Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ( اے ایمان والو ! فرض کردیئے گئے تم پر روزے۔ صوم لغت میں امساک ( رکنا) کو کہتے ہیں چناچہ جب ٹھیک برابر دوپہر ہوتا ہے عرب بولتے ہیں صام النہار ( رک گیا دن) کیونکہ سورج جب دوپہر کو بیچوں بیچ آسمان کے آتا ہے اس وقت بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ٹھہر گیا ہے اور اصطلاح اہل شرع میں صوم کے معنی ایک وقت مخصوص میں نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رکنا ہے چناچہ عنقریب تفصیلاً معلوم ہوگا۔ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ( جس طرح فرض تھے ان پر جو تم سے پہلے تھے) اَلَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُم سے مراد انبیاء ( علیہ السلام) اور امم سابقہ ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کَمَا کُتِبَ سے نفس وجوب میں تشبیہ دینا مراد ہے اور کیفیت اور وقت وغیرہ کے اندر مماثل کرنا مقصود نہیں ( یعنی یہ مطلب ہے کہ جیسے اوروں پر روزہ واجب تھا تم پر بھی کیا گیا یہ مراد نہیں کہ جس کیفیت سے اور جتنے دنوں کے روزے اوروں پر تھے اسی طرح اور اسی مدت کے موافق تم پر بھی واجب کئے جاتے ہیں) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ پہلے لوگوں پر رات کی تاریکی شروع ہونے سے دوسری رات تک کا روزہ فرض تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح روزہ فرض تھا اس لیے دونوں مشابہ ہوئے اہل علم کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس طرح ہم پر ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں اسی طرح نصاریٰ پر بھی اس مہینے کے روزے فرض تھے تو اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب یہ روزے سخت گرمی میں واقع ہوجاتے تھے تو تشنگی کی شدت سے روزے ان پر بھاری ہوتے تھے اور جب موسم سرما میں آتے تھے تو بھوک کی وجہ سے شاق ہو جاے تھے جب یہ حالت دیکھی تو سب علماء اور رؤسا جمع ہوئے اور آپس میں مشورہ کرکے روزوں کو موسم بہار میں قرار دیا اور اپنی اس کرتوت کی وجہ سے دس دن بطور کفارہ کے اور بڑھا دیئے کل چالیس دن کے روزے اپنے اوپر مقرر کرلیے پھر اتفاقاً جو ان میں بادشاہ تھا وہ بیمار ہوگیا اس نے یہ نذر کی کہ اگر مجھے شفا ہوگئی تو میں ایک ہفتہ کے روزے اور بڑھا دوں گا اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دی اس نے ایک ہفتہ کے روزے اور مقرر کردیئے پھر اس کے بعد ایک اور بادشاہ ہو اس نے پورے پچاس کردیئے اور مجاہد فرماتے ہیں کہ نصاریٰ میں ایک مرتبہ مری (وباء پھوٹ ‘ 12) پڑی۔ کثرت سے لوگ مرنے لگے انہوں نے آپس میں کہا کہ روزے بڑھا دو ۔ دس روزے اوّل بڑھائے پھر چند روز کے بعد دس اور بڑھا دیئے۔ شعبی نے کہا ہے کہ اگر میں تمام سال کے سال روزے رکھوں تو جس دن میں شک کیا جاتا ہے کہ کوئی اس کو رمضان سے شمار کرے اور کوئی شعبان سے اس میں ضرور افطار کروں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب نصاریٰ پر رمضان کے روزے فرض ہوئے تو انہوں نے یہ کیا کہ ادھر تیس شعبان سے پہلے ایک روزہ رکھا اور اسی طرح تیس رمضان کے بعد روزہ رکھا اور اسی طرح ہر سال روزے بڑھاتے گئے حتیٰ کہ پچاس تک نوبت پہنچ گئی۔ علامہ بغوی نے اسی طرح کہا ہے کہ اور ابن جریر نے سدی سے بھی اس قصہ کو نقل کیا ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ( تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ) یعنی روزہ رکھو تاکہ معاصی سے بچ جاؤ کیونکہ روزہ سے شہوت منکسر ہوتی ہے۔ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اے جوانوں کے گروہ جو تم میں سے نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ نکاح کرے کیونکہ نکاح نگاہ کو پست کردیتا ہے اور فرج کو حرام سے محفوظ بنا دیتا ہے اور جس میں نکاح کا مقدور نہ ہو اس کو روزے رکھنے چاہئیں۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے یا یہ معنی ہیں کہ روزہ اسی لیے فرض کیا گیا ہے کہ روزے میں تم خلل ڈالنے سے بچو ( یعنی جب تک فرض نہ تھا تو اس میں یہ خلل ہوتا تھا کہ کبھی رکھا کبھی چھوڑ دیا اب چونکہ فرض کردیا گیا اس سے محفوظ رہو گے)
Top