Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 183 تا 187 معدودات (معدودۃ، چند) ۔ عدۃ (مدت) ۔ ایام اخر (دوسرے دن ) ۔ یطیقونہ (اس کی طاقت ہو (اصل میں یہ لا یطیقونہ ہے یعنی جس کو اس کی طاقت نہ ہو) ۔ طعام مسکین (ایک غریب کا کھانا) ۔ تصوموا (تم روزہ رکھو) ۔ شھر (مہینہ) ۔ شھد (موجود، جو پائے ) ۔ لا یرید (نہیں چاہتا ہے) ۔ الیسر (آسانی، سہولت) ۔ العسر (تنگی ، دشواری) ، لتکملوا (تا کہ تم مکمل کرلو) ۔ لتکبروا ( تاکہ تم (اللہ ) کی بڑائی بیان کرو۔ سال (اس نے پوچھا) ۔ عبادی (میرے بندے) ۔ اجیب (میں جواب دیتا ہوں) ۔ دعان (مجھے پکارا (دعا ، ن ، ی) ۔ فلیستجیبوا (پھر قبول کرنا چاہئے) ۔ ولیؤمنوا (اور ایمان لانا چاہئے) ۔ احل (حلال کردیا گیا) ۔ الرفث (بےپردہ ہونا، عورتوں کا رغبت کرنا ) ۔ تختانون (تم خیانت کرتے ہو) ۔ باشروا (تم صحبت کرو) ۔ ابتغوا (تم تلاش کرو) ۔ الخیط الابیض (سفید دھاگہ (صبح صادق) ۔ الخیط الاسود (سیاہ دھاگہ (رات) ۔ اتموا (تم پورا کرو) ۔ الی اللیل (رات تک) ۔ عاکفون (اعتکاف کرنے والے، ٹھہرنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 183 تا 187 عرب والے اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک ، پیاس اور شدید مشکلات میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو باقاعدہ تربیت دیا کرتے تھے ، تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرنے کے عادی بن جائیں۔ وہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیزو تند ہواؤں کا مقابلہ کرنے کی بھی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے ان حالات میں جبکہ ہوا کے تھپیڑوں سے واسطہ پڑتا تھا بہت کام آیت تھی۔ ۔ ۔۔ ایسے گھوڑے جو سدھائے گئے ہوں اور وہ ناموافق حالات کا مقا بلہ کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ ان کو صائم کہا کرے تھے۔ روزوں کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے حکم سے صبح سے شام تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رکنے کی ایک ماہ تک تربیت حاصل کرتا ہے وہ بھی مشکل حالات میں صبرو تحمل سے برداشت کا عادی بن جاتا ہے جس سے اس کو نہ صرف اس دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ آخرت کی ابدی راحتیں اس کے بدلے میں عطا کی جاتی ہیں۔ سال بھر میں 29 تا 30 دن تک روزے رکھے جاتے ہیں لیکن ان چند دنوں کی روحانی برکات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان چند دنوں کی مشقت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر نیک عمل کی جزا تو دس سے سات سو گنا تک ہے لیکن روزوں کی جزا وہ ہے جو حق تعالیٰ شانہ اپنے دست مبارک سے اس کو عطا فرمائیں گے۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! یہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے ہیں بلکہ تم سے پہلے جتنی بھی شریعتیں آئی ہیں ان سب کے ماننے والوں پر روزوں کو فرض کیا گیا تھا تا کہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ پھر فرمایا گیا کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا وہ قرآن جو قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ہدایت کی روشنی ہے وہ صراط مستقیم ہے جس میں واضح، دل نشین اور ہر الجھن کو دور کرنے کی کھلی دلیلیں موجود ہیں اگر تم نے رمضان کے مبارک مہینہ میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ قرآن کریم کے نور کو مشعل راہ بنا لیا تو یقیناً تمہیں راہ نجات مل جائے گی۔ ان آیتوں میں بیماروں اور مسافروں کے لئے خاص رعایتوں کا اعلان کیا گیا جن کا مقصد آسانیاں بہم پہنچانا ہے لوگوں کو مشکلات میں ڈالنا نہیں ہے۔ ان آیتوں میں ایک خاص بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ انسانوں سے بہت قریب ہوتا ہے وہ ان راتوں میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جو تقویٰ ، پرہیزگاری، نور ایمان اور سچائیوں سے دلوں کو جگمگانے کا مہنہ ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت براء بن عازب ؓ کی روایت مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ قربت کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے پھر سو جانے کے بعد یہ ساری چیزیں حرام ہوجاتی تھیں لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے اجازت عطا فرما دی کہ دن میں جب کہ روزے کی حالت ہو۔ اعتکاف میں جو مسجدوں میں کیا جاتا ہے کے علاوہ راتوں کو بیویوں سے قربت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ امت محمدیہ ﷺ کی ایک خصوصیت ہے ورنہ گزشتہ امتوں میں اس کی اجازت نہیں تھی۔
Top