہونا پڑتا ہے، جو اس سے کوئی بھی طبعی وخلقی مناسبت نہیں رکھتے، اس لیے اسے انتہائی اذیت و تکلیف کا سامنا ہوتا ہے، اور اس کو مذہب کی اصطلاح میں دوزخ کہتے ہیں۔ اسلام خلق اللہ کو راحت و سرور کی انتہائی منزل تک پہنچانے کا بہترین رہبر ہے۔ اس نے چن چن کر اپنے نظام وآئین میں وہی باتیں رکھی ہیں، جو روح کی فطری صلاحیت کو بڑھائیں، اور گندگی وکثافت میں آلودہ ہونے سے اسے محفوظ رکھیں۔ ان سب تدبیروں میں سے ایک اہم تدبیر کا نام روزہ ہے۔ ؛ محض بھوکا اور پیاسا رہنا یا خواہ مخواہ کسی کو اپنے تئیں گرسنگی وتشنگی کی تکلیف میں مبتلا کرنا، ہرگز روزہ کا مدعا نہیں، روزہ کی غرض وغایت صرف یہ ہے کہ انسان کچھ دیر کے لیے تمام اہم لذات مادی کی طرف سے بےتوجہ ہو کر روح کو اپنی صفائی و پاکیزگی کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دے، قرآں کی طرف سے بےتوجہ ہو کر روح کو اپنی صفائی و پاکیزگی کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دے۔ قرآن پاک میں روزہ کی غایت دو لفظوں میں فرما دی ہے (آیت) ” لعلکم تتقون “ (تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ) ” تقوی “ کے معنی ’ بچنے ‘ کے ہیں۔ بچنا کس شے سے ؟ ہر اس شے سے جو روح کی پرواز ترقی میں حائل ہوتی ہے۔ ہر اس شے سے جو روح کے جوہر لطیف کے حق میں زہر کا اثر رکھتی ہے۔ ہر اس شے سے جو روح کو کثافتوں اور آلائشوں کی دلدل میں پھنسائے رکھتی ہے۔ قرآنی بلاغت کا یہ معجزہ ہے کہ اس سارے مفہوم کو ایک لفظ (آیت) ” تتقون ‘ کے ذریعہ سے ادا کردیا۔ نماز اور روزہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے دو جداگانہ چیزیں نہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کے ایجابی وسلبی، مثبت ومنفی دو پہلو ہیں۔ نماز کی حیثیت فاعلی ہے، یعنی دربار خداوندی میں حاضری دو ، اپنی روح جزئی کا براہ راست تعلق روح کلی سے پیدا کرو، روزہ کی حیثیت انفعالی ہے، یعنی ان چیزوں سے بچو جو اس راہ میں حائل ہوتی ہیں، جو روح کو اس رفتار ترقی کے ناقابل بناتی ہیں، طبیب حاذق علاج بھی کرتا ہے، اور پرہیز بھی بتاتا ہے، شفا اسی وقت ممکن ہے جب مریض دونوں ہدایتوں پر عمل کرے، نماز بمنزلہ دوا ہے اور روزہ بمنزلہ پرہیز۔ دوا دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ پر ظاہر ہے۔ یہیں سے ہے، کہ دنیا کے کامل ترین انسان کو نماز کے بعد جو عبادت سب سے زیادہ محبوب تھی، وہ روزہ تھا۔ رسول خدا ﷺ اس کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے کہ اہل خاندان اور اصحاب ؓ بعض اوقات دنگ رہ جاتے۔ وجہ کھلی ہوئی ہے۔ اعلی ترین روح کو روحانی پاکیزگی وصفائی کے نمونے میں بہترین اور کامل ترین دکھانے تھے، دیکھنے والوں نے دیکھا۔ جس جس نے عمل کیا وہ اپنی مراد کو پہنچ کررہا۔ کھانے پینے میں زیادتی کرنا، عورت سے میل ملاپ پر حریص ہونا، جھوٹ بولنا سخت کلامی کرنا، کسی کا دل دکھانا، کسی کے پیچھے اس کا برائی سے ذکر کرنا، مال و دولت کی ہوس کرنا، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو روح کی لطافت کو صدمہ پہنچاتی ہیں، جاس کی بالیدگی کو روک دیتی ہیں، اس میں تازگی کی بجائے پزمردگی پیدا کرتی ہیں۔ اور جسم و مادہ کی کثافتوں کو بڑھاتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی تمام چیزوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے۔ اور روزہ دار کے لیے یہ سب امور ممنوع ہیں۔ انسان اگر اپنی عمر کا پیشتر حصہ ان پابندیوں کے ساتھ گزار سکے تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا، لیکن کم از کم سال کا بارہواں حصہ تو اس طرح گزارنا اپنے لیے لازمی سمجھے۔ اور اگر بہت سے بندے مل کر ایک خاص زمانہ اس کے لیے مقرر کرلیں، جس میں وہ سب شریک ہوں تو شرکت و اجتماع کی بنا پر نفس روزہ کی برکتیں بدرجہا بڑھ سکتی ہیں۔ مگر سب کا اپنے ارادہ سے ایک خاص زمانہ مقرر کرنا ممکن نہیں، کسی کو کبھی سہولت ہوگی، کسی کو بھی، اس لیے خود شریعت نے (راحت و سرور ابدی کی منزل کے بہترین ہموار ترین و محفوظ ترین راستہ کا نام شریعت ہے) ایک خاص مہینہ کا تعین کردیا جسے رمضان سے موسوم کرتے ہیں۔ خدائے اسلام جس طرح ہمارے رکوع و سجود، ہماری تکبیر وتسبیح سے بےنیاز ہے، اسی طرح اسے ہمارے بھوکے اور پیاسے رہنے، ہمارے روزہ وتروایح، ہماری سحری وافطاری کی بھی کوئی حاجت نہیں، یہ تمام امور صرف ہمارے نفع وفائدہ کے لیے ہیں۔ ہماری طبیعتیں اور سرشتیں چونکہ شیطانی اثرات سے مسخ ہوچکی ہیں، اس لیے آج بہتوں کو روزہ کی پابندی ایک بار معلوم ہوتی ہے لیکن کل جب حجابات دور ہوجائیں گے، جب آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اندازہ ہوسکے گا کہ روح میں اعلی صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے اور ابدی سرور جو دائمی راحت حاصل کرنے کے لیے روزہ کتنا سہل، آسان، مفید، مؤثر نسخہ تھا۔ کاش ہمارے سب بھائیوں کی آنکھیں آج ہی کھل جائیں۔ (منقول از ” سچ “ لکھنوہفتہ وار۔ مورخہ 3 ۔ اپریل 1925 ء ؁ ایڈیٹر عبدالماجد) (2) بہار کا موسم آتے ہی چمن دہر میں روح پرور ہوائیں چلنے لگتی ہیں، خشک درخت سبز ہوجاتے ہیں، پھول کھلنے لگتے ہیں، جسم انسانی کی رگوں میں تازہ خون کی گردش ہونے لگتی ہے، سوئی ہوئی امنگیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اور چستی و توانائی کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ جسم و مادہ کی کائنات میں آفتاب کا ایک پورا دورہ گزر جانے کے بعد یہ موسم آتا ہے، اور طبیبوں کا بیان ہے کہ جسم سے مادہ فاسد کے دفع کرنے اور مسہل لینے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح روح وجان کی کائنات میں بھی چاند کا ایک پورا دورہ گزر جانے کے بعد موسم بہار آتا ہے مہتاب کو عشق کے سودازدوں سے مناسبت ہے۔ ظاہر ہے، ماہتاب جب اپنے سالانہ سفر کا چکر ختم کرتا ہے، تو عشق و محبت کی اقلیم میں پھر شوریدگی وجنون کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اور سال کے گیارہ مہینے کے اندر غیریت کی جو کدورتیں جم جاتی ہیں، طبیعت ان کے دفع کرنے کے لیے بیقرار ہوجاتی ہے، اسی لیے رحمت کاملہ و محبوبیت مطلقہ نے اپنے وفا شعاروں، اپنے سرمستوں کے لیے ایک خاص مہینہ، ماسوا سے بےتعلق وبے نیاز رہنے کا مقرر کردیا۔ جس کو اصطلاح میں ماہ رمضان سے موسوم کرتے ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام “ اے حسن ازل سے پیمان وفا باندھنے والو، اے اپنے محبوب کی یکتائی کا کلمہ پڑھنے والو، اگر اپنے دعوی میں سچے ہو، آؤ اپنے طریق عشق وآئین الفت میں، ایک مہینہ تک ماسوا پر نظر کرنا تک ناجائز سمجھو، اور اپنی تمام نفسانی لذتوں کو اس بڑی اور حقیقی لذت کے تصور پر قربان کرتے رہو ( 1) کہ یہی نفسانی لذتیں، اس شاہد حقیقی کے وصال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حاشیہ نمبر 1 ” صوم کے معنی ہیں، باز رہنے اور رکنے کے، خواہ کھانے سے ہو یا کلام کرنے سے، یا کسی اور چیز سے، جس پر نفس حریص ہو، یا جو طبیعت کو مرغوب ہو۔ الصوم فی الاصل الامساک عن الفعل مطعما کان او کلاما اوشیئا (راغب) الصوم امساک عن طعام او کلام او نحوھما (سجستانی) الصوم فی اللغۃ الامساک عما تنازع الیہ النفس (بیضاوی) یہ شرط محض تمہاری ساتھ مخصوص نہیں، اکیلے تم ہی اس آزمائش میں نہیں ڈالے گئے ہو، بلکہ تمہارے اگلوں میں سے جس جس گروہ نے ہم سے پیمان وفا باندھا، جس جس جماعت نے راہ الفت میں قدم رکھنے کا دعوی کیا، ان سب کو اپنے دعوے کا کچھ ایسا ہی ثبوت پیش کرنا پڑا ہے، ان سب کو کچھ ایسی ہی آزمائشوں سے دو چار ہونا پڑا ہے، ان سب کو کچھ ایسی ہی آزمائشوں سے دو چار ہونا پڑا ہے، ہراساں نہ ہو، بہتوں کی آزمائش اسی طرح ہوچکی ہے۔ (آیت) ” کما کتب علی الذین من قبلکم “۔ اور اس حکم سے غرض تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں تمہاری جان کو ہلکان کرنا نہیں، بلکہ مقصود صرف تمہاری نفس پیدا کرنا ہے۔ تمہی کو خواہشات نفسانی پر حاکم بننے کی تعلیم دینا ہے تمہاری پاکیزگی کی چھپی ہوئی قوت کو ابھارنا، اور تمہیں حیوانیت کے غار سے نکال کے ملکوتیت کے آسمان پر پہنچانا ہے۔ تمہاری بوالہوسی جو تمہاری خودداری پر غالب آجاتی ہے، اسی کو توڑنا منظور ہے۔ تمہاری ہی راہ عروج میں ہر طرح کی سہولت پیدا کرنا مدنظر ہے، اور تمہارے ہی چھپے ہوئے اندورنی دشمنوں، یعنی بدی کی طاقتوں کو ہلاک ونابود کرنا مقصود ہے (آیت) ’ لعلکم تتقون “۔ اور پھر یہ آزمائش بھی دائمی نہیں ،۔ تمہاری ساری عمر کے لیے نہیں۔ کسی بڑی طویل مدت کے لیے نہیں، بلکہ صرف گنتی کے چند روز یعنی گیارہ مہینہ کے بعد، رمضان کا ایک مہینہ (2) (آیت) ” ایاما معدودت “۔ پھر ان عاشقین صادقین او مومنین مخلصین میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باوجود اپنے صدق و خلوص کے، اپنی جسمانی کمزوری یا پردیس میں ہونے کی بناپر، آسانی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل نہ کرسکیں گے، ان کے لیے یہ آزمائش زیادہ سخت ہوگی، ایسے معذوروں کے لیے اس کی اجازت ہے کہ انہیں جب اطمینان و فراغت نصیب ہو، تو اس ماہ مبارک کے چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کرلیں، ” بلبل بیمار “ اگر اپنے جذبہ دل میں صادق ہے، تو اس کے لیے سال کا ہر موسم موسم گل کا حکم رکھتا ہے۔ (آیت) ” فمن کان منکم مریضا اوعلی سفر فعدۃ من ایام اخر۔ “ بعض بیچارے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بہ سبب اپنی جسمانی کمزوری یا کسی اور مجبوری کے، ماہ مبارک کے بعد بھی، روزہ رکھنے میں سخت مشقت محسوس کرتے ہیں (3) ایسے کے لئے یہ رعایت ہے کہ وہ اپنی معذوری کے کفارہ کے طور پر کسی صاحب احتیاج کو پوری طرح کھانا کھلادیا کریں۔ (آیت) ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین “ اس رخصت و اجازت کے باوجود بھی اگر کوئی شخص محنت ومشقت گوارا کرکے اس بڑی نیکی یعنی روزہ کو اختیار کرتا رہے، یا ایک مسکین سے زائد کو کھلاتا پلاتا رہے، تو اس کے مرتبہ کا کیا پوچھنا، ایسی نیکی جو فرض نہ رہی ہو، اگر اختیار کی جائے تو اس کے افضل و برتر ہونے میں کیا شبہ (آیت) ” فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ “۔ یہ ایک عام اصول بتایا گیا۔ باقی اگر روزہ کی حقیقت پر نظر ہوجائے، روزہ سے جو باطنی ترقیاں مقصود ہیں، اگر ان کا علم ہوجائے، تو کون ایسا ہے جو روزہ کی جانب بہ شوق ورغبت نہ دوڑے۔ یہ ماہ مبارک صرف اسی لحاظ سے مبارک نہیں، کہ اس میں انسان، صبر وضبط کی خدائی طاقتوں سے نوازا جاتا ہے، بلکہ اس خیر و برکت والے مہینہ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسی ماہ میں اول اول، دنیا کے لیے بہترین، کامل ترین، وجامع ترین ہدایت نامہ اتارا گیا، اسی چاند میں انسانیت کے ضلمت کدہ کو نورانیت کے بدر کامل سے پرانوار بنایا گیا، اور اسی بابرکت موسم میں انسان کے کان میں پہلی بار (4) نغمہ ازل کی سریلی آواز بیہوشوں کو بیدار اور ہوشیاروں کو مست کرنے والی پکار پہنچی، جس سے بڑھ کر کوئی دولت جس سے اونچی کوئی نعمت، جس سے برتر کوئی رحمت، عالم تصور میں بھی موجود نہیں، (آیت) ” شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدی والفرقان “ قیس عامری کے پاس اگر لیلی کا کوئی مکتوب یا پیام آجاتا، تو کس طرح وہ اپنی جان نثار کرنے کو تیارہوجاتا، اور اس مبارک گھڑی کو کس قدر عزیر رکھتا ! حسن ازل کے شیدائی بھی، نامہ یار کے ورود کے زمانہ کو کیونکر بھول سکتے ہیں جب جب یہ زمانہ آئے گا، اس کی یاد میں بیتاب ہوجائیں گے، اور اس پاک گھڑی کی پاک سالگرہ منانے میں اپنی بھوک پیاس تک کو بھول جائیں گے۔ (آیت) ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔ موسم بہار کی فرحتیں، طراوتیں اور نشاط انگیزیاں، بڑے سے بڑے افسردہ دلوں تک میں امنگ پیدا ہی کردیتی ہیں، اور گل و گلزار کی سیر سے کوئی محروم رہنا نہیں چاہتا، ماہ مبارک کی برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں کا ذکر سن کر بڑے سے بڑے بدہمت اور افسردہ دل کی رگوں میں جوش پیدا ہوجانا، اور بڑے سے بڑے فرزانہ ودور اندیش میں شورش وشوریدگی کا ابھر آنا قدرتی ہے۔ حالانکہ یہ آزمائش صرف ان کے لیے ہے جو اس کی جسمانی قوت بھی رکھتے ہیں۔ معذوروں پر خواہ مخواہ بار ومشقت ڈالنا ہرگز مقصود نہیں، جان کے جذبہ شوق کو تسکین دینے کے لیے ایک بار پھر اس ارشاد کی ضرورت ہوئی، کہ معذوروں کو ان دنوں کی گنتی بعد میں پوری کرلینی چاہیے، کہ مقصد آسانی راہ ہے، نہ کہ تنگی۔ اللہ کی بڑائی کرنے، اور اس کا شکر ادا کرنے کا مقصد، بعد کو بھی گنتی کے دن پورے کرلینے سے حاصل ہوسکتا ہے (آیت) ” ومن کان مریضا اوعلی سفر فعدۃ من ایام اخر۔ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر، ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھدکم ولعلکم تشکرون۔ “ یہ پربہار موسم جب کسی کے شوق وارمان میں گزرے گا، یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسر ہوں گی، یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک پیاس کے صرف ہوں گے، یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں ہی میں کٹیں گی، تو ناممکن ہے کہ روح میں لطافت، قلب میں صفائی، اور نفس میں پاکیزگی، پیدا نہ ہوجائے، حیوانیت دور ہوگی، ملکوتیت نزدیک آئے گی اور انسان خود اپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا، ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے، کہ سوز دل اور تیز ہوجائے، قرب ووصل کی تڑپ اور بڑھ جائے، تزکیہ و مجاہدہ کے اثر سے، زنگ دور ہوکر، کسی کا عکس قبول کرنے کے لیے آئینہ قلب بےقرار ومضطر ہونے لگے، ٹھیک یہی گھڑی، ذوق طلب اور ذوق عطاء سوال اور اجابت، دعا اور مقبولیت، حاجتمندی اور کریمی، گدائی اور شاہی، بندگی وبندہ پروری کے درمیان ناز ونیاز کی ہوتی ہے، اس لیے قدرۃ اس منزل پر پہنچتے ہی، حجلہ غیب سے یہ صدائے بشارت کان میں آنے لگتی ہے، کہ اے ہمارے پیام پہنچانے والے، ہمارے شیدائی، ہمارے پرستار، ہمارے بندے، اگر تم سے ہمارا پتہ پوچھیں، تو ان کو بتادو کہ ہم ان سے کچھ دور نہیں ہم تو ان سے بہت ہی قریب ہیں، ہمیں دل کی تڑپ کے ساتھ پکاریں تو سہی، ہم فورا انکی پکار کو سنیں گے، وہ صرف ہم سے اپنی لو لگائے رہیں، اور ہم پر بھروسہ رکھیں، اس سے وہ سیدھی راہ پاکر، اور منزل مقصود تک پہنچ کر رہیں گے۔ (آیت) ” واذا سالک عبادی عنی فانی قریب، اجیب دعوۃ الداع اذا دعان، فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشدون۔ (منقول از ” سچ “ لکھنوہفتہ وار۔ مورخہ 13 ۔ اپریل 1926 ء ؁ ایڈیٹر عبدالماجد) (3) دو شخص ہیں، ایک وہ جو اپنی خواہشات نفسانی کا غلام ہے، دوسرا وہ جو ان پر حاکم وآقا ہے۔ ایک وہ جو اپنی ہر ہوائے نفس سے مغلوب ہوجاتا ہے، دوسرا وہ جو اسے اپنے قابو واختیار میں رکھتا ہے۔ ایک شخص وہ ہے جو اپنی بھوک، اپنی پیاس، اپنی نیند، اپنی حرص، اپنے غصہ، کسی شے پر قابو نہیں رکھتا، دوسرا وہ جو ان میں سے ہر شے کے ضبط پر قدرت رکھتا ہے، آپ دو ایسے شخصوں میں سے کس کو ترجیح دیں گے ؟ آپ خود ان دونوں میں سے کیا بننا پسند کریں گے ؟ آپ کے نزدیک نفس کی غلامی بہتر ہے ؟ یا اس پر حکمرانی ؟ اگر آخرالذکر بہتر وپسندیدہ ہے، تو پھر یہ کیا ہے، کہ ماہ رمضان کی پیشوائی کو آپ ذوق وشوق، مسرت وخندہ جبینی کے ساتھ نہیں پڑھتے ؟ حاشیہ 2 ۔ واولی ذلک بالصواب عندی قول من قال عنی اللہ جل ثناء ہ بقولہ (آیت) ” ایاما معدودت “ ایام شھر رمضان (ابن جریر) والمرادبھا رمضان (بیضاوی) المراد بھذہ الایام المعدودات شھررمضان (ابومسلم) 3 3 ۔ عن عبداللہ قال یقول وعلی الذین یطیقونہ اے یتجشمونہ (ابن کثیر) وقراء ابن عباس ؓ یطوقونہ بمعنی الطاقۃ والقلادۃ اے یکلفونہ اویتکلفونہ علی جھد منہ وعسروھم الشیوخ والعجائز (زمخشری) یصومونہ جھدھم وطاقتھم ومبلغ وسعھم (زمخشری) وھو الرخصۃ لمن یتعبہ الصوم وجھدہ وھم الشیوخ والعجائز فی الافطار والفدیۃ (بیضاوی) من صام بالکلفۃ والمشقۃ فعلیہ فدیۃ طعام مسکین (گازورنی) 4 ۔ اے ابتدی فیہ انزالہ (بیضاوی) ابتدی فیہ انزالہ (زمخشری) ابتدی فیہ انزالہ (روح المعانی) یکون ابتداء نزول القران علی محمد ﷺ فی شھر رمضان وھو قول ابن اسحاق وابی سلیمان الدمشقی (خازن) اولت الایۃ بان المراد انہ ابتدی فیہ انزالہ ھذا قول محمد بن اسحاق (نیشاپوری) حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہی (رح) دائم الصوم تھے، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی (رح) نے اپنی عمر کے سالہا سال روزہ رکھ کر گزارے، حضرت جنید بغدادی (رح) کا مقولہ مشہور ہے کو مجھے جو کچھ ملا، سب بھوک اور گرسنگی ہی کی طفیل میں ملا۔ حضرت مولانائے روم (رح) کا عمل خود انہی کی اس تعلیم پر تھا، کہ منزل حق کی جتنی راہیں کھلتی ہیں، سب بھوک اور پیاس سے، ہر سلسلے کے جتنے مقدس بزرگ اور مستند صوفی گزرے ہیں، سب کا عمل یہی رہا ہے اور تعلیم بھی یہی۔ مگر پھر یہ کیوں ہے، کہ آپ باوجود ان حضرات سے اعتقاد ظاہر کرنے، اور ان کے ماننے کے، اس باب میں ان کی تعلیم سے اس قدر بےپروا اور ان کے عمل سے اس قدر بےنیاز ہیں ؟ نماز میں جس طرح عبدیت کی تکمیل ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح روزہ دار کو اخلاق الہی کے ساتھ کس درجہ مناسبت ومشابہت پیدا ہوجاتی ہے بھوک اور پیاس سے بےنیازی، صبر وضبط، قوت واختیار، حلم و تحمل، عفو و درگزر، یہ سب شانیں بندہ کی ہیں، یا مولیٰ کی ؟ عبد کی یا معبود کی ؟ خاک کے پتلے کی یا آسمان کے فرمانروا کی ؟ پھر یہ کیونکر ہے، کہ جو شے کچھ ہی دیر کے لیے سہی، آپ میں اس کیفیت سے مناسبت پیدا کررہی ہو، جو شے ذرہ میں آفتاب کا پر تو ڈال رہی ہو، جو شے آئینہ میں جلا پیدا کرکے اسے نورانیت کا ملہ کا عکس قبول کرنے کے قابل بنارہی ہو آپ اس نعمت عظیمہ کی جانب لپکنے میں تامل کررہے ہیں ؟ حدیث قدسی کے الفاظ یاد کیجئے، الصوم لی وانا اجزی بہ ” روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر خود میں ہوں “۔ حوریں نہیں، جنت کے قصر ومحل نہیں، کوئی اور ایسی نعمت نہیں، جسے مادی عقل سمجھ سکے۔ بلکہ میں خود اس کا اجر ہوں “۔ یہ کون، کس سے کہہ رہا ہے ؟ آفتاب ذرہ سے نہیں، مخدوم خادم سے نہیں، شاہ گدا سے نہیں، بلکہ خالق مخلوق سے، معبود عبد سے، خدا بندہ سے ! کیا زمینوں اور آسمانوں کی ساری نعمتیں، ساری برکتیں، ساری بادشاہتیں مل کر بھی اس ایک اجر کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ؟ کیسی درد ناک نادانی ہوگی، کہ اتنے ارزاں سودے کو بھی اپنی غفلت وبے پروائی کے نذر کردیا جائے۔ ! (منقول از ” سچ “ لکھنوہفتہ وار۔ مورخہ 26 ۔ اپریل 1926 ء ؁ ایڈیٹر عبدالماجد) (4) کھانا کھانے میں آپ کو لطف کس وقت آتا ہے ؟ اس وقت جب کہ بھوک کھل کر لگی ہو، یعنی کچھ دیر پیشتر سے کھانا نہ کھایا ہو،۔ پانی کے گلاس میں مزہ کس وقت ملتا ہے ؟ اس وقت جب کہ پیاس لگی ہوئی ہو، اور پانی پینے کی طلب بےقرار کررہی ہو، نیند سکھ سے کس وقت آتی ہے ؟ اس وقت جبکہ کچھ گھنٹے قبل سے آپ برابر جاگ رہے ہوں، ان ساری مثالوں میں آپ کو روز مرہ، ہر وقت اور ہر جگہ تجربہ ہوتا رہتا ہے، کہ مادی لذتوں سے بھی پوری طرح لطف اٹھانے کے لیے کسی قدر ضبط، صبر و احتیاط لازمی ہے، یہی آپ کا مشاہدہ ہے، یہی آپ کا تجربہ ہے، اور اسی پر آپ کا عمل ہے، یہ آپ کبھی نہیں کرتے کہ مسلسل چوبیسوں گھنٹے منہ میں نوالے چباتے رہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں کرتا کہ ہر منٹ لگاتار پانی کے گھونٹ اتارتا رہے، یہ کسی کو بھی نہیں دیکھا، کہ دن اور رات، صبح اور شام ہر وقت برابر پڑا سوتا ہی رہے۔ ” روشن خیالی “ جب ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، تو تعطیل اور چھٹی کو بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بنا دیتی ہے۔ اسکولوں کے کمرے، کالجوں کے ہاں، عدالت عالیہ کے ایوان، ہفتوں سے بند چلے آرہے ہیں، اس لیے کہ موسم گرم کی ،” تعطیل کلاں، کا زمانہ ہے ! کہچریاں اور دفتر بند ہیں، اس لیے کہ آج بڑا دن ہے، ڈاک خانہ اور تار گھر، بینک اور خزانے بند ہیں، اس لیے کہ آج اتوار ہے ! یہ سب اس لیے ہے کہ دماغ کو آرام ملتا رہے، اور تازہ دم ہونے کے بعد کام بہتر طور پر انجام پاتا رہے، آپ اپنے اس نظام اور اس انتظام پر شرماتے نہیں، فخر ہونے کے بعد کام بہتر طور پر انجام پاتا رہے، آپ اپنے اس نظام اور اس انتظام پر شرماتے نہیں، فخر کرتے ہیں۔ اور آپ کی عقلیت و روشن خیالی کا یہ ایک مسلمہ ہے، کہ کام میں زیادہ مستعدی اور بہتر کارگزاری Efficiency کے لیے جسم اور اعضائے جسم کو آرام دیتے رہنا لازمی ہے ! یہ نہیں کہتے کہ کہ اس سے کام میں خواہ مخواہ حرج اور نقصان ہوتا ہے۔ لیکن جب مذہب آپ سے کہتا ہے، کہ سال کے ایک خاص زما نہ میں چند گھنٹوں کے ایک محدود وقت کے لیے معدہ کو آرام دیتے رہو، بھوک اور پیاس کو ضبط کرتے رہو، تو معا آپ کی عقلیت و روشن خیالی بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے، آپ اپنے روز مرہ کے تجربہ اور مشاہدہ، نظریات وعملیات، سب کو پس پشت ڈال دیتے ہیں رمضان کی آمد کو اپنے لیے ایک قہر ومصیبت سمجھنے لگتے ہیں، اور اگر زبان سے نہیں تو کم از کم دل میں تو یہ ضرور کہنے لگ جاتے ہیں کہ روزہ کی یہ قیدیں کیسی سخت ہیں۔ اور آپ کے کمزور قوی ہرگز اتنی بڑی محنت کو نہیں برداشت کرسکتے ! بیشک اگر آپ ہزاروں روپیہ کمانے اور اڑانے والے بیرسٹر ہیں، اگر آپ اپنی ” سرکار ابد قرار “ کے بنائے ہوئے جج یا کلکٹر ہیں، اگر آپ صوبہ یا ملک کی کونسل کے ممبر ہیں، اگر آپ لاٹ صاحب اور بڑے لاٹ صاحب کی پاریٹوں میں شریک ہونے والوں میں ہیں، اگر آپ کے پاس سواری کے لیے مرٹریں، اور رہنے کے لیے اونچی اونچی کوٹھیاں موجود ہیں، تو آپ کی محرومی اور حرماں نصیبی نے، اجر روحانی و راحت سرمدی کی طرف، روز مرہ کی مادی لذتوں اور جسمانی فائدوں کا بھی دروازہ آپ پر بند کر رکھا ہے، اور آپ کی اس بےمائیگی پر جن وبشر، حور وملائک جتنا بھی ترس کھائیں کم ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی خوش بختی سے کوئی غریب کاشتکار ہیں، کوئی مفلس مزدور ہیں، کوئی کم حیثیت خدمتگار ہیں، بھاری بھاری بوجھ کی گٹھریاں اور گھٹے اپنے سر پر لادنے والے ہیں، دھوپ میں جل جل کر اور بھن بھن کر کام کرنے والے ہیں، تو انشاء اللہ آج آپ اپنے خالق ومالک کے حکم کی تعمیل میں رمضان مبارک کے باران رحمت سے سیراب ہورہے ہوں گے ! یقین کیجئے کہ آج آپ کے مرتبہ پر، زمین پر بسنے والے نہیں، آسمان پر اڑنے والے، فضائے قدس میں سانس لینے والے، حریم عرش کے پایہ تھامنے والے رشک کررہے ہیں ! ممکن ہے کہ آج یہ شاعری معلوم ہورہی ہو لیکن کل انشاء اللہ حقیقت ہو کر رہے گی، اور ان بیخبروں کو بھی خبردار کر کے رہے گی، جو آج روزہ داری کے طبی فوائد اور مادی لذتوں سے بھی محرومی میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں ! (منقول از ” سچ “ لکھنوہفتہ وار۔ مورخہ 3 ۔ اپریل 1927 ء ؁ ایڈیٹر عبدالماجد) (5) نیند پورئے سکھ کے ساتھ کس کو آتی ہے ؟ اس کاہل کو جو رات دن بستر پر پڑا رہتا ہے، یا اس محنتی کو جو دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد تھک کر اپنے دماغ وجسم کو چند گھنٹوں کے لیے آرام دینے کو لیٹتا ہے ؟ کھانے میں اصلی مزہ کس کو ملتا ہے ؟ اس امیر کو جو سارے دن اپنے ذائقہ کی خاطر داریوں میں لگا رہتا ہے، اور طرح طرح کی بد پرہیزیاں کرتا رہتا ہے یا اس غریب کو جو محنت ومشقت کے بعد دن میں ایک یا دو بار سادہ اور معمولی کھانا کھاتا ہے ؟ سو کر اٹھنے کے بعد فرحت اور چاقی کس کو حاصل ہوتی ہے ؟ اس کو جو ساری رات پریشان اور ہولناک خواب دیکھتا رہتا ہے، یا وہ جو شروع سے آخر تک میٹھی نیند لیتا رہتا ہے ؟ پس اگر کسی کو نیند پورے سکھ کے ساتھ نہیں آتی، کھانے میں پورا مزہ نہیں ملتا، یا سو کر اٹھنے کے بعد طبیعت سے کسل پوری طرح دور نہیں ہوتا، تو اس کی ذمہ داری اور تنہا ذمہ داری، اسی کی بےاحتیاطیوں، بدپرہیزیوں اور بےاعتدالیوں پر آتی ہے۔ روزہ، جسم وروح دونوں کے ایک خاص ضبط وانضباط، تزکیہ وتنقیہ، پرہیز و احتیاط کا نام ہے اس کے تمام ہونے پر انتہائی لطف و راحت، لذت و فرحت محسوس ہونی چاہیے، اگر آپ اس میں کمی محسوس کرتے ہیں تو یقیناً یہ آپ ہی کا قصور ہے اور یہ لازمی ہے کہ روزہ کی کچھ شرطیں آپ توڑ چکے ہیں، اور اس کے جو آداب نگاہ رکھنے کے تھے وہ آپ نے نہیں رکھے، جسم و دماغ کو اگر آپ دن بھر صحیح طور پر کام میں لگائے ہوئے ہیں، تو شب کو نیند کی حالت میں بھی سکھ ملے گا اور نیند پوری کرنے بعد بھی فرحت حاصل ہوگی ٹھیک اسی طرح اگر جسم وروح کو آپ ٹھیک طور پر دن بھر مشغول رکھے ہوئے ہیں، اگر آپ وہی کرتے رہے ہیں جو ایک روزہ دار کو کرنا چاہیے تو آپ کا دن اور آپ کی رات، آپ کی صبح اور آپ کی دوپہر، آپ کا سہ پہر اور آپ کی شام، غرض آپ کے وقت کی ہر گھڑی، آپ کے دل کی کلی کو کھلی رکھے گی، افسردگی اور اداسی آپ کے لیے بےمفہوم ہوگی اور سرورونشاط کی ہوائیں، آپ کی روح کو تروتازہ رکھیں گے ، روزہ کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے، آپ کے سامان زندگی کے مہیا کرنے والے، اور آپ کی موت وزندگی، بیماری و تندرستی، ہر چیز پر قدرت رکھنے والے کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ سارے دن آپ اپنے تئیں، اپنی آنکھ اور کان، اپنے منہ اور زبان، اپنے دل اور اپنے دماغ اپنے ہاتھ اور پیر، اپنے جسم اور جان، غرض اپنے سارے وجود کو ہر ٹیڑھی راہ سے روکے رہیں گے، ہر کجی اور کج روی سے باز رکھیں گے اور صرف اسی کے لیے وقف رکھیں گے جو اس کا اصلی کام اس کی سیدھی راہ، اس کا فطری حق، اور اس کی سچی غایت ہے، زبان اگر کھلے گی تو صرف کلمہ حق پر، کان اگر سنیں گے تو صرف سچی آواز، آنکھ اگر دیکھے گی تو صرف امر حق کو، دل اگر سوچے گا تو سچائیوں کو، ہاتھ اور پیر اگر حرکت کریں گے تو صرف سچائی کی راہ میں۔ مادی زندگی کے سب سے بڑے اور طاقتور مظہر، سورج کے ڈوب جانے پر، جب آپ اس ذات کے شکر کے ساتھ جس نے آپ کو یہ توفیق دی، اپنا جائزہ لیں اور اپنی اس نذر کی ہر شرط کو پوری طرح ادا کیا ہوا پائیں تو، دنیا کے کس لفظ اور کس عبارت میں اس کیفیت کو ادا کرنے کی قدرت ہے ! رضائے الہی آپ میں اور آپ رضائے الہی میں جذب ہوں گے ! راحت ولذت، لفط ومسرت، سرور ونشاط، شادی و انبساط، یہ سارے الفاظ بڑی فرحت (افطار) کی کیفیت کو ادا کرنے کے لیے ناکافی ہیں جو اس سب سے بڑی فرحت (دیدار الہی) کا پیش خیمہ ہے، جس سے موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ پیغمبر، باوجود شوق و تمنا، اس دنیا میں محروم رہے ! (” سچ “ لکھنو 14 ۔ مارچ 1927 ء۔ )
Top