Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الصِّيَامُ
: روزے
كَمَا
: جیسے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
مِنْ قَبْلِكُمْ
: تم سے پہلے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، جو تم سے پہلے گزرے ہیں ، تا کہ تم پرہیز گار بن جائے
گزشتہ سے پیوست اس سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کی حفاظت کا قانون بیان فرمایا ، پھر مال کی حفاظت کا قانون بتلایا اور فرمایا کہ بیجا تصرف سے منع فرمایا ، حق تلفی کو ناجائز قرار دیا اور بتایا کہ یہ بات تقویٰ کے خلاف ہے۔ ایمانیات کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کا قانون فوجداری بیان فرمایا اور قصاص اور دیت کا تذکرہ کیا اور فرمایا یہ اصول بیان کرنے کا مقصد ہے کہ تم اس پر عمل پیرا ہو کر تقویٰ حاصل کرو۔ فرضیت روزہ آیات زیر درس میں ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن روزہ کا بیان ہے۔ جس طرح اس سے پہلے اصولوں کو تقویٰ کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔ اسی طرح روزہ رکھنے کی غرض وغایت بھی تحصیل تقویٰ ہی بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے یا ایھا الذین امنوا اے اہل ایمان کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ کما کتب علی الذین من قبلکم جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے اور مقصد یہی ہے لعلکم تتقون تا کہ تم پرہیز گاری اختیار کرلو۔ کتب کا لفظ فرضیت کے لیے آتا ہے ، جیسے اس سے پہلے قصاص کے متعلق آیا تھا کتب علیکم القصاص یعنی تم پر قصاص فرض کیا گیا اسی طرح وصیت کے متعلق آ چکا ہے کتب علیکم اذا حضر احد کم الموت ان ترک خیر ا الوصیۃ اگر ما چھوڑا ہے ، تو تم پر وصیت کرنا لازم ہے ، اسی طرح یہاں پر روزوں کے متعلق کتب علیکم الصیام یعنی تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں ۔ روزہ کا مفہوم روزہ کے لفظی معنی رک جانے کے ہیں ، عربی زبان میں اس کے لیے امساک کا لفظ بھی آتا ہے ، تا ہم لفظ بھی رک جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثال کے طور پر عرب کہتے ہیں ۔ خیل صیام و خیل غیر صائمۃ تحت العجاج وخیل تعلک اللجما کچھ گھوڑے رکے ہوئے ہیں یعنی خاموش ہیں کچھ حرکت کر رہے ہیں اور کچھ گرد و غبار کے نیچے لگام چپا رہے ہیں ۔ شریعت میں روزہ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے۔ الامساک عن الاکل والشرب والجماع من طلوع الفجر الی غروب الشمس طلوح فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔ روزہ نہار شرعی کے اندر ہوتا ہے اور شرعی دن سے مراد پوپھوٹنے لے کر سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے۔ اس دوران کھانے پینے 1 ؎۔ احکام القرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نفسانی خواہشات سے باز رہنا اس نیت کے ساتھ کہ میرا روزہ ہے ، یہی صوم ہے اور اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رکن ہے ۔ ارکان اسلام میں توحید و رسالت پر عقیدہ کے بعد نماز ، پھر زکوٰۃ اور پھر روزہ کا نمبر ہے۔ چوتھا نمبر حج کا ہے اسی ترتیب سے پانچواں رکن جہاد ہے اور اس کا ذکر بھی بعد میں آ رہا ہے ان تمام ارکان کا تذکرہ سورة بقرہ میں اسی ترتیب سے آ رہا ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے علیکم بالصوم فانہ لا عدل لہ روزہ کو لازم پکڑو کیونکہ روزی جیسی کوئی اور عبادت نہیں۔ سابقہ امتوں کے روزے الغرض ! فرمایا اے ایمان والو ! یہ روزے صرف تم پر ہی نہیں فرض کیے گئے بلکہ تم سے پہلے گزرنے والے لوگوں پر بھی اسی طرح فرض تھے ، البتہ ان روزوں کی مقدار اور تعداد مختلف امتوں کے لیے مختلف رہی ہے ، چناچہ مشہور ہے کہ حضر ت آدم (علیہ السلام) ایام بیض یعنی ہر ماہ کی تیرہ چودہ پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتے تھے ، اور یہ روزے امت محمدیہ کے لیے مستحب کا درجہ رکھتے ہیں حالانکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لیے فرض تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت کے لوگ بڑے سخت مزاج اور اکھڑ تھے ان میں بہیمیت کا عنصر زیادہ مقدار میں پایا جاتا تھا ، اسے کم کرنے کے لیے اس امت کو سارا سال روزے رکھنے کا حکم تھا حضر ہ دائود (علیہ السلام) ایک دن روزہ رکھتے تھے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دو دن روزہ رکھتے تھے اور تیسرے دن افطار کرتے تھے اس امت آخر الزمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں ایک ماہ کے روزہ فرض کیے ، ان کے متعلق فرمایا ایاما ً معدودت یہ گنتی کے چند دن ہیں ۔ یعنی تین سو ساٹھ دن میں سے انتیس یا تیس دن کے روزے فرض قراردیئے گئے ہیں ۔ روزہ باطنی عبادت ہے امام طحاوی (رح) اپنی کتاب مشکل الاثار میں فرماتے ہیں کہ ہر عبادت میں ریا کا امکان ہے ، صرف روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا کاری کا کوئی مسلہ نہیں ، یہ باطنی عبادت ہے اور اس کا تعلق ایک طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور دوسری طرف بندہ کے ساتھ نماز ، زکوٰۃ ، حج وغیر ایسی عبادات ہیں ۔ جنہیں دوسرے لوگ دیکھ سکتے ہیں ، انہیں محسوس کرسکتے ہیں اور زکوٰۃ سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں ، مگر روزہ کے ساتھ ایسا معاملہ پیش نہیں آسکتا ، اس کا تعلق صرف روزہ دار کی ذات سے ہوتا ہے ۔ دوسرا شخص نہ اسے دیکھ سکتا ہے اور نہ محسوس کرسکتا ہے ، اگر کوئی شخص عام لوگوں کے سامنے تو نہیں کھاتا پیتا مگر در پردہ ایسا کرلیتا ہے ، تو اس کا روزہ کہاں ہوگا ؟ وہ لاکھ اعلان کرتا پھرے کہ میں روزہ دار ہوں مگر اس کی حقیقت کو وہ خود جاتا ہے۔ یا رب العزت جانتا ہے کہ وہ روزے دار ہے یا نہیں ، اس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر عبادت کا بدلہ دیا جائے گا ، مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے ، جسکی جزا میں خاص طور پر خود عطا کروں گا ، حدیث قدسی کے الفاظ ہیں ۔ الصوم لی وانااجزی بہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اسکی جزا دوں گا ۔ روزہ کی جسمانی فوائد روزہ کے روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے جسمانی فوائد بھی ہیں ۔ صوموا تصحوا روزہ رکھو تا کہ تمہیں صحت نصیب ہو۔ یورپ کے بہت سے نامور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسلام نے فاقہ کا جو طریقہ روزہ کی صورت میں مقرر کیا ہے ، اس سے بہتر حفظان صحت کا کوئی اصول نہیں مختلف بیماریوں کے حملہ کی صورت میں بھی روزہ صحت مندی کا سبب بنتا ہے ، مثلاً اگر کوئی شخص بلغمی مادہ کی زیادتی کا مریض ہو تو روزہ رکھنے سے بالکل تندرست ہوجائے گا۔ فاقہ کرنے سے بلغمی اور کئی دوسری رطوبتیں خشک ہوجاتی ہیں اور آدمی صحت یاب ہوجاتا ہے اسی لیے فرمایا کہ روزہ رکھو ، صحت نصیب ہوگی اور سفر کرو غنیمت حاصل ہوگی ۔ بسا اوقات اقامت میں آدمی کامیاب نہیں ہوتا مگر سفر کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسے وسائل پیدا کردیتا ہے ، جو اس کی کامیابی کا سبب بن جاتے ہیں ، اور انسان تنگی سے نکل کر فراخی میں داخل ہوجاتا ہے۔ روزہ اور قانون کی پابندی فرضیت روزہ کے لیے خطاب اہل ایمان سے ہوا ہے ۔ یایھا الذین امنوا گویا روزہ ایمان کا تقاضا بھی ہے جو شخص ایماندار ہونے کا دعویدر ہے ، اسے روزے کی فرضیت پر ایمان لانا ہوگا ، ورنہ وہ اہل ایمان ہونے کا تقاضا پورا نہیں کرتا ۔ علمائے کرام فرماتے ہیں روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ قانون کی پابندی سکھاتا ہے روزہ کے ذریعے انسان ایک مقررہ وقت کے لیے حلال اکل و شراب سے بھی رک جاتا ہے ، مقصد اس کا یہ ہے کہ انسان قانون کا پابند ہوجائے ، جب وہ قانون کی پابندی کے ذریعے حلال چیزوں سے رک سکتا ہے ، تو وہ حرام چیزوں سے بھی رک جائے گا ، کھانے پینے اور نفسانی خواہش کی تکمیل سے انسان کا نفس مزید پھلتا پھولتا ہے۔ اسے کمزور کرنے کے لیے اسلام نے روزہ کا قانون نافذ کیا ، تا کہ نفس انسانی کو فاقہ کے ذریعے کمزور کیا جاسکے۔ لعلکم تتقون کا یہی مطلب ہے کہ انسان میں تقویٰ جیسی اچھی خصلت پیدا ہوجائے ۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ رونے کے ذریعے جب نفس کو مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑ جائیگی ، تو پھر اسے شرعا ً حرام چیزوں سے روکنا آسان ہوجائے گا ، جب روزہ کی وجہ سے قوت نفس اور شہوت میں ضعیف آئیگا ، تو تم متقی بن جائو گے ، روزہ میں یہ بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے سرکش نفس کی اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے احکام پر پابندی ہونے لگتی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں تو چالیس روزے رکھنے کا ذکر آتا ہے اور نصاری پر ایک ماہ کے روزے فرض تھے ، مگر انہوں نے اس حکم میں تبدیلی کرلی ۔ طبرانی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ عیسائیوں کا کوئی بادشاہ بیمار ہوگیا ، گرمی کے روزے تھے ، اس نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تندرستی دی ، تو ہم تیس کی بجائے چالیس روزے رکھیں گے ، اسی طرح ایک اور بادشاہ بیمارہ وا تو اس نے کہا کہ تندرست ہو کر مزید سات روزے رکھوں گا ۔ اس طرح انہوں نے روزوں کی تعداد سینتالیس تک پہنچا دی ، اس کے بعد عیسائی علماء کا اجتماع ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ سینتالیس کی بجائے پورے پچاس روزے مقرر کردینے چاہئیں ، البتہ موسم گرما کی بجائے موسم بہار میں رکھ لیا کریں گے ، تو اس طرح انہوں نے اپنی مرضی سے روزوں کی تعداد موسم میں تغیر و تبدل کردیا۔ مولاناشیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ لعلکم تتقون میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ روزوں میں تبدیلی نہ کرنا بلکہ ہر سال ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا خواہ وہ گرمی میں آئیں یا سردی میں ، بہار میں آئیں یا خزاں میں چناچہ قمری سال کے مطابق رمضا ن المبارک مختلف موسموں میں آتا رہتا ہے۔ متقی بننے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی نفس اس کے تابع ہوجائے اور احکام شریعت پر عمل آسان ہوجائے ۔ فرمایا ایاما ً معدودت یہ گنتی کے دن ہیں یعنی پورے سال میں انتیس یا تیس دن کے روزے ہیں ، ان کو احکام الٰہی جانتے ہوئے خوشی خوشی سے پورا کرو اور اپنے اندر تقویٰ جیسی عظیم خصلت پیدا کرو۔ مریض اور مسافر کا روزہ فرمایا ماہ رمضان المبارک میں روزے رکھنے کا حکم تندرست اور مقیم کے لیے ہے ، جیسے رزہ رکھنے میں غیر معمولی مشقت نہ برداشت کرنی پڑے ، البتہ ایسے لوگوں کے لیے روزے موخر بھی کیے جاسکتے ہیں ۔ جو مقررہ ماہ میں روزہ رکھنے سے بیمار ہو ۔ او علی سفر یا مسافر ہو فعدۃ من ایام اخر تو یہ گنتی دوسرے دنوں میں پوری کرے ، مثال کے طور پر کسی شخص کو بخارآتا ہے ظاہ ہے کہ اس حالت میں خاص طور پر گرمی کے موسم میں و ہ زیادہ دیر تک بھوک پیاس برداشت نہیں کرسکتا اگر روزہ رکھنے کی کوشش کرے گا تو بیماری میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں اسے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے ، بلکہ رمضان کے بعد چھوٹ جانے والے روزوں کے بدلے روزے رکھ لے۔ اسی طرح مسافر بھی روزے موخر کر نیکی اجازت ہے ، سفر آرام و سکون کا ہو یا مشقت طلب ، ہوائی جہاز کا ہو یا بحری جہاز کا ، ریل گاڑی کا ہو یا بس کا ، کسی جانور کی سواری ہو یا پیدل سفرکررہا ہے ، اگر اس کا جی نہیں چاہتا تو اسے اجازت ہے کہ روزہ قضا کرے ۔ اس پر کوئی خرج نہیں ، رمضان کے بعد روزے رکھ سکتا ہے تا ہم یہ گنتی پوری کرنے پڑے گی ۔ اس سے بچ نہیں سکتا یہ ایک قسم کا نصاب ہے جسے ہر حالت میں مکمل کرنا ہوگا ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی طالب علم کسی امتحان میں شریک ہوتا ہے۔ مگر کسی ایک یا دو پرچے میں ناکام ہوجاتا ہے یا سرے سے وہ پرچے دیتا ہی نہیں ، تو اسے وہ نصاب سپلیمنٹری امتحان کی صورت میں پورا کرنا ہوتا ہے ، اس کے بغیر اسے ڈگری نہیں مل سکتی ، اسی طرح جب تک چھوڑے ہوئے روزے پورے ہیں کرے گا اس فرض سے عہد بر آ نہیں ہو سکتا ، اسے تقویٰ کی سند نہیں مل سکتی۔ روزہ کے بدلے فدیہ فرمایا و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان پر ایک مسکین کا کھانا فدیہ ہے۔ مفسرین کرام نے اس حصہ آیت کی مختلف تفاسیر کی ہیں ۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم روزہ کا حکم آنے کے بعد ابتدائی ایک دو سال کے لیے تھا جب کہ لوگ اس مشقت سے ابھی مانوس نہیں ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اجازت تھی کہ جو کوئی روزہ نہ رکھے اور وہ اس قابل ہو کہ ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو دن رات کا کھانا کھلائے تو وہ ایسا کرسکتا تھا جس سے اس کا روزہ ادا ہوجاتا تھا ، اس کے بعد جب اگلی آیت نازل ہوئی تو مریض اور مسافر کے سوا روزہ رکھنا لازم قرار دے دیا گیا اور اس کے ساتھ اسکے فوائد بھی سمجھا دیئے گئے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ۔ اس آیت یطیقونہ سے پہلے لفظ لا محذوف ہے اور مراد یہ ہے کہ فدیہ ادا کرنے کی رعایت ان لوگوں کے لیے ہے۔ لا یطیقونہ جو رزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس ضمن میں دو قسم کے لوگ آتے ہیں ، اولاً وہ لوگ جو بہت بوڑھے ہوگئے ہوں ۔ شیخ فانی یا عجوزہ فانیہ یعنی بہت بوڑھا مرد ہے ، یا بہت بوڑھی عورت ہے دو چارگھٹے بھی بغیر کھائے پئے نہیں رہ سکتے تو ایسے لوگوں کے لیے حکم ہے کہ اگر وہ مالدار ہیں تو روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ ثانیاً ، ایسے بیمار لوگ جو لمبی بیماری میں مبتلا ہیں ، تندرست ہونے کی چنداں امید نہیں کہ تندرست ہو کر روزہ قضا کرلیں گے ، تو ایسے لوگ بھی روزہ کے بدلے میں اس کا فدیہ ادا کرسکتے ہیں ۔ البتہ اگر بعد میں تندرست ہوجائیں ، تو انہیں روزہ رکھنا ہوگا ، اس کے بغیر ان کی فرضیت ادا نہیں ہوگی ، البتہ ادا شدہ فدیہ کا انہیں علیحدہ ثواب حاصل ہوگا ، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ روزہ کے بدلے میں فدیہ ادا کر دے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس حالت میں روزہ نہ رکھے جب کہ پیٹ میں بچہ ہے یا دودھ پینے والے بچے کی زندگی خطرہ میں ہے ، تا ہم مصنف عبد الرزاق میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا فتویٰ موجود ہے کہ ایسی عورتوں کو روزہ معاف ہیں ہوگا۔ جب ان کی علت دور ہوجائے ، تو روزہ قضا کرنا ہوگا ۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں یطیقونہ لفظ اطاقۃ سے ہے اور یہ باب افعال سے ہے ، اس کا معنی ہے جو لوگ روزے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یعنی روزے سے مانوس نہیں ہیں ، اس کے عادی نہیں ہیں ، وہ روزے کے بدلے فدیہ دے سکتے ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے اس کی دوسری تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ یہاں پر فدیہ سے مراد صدقہ فطر ہے۔ جو صاحب استطاعت پر واجب ہے اور یہ روزوں کا کفارہ بنتا ہے اس میں اور بھی کئی ایک مصلحتیں ہیں ، بہر حال اسے صدقہ فطر پر محمول کیا گیا ہے ، جسکی مقدار ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا ہے یا ہر روزہ کے بدلے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ادا کرے ، گندم کی بجائے اگر باجرہ وغیرہ ہے تو ایک صاع یعنی چار سیر ادا کرنا ہوگا اور گندم ہے تو نصف صاع یعنی دو سیر۔ روزہ رکھناہی بہتر ہے فرمایا فمن تطوع خیر ا فھو خیر لہ اور جو کوئی خوشی سے نیکی کریگا ، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے ۔ یعنی اگر شرعی عذر کے باوجود روزہ رکھتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور روزہ رکھنے والے کے لیے بہتر ہے۔ وان تصوموا خیر لکم یعنی اگر تم روزہ رکھتے ہو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ان کنتم تعلمون اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ روزہ رکھنے میں بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اسکے ذریعے نفس کی اصلاح ہوتی ہے ، قانون کی پابندی کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے شریعت کے جملہ احکام کی تعمیل آسان ہوتی ہے اور انسان کے لیے بلندی درجات کا ذریعہ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو ، تو تمہارے لیے روزہ چھوڑنے کی بجائے روزہ رکھنا ہی بہتر اور افضل ہے۔
Top