Dure-Mansoor - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! فرض کئے گئے تم پر روزے جیسا کہ فرض کئے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ
روزہ کی فرضیت (1) امام بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ نماز و روزے کے حکم میں تبدیلی (2) امام احمد، ابو داؤد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے سنن میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نماز تین احوال میں پھیری گئی اور روزہ تین احوال میں پھیرا گیا۔ نماز کے تین احوال یہ ہیں نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لئے تو آپ نے سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل فرمایا۔ لفظ آیت ” قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضھا “ تو آپ ﷺ نے اپنا رخ مکہ کی طرف کرلیا یہ تبدیلی تھی۔ حضرت معاذ نے (پھر) فرمایا نماز کے لئے پہلے لوگ جمع ہوتے تھے اور ایک دوسرے کو نماز کی اطالع کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اس طریقے کو اچھا نہ سمجھنے لگے پھر انصار میں سے ایک آدمی جس کو عبد اللہ بن زید کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے دیکھا ہے اس بارے میں جو نیند کرنے والا دیکھ رہا ہے اور اگر میں کہوں کہ میں نیند میں نہیں تھا تو بھی میں سچا ہوں گا۔ میں نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا جب میں نے ایک شخص کو دیکھا جو دو سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے قبلہ رخ ہو کر یوں کہا لفظ آیت ” اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ “ دو مرتبہ یہاں تک کہ اذان سے فارغ ہوگیا پھر وہ تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر اس نے اسی طرح کہا اور اس میں ” قد قامت الصلوۃ “ کو زیادہ کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت بلال ؓ کو یہ (کلمات) سکھا دو تاکہ وہ ان الفاظ کے ساتھ اذان دیں حضرت بلال پہلے شخص تھے جنہوں نے ان کلمات کے ساتھ اذان دی راوی کہتے ہیں کہ (اتنے میں) حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تشریف لے آئے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بھی اس قسم کا آدمی آیا تھا لیکن یہ مجھ سے (آپ کے پاس پہلے آئے ہیں) سبقت لے گیا یہ دوسری تبدیلی ہے۔ پہلے صحابہ اکرام نماز کی طرف آتے تھے (اور) نبی اکرم ﷺ کچھ نماز پہلے پڑھ چکے ہوتے تھے ایک آدمی (دوسرے نماز پڑھنے والے) کے پاس جاتا اور (نماز کی حالت میں اس سے پوچھ لیتا تھا) کتنی رکعتیں پڑھی جاچکی ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ ایک یا رو رکعتیں (پڑھ لی ہیں) پھر وہ ان دونوں رکعتوں کو پہلے پڑھ لیتا پھر جماعت میں شریک ہوتا۔ حضرت معاذ تشریف لائے اور فرمایا میں آپ کو ہمیشہ اس حال میں نہیں پایا مگر اس حالت میں آپ کے پاس شریک ہوجاتا تھا (کہ میری ایک دو رکعت رہ جاتی تھی) پھر میں بعد میں قضا کرلیتا تھا (اس رکعت کو) جو مجھ سے رہ جاتی تھی۔ (ایک دفعہ) میں آیا تو نبی اکرم ﷺ آگے جا چکے تھے ایک دو رکعت پڑھ چکے تھے تو میں آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑا ہوگیا جب رسول اللہ ﷺ نے نماز کو پورا فرمایا تو میں نے کھڑے ہو کر بقیہ نماز کو پورا کرلیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا کہ تمہارے لئے معاذ ؓ نے سنت قائم کردی ہے۔ تم بھی اسی طرح کیا کرو یہ تیسری تبدیلی ہوئی۔ اور روزے کے احوال یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ہر مہینہ کے تین دن کے روزے اور عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے روازے آپ پر فرض فرما دئیے اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “۔ الی قولہ : وعلی الذین یطیقونہ فی فدیۃ طعام مسکین : پس جو شخص چاہے روزے رکھے اور جو شخص چاہے مسکین کا کھانا کھلائے یہ اس کا قائم مقام ہوگا پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس “ الی قولہ ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ (اس طرح) اللہ تعالیٰ نے مقیم اور تندرست پر روزہ فرض فرما دیا اور مریض اور مسافر کے لئے رخصت عطا فرما دی اور بوڑھے آدمی کے لئے کھانا کھلانے کو ثابت فرما دیا جو روزوں کی طاقت نہیں رکھتا تو یہ دو حالتیں ہوئیں۔ اور فرمایا لوگ کھاتے پیتے رہتے تھے اور اپنی عورتوں کے پاس آتے تھے جب تک کہ سوتے نہ تھے جب سو جاتے تھے تو (پھر کھانے پینے اور عورتوں کے پاس آنے سے) منع کر دئیے جاتے تھے انصار میں سے ایک آدمی جس کو صرمہ کہا جاتا تھا روزہ کی حالت میں شام تک کام کرتا تھا (شام کے وقت) وہ اپنی بیوی کے پاس آیا، عشا کی نماز پڑھی اور سو گیا صبح تک اس نے نہ کھایا نہ پیا صبح کو پھر روزہ رکھ لیا نبی اکرم ﷺ نے اس کو سخت تکلیف میں دیکھا اور فرمایا میں تجھ کو انتہائی تکلیف اور مشقت میں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں کل سارا دن کام کرتا رہا (روزے کی حالت میں) تو میں پیٹ گیا اور میں سو گیا پھر میں نے (بغیر کھائے پیئے) صبح کا روزہ رکھ لیا (کیونکہ سو جانے کے بعد کھانا پینا جائز نہیں تھا (پھر) حضرت عمر ؓ نے (کچھ دیر) نیند کرنے کے بعد اپنی بیوی سے ہم بستری کی (کیونکہ نیند کرنے کے بعد عورتوں سے ملنا جائز نہ تھا) نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر اپنا واقعہ بیان فرمایا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث “ الی قولہ ” ثم اتموا الصیام الی الیل “۔ (3) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کما کتب علی الذین من قبلکم “ یعنی اس سے اہل کتاب مراد ہیں۔ (4) ابن جریر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ نصاری پر رمضان کا مہینہ فرض کیا گیا جیسے ہم پر فرض کیا گیا ان کے روزے موم گرما میں آتے تو وہ انہیں دوسرے موسم کی طرف پھیر دیتے تھے (کفارے کے طور پر) ان میں اضافہ کردیتے تھے یہاں تک کہ پچاس دن ہوگئے پس اس آیت کا یہی مطلب ہے لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “۔ (5) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کما کتب علی الذین من قبلکم “ سے مراد وہ نصاری ہیں جو ہم سے پہلے تھے ان پر رمضان (کے روزے) فرض کئے گئے اور ان پر (یہ بھی) فرض کیا گیا کہ نیند کے بعد کھاؤ اور پیو اور نہ رمضان کے مہینہ میں نکاح کرو رمضان کے روزے نصاری پر بھاری پڑگئے۔ وہ اکھٹے ہوئے اور روزوں کو دوسرے موسم گرمی اور سردی کے درمیان کردیا اور کہنے لگے کہ ہم بیس دن زیادہ کردیں گے یہ ہمارے اس تبدیلی کا کفارہ ہوگا جو کچھ ہم نے (اللہ کے حکم کے خلاف) کیا (اور بعد میں) مسلمان بھی وہی کرتے رہے (یعنی نیند کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے) یہاں تک کہ ابو قیس بن صرمہ اور عمر بن خطاب ؓ کا وہ واقعہ پیش آیا (جو پہلی روایت میں گذر چکا ہے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کھانا پینا اور جماع کو طلوع فجر سے پہلے تک حلال فرما دیا۔ (6) ابن حنظلہ نے اپنی تاریخ میں النحاس نے ناسخ میں اور طبرانی نے معقل بن حنظلہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نصاری پر رمضان کے روزے (فرض) تھے۔ ان کا بادشاہ بیمار ہوا تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی تو ہم دس (روزے) زیادہ کردیں گے پھر دوسرا بادشاہ ہپوا اس نے گوشت کھایا تو وہ منہ کے درد میں مبتلا ہوگیا کہنے لگے اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا عطا فرما دی تو ہم سات (روزے) اور زیادہ کردیں گے پھر ان کا ایک اور بادشاہ تھا تو کہنے لگے ہم بقیہ تین روزوں کو نہیں چھوڑیں گے ہم دس روزے پورے کریں گے اور ہم اپنے روزوں کو موسم ربیع میں کردیں گے انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس طرح ان کے پچاس روزے ہوگئے۔ (7) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “ سے مراد ہے کہ ان پر روزے فرض کئے گئے ایک عشاء سے دوسری عشاء تک۔ (8) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علی الذین من قبلکم “ سے مراد اہل کتاب۔ (9) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لعلکم تتقون “ تاکہ تم پہلے لوگوں کی طرح کھانے پینے اور عورتوں سے بچتے رہو۔ (10) ابن جریر اور ابی ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ایاما معدودات “ سے مراد ہے کہ ہر مہینے کے تین دن روزے تھے اور پورے مہینہ کو ” ایاما معدودات “ کا نام نہیں دیا گیا۔ (اور) فرمایا کہ اس سے پہلے لوگوں کے یہی تین روزے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رمضان کے مہینے کو فرض فرما دیا۔ (11) سعید بن منصور نے ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ رمضان کے مہینے نے سب روزے منسوخ کر دئیے۔ (12) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ایاما معدودات “ سے مراد رمضان کے تیس دن کے روزے ہیں۔ (13) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام “ سے مراد ہے کہ ہر ماہ تین دن کے روزے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کے بارے میں (حکم) نازل فرما کر ان کو منسوخ فرما دیا سو یہ پہلا روزہ عشاء سے شروع ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ بھی رکھا تھا پس جو مسافر چاہتا ایک مسکین کو کھانا کھلا کر روزہ افطار کرلیتا اور جو ان کے لئے رخصت تھی پھر اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” فعدۃ من ایام اخر “ کا حکم نازل فرمایا اور اس دوسرے حکم میں مسکین کے کھانے کے دفیہ کا ذکر نہیں فرمایا تو فدیہ منسوخ ہپو گیا اور دوسرے دنوں میں روزہ رکھنا ثابت ہوگیا (اور) فرمایا لفظ آیت ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر “ اور افطار کرنا ہے سفر اجازت ہے اور پھر اس کی قضا دوسرے دنوں میں کرتے۔ (14) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “ سے مراد وہ رمضان کے روزے ہیں جن کو اللہ تعالیی نے فرض کیا تھا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے اور پہلے وہ لوگ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے اور دو رکعت صبح کو اور دو رکعت شام کو پڑھتے تھے یہاں تک کہ ان پر (اللہ تعالیٰ ) نے رمضان کا مہینہ فرض کردیا۔ (15) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ پہلا روزہ وہ تھا جس کو نوح (علیہ السلام) نے اور ان کے بعد والوں نے رکھا یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بھی اسی طرح روزہ رکھا۔ (16) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے روزے اللہ نے تم سے پہلی امتون پر بھی فرض فرمائے تھے۔ (17) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ہر امت پر پورے رمضان کے روزے فرض کئے گئے تھے جو پہلے گزر چکی۔ جیسا کہ ہم پر پورے ماہ کے روزے فرض ہیں۔ (18) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نصاری پر اس طرح روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم پر فرض کئے گئے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے یعنی لفظ آیت ” کتب علیکم “ پھر فرمایا کہ نصاری کا معاملہ یہ ہوا کہ ایک دن انہوں نے پہلے روزہ رکھا کہنے لگے ہم نہیں چوکیں گے پھر انہوں نے ایک دن بڑھایا اور ایک دن پیچھے کردیا۔ اور کہنے لگے کہ ہم نہیں چوکیں گے پھر ان کا آخری معاملہ یہ ہوگیا انہوں نے کہا کہ ہم دس (روزے) آگے کریں گے اور دس پیچھے کریں گے یہاں تک کہ ہم نہیں چوکیں گے پس وہ لوگ روزوں کا مہینہ ہی گم کر بیٹھے۔ (19) ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام “ سے مراد ہے کہ ان پر (روزے) اس طرح فرض کئے گئے جب ان میں سے کوئی عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتا تھا تو اس پر کھانا اور پینا اور عورتوں کے پاس جانا حرام ہوجاتا تھا۔ (20) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب علیکم الصیام “ سے مراد ہے کہ پہلے لوگوں پر روزہ اس طرح فرض تھا کہ جب ان میں سے کوئی کچھ کھانے سے پہلے سو جاتا تھا تو پھر اس کے لئے آئندہ رات تک کھانا حلال نہیں ہوتا تھا اور روزہ کی رات عورتیں ان پر حرام تھیں اور یہ حکم ان پر ثابت رہا لیکن تم کو اس کی رخصت دی گئی ہے۔ (21) امام بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ عاشوراء کا دن روزہ رکھا جاتا تھا جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو پھر جو شخص چاہتا (عاشوراء کا روزہ) رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ (22) امام سعید اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام “ (الآیہ) یعنی اس سے اہل کتاب مراد ہیں اور اس کا حکم محمد ﷺ کے اصحاب پر بھی تھا کہ ایک شخص عشاء کی نماز یا سونے سے پہلے کھا پی سکتا تھا اور جمع کرسکتا تھا۔ جب وہ عشاء کی نماز پڑھ لیتا یا سو جاتا تو یہ تمام کام آنے والی رات تک منع ہوجاتے تو اس آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام “ نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ وأما قولہ تعالیٰ : وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ : (23) عبد بن حمید نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے خطبہ دیتے ہوئے اس آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ پڑھا اور فرمایا کہ یہ آیت منسوخ کردی گئی۔ روزے کا فدیہ دینے کا حکم (24) ابن ابی حاتم، نحاس نے الناسخ میں اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ نازل ہوئی تو جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا اور مسکین کو کھانا کھلا دیتا پھر یہ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ نازل ہوئی تو پہلا حکم منسوخ ہوگیا مگر بہت بوڑھے کے لئے باقی رہ گیا کہ اگر وہ چاہے تو ہر دن کے روزہ کے بدلہ کسی مسکین کا کھانا کھلا دے اور روزہ نہ رکھے۔ (25) ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ سے مراد ہے کہ ان میں سے جو چاہے (روزہ کے بدلہ میں) ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ دے اور اپنے روزہ کو پورا کرے پھر فرمایا لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا فھو خیرلہ، وان تصوموا خیرلکم “ اور فرمایا لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ (26) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابو داؤد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ بہت بوڑھا آدمی اور بوڑھی عورت کے لئے اجازت تھی جبکہ وہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں اور ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں پھر یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ جو تم میں سے اس مہینہ کو پائے روزہ رکھے اور ایسے بوڑھے شخص کے لئے افطار کی رخصت کو باقی رکھا کہ اگر روزے کی طاقت نہ رکھیں تو افطار کرلیں اور مسکین کو کھانا کھلا دیں اور (اس طرح) حمل والی عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت جب بچے کی ہلاکت کا خوف ہو تو روزہ نہ رکھیں اور مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ہر دن کے بدلہ اور ان پر روزہ کی قضا بھی نہیں ہے۔ (27) امام دارمی، بخاری، مسلم، ابوؤود، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن خزیمہ، ابو عداوہ، ابن ابی حاتم، نحاس، ابن حبان، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ (الآیہ) طعام مسکین نازل ہوئی تو ہم میں سے جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا اس کے بدلہ میں فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی جو اس کے بعد ہے اور اس آیت لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ سے سابقہ آیت منسوخ ہوگئی۔ (28) ابن حبان نے سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول کے زمانہ میں مرضی سے روزے رکھتے تھے تو جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ یہ آیت لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ نازل ہوئی۔ (29) امام بخاری نے أبو یعلی (رح) سے روایت کیا کہ ہم میں سے کچھ ساتھیوں نے ہم کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ پر جب رمضان کے بارے میں حکم نازل ہوا تو ان پر یہ حکم مشکل ہوا جو شخص ہر دن مسکین کو کھانا کھلا دیتا تھا وہ رمضان کے روزے چھوڑ دیتا تھا لیکن جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا تھا اس کو روزہ چھوڑنا بھاری لگتا تھا اور ان کو رخصت دی گئی تھی پھر اس آیت لفظ آیت ” وان تصوموا خیرلکم “ نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور روزے رکھنے کا حکم دیا گیا۔ ابتداء اسلام میں ہر ماہ تین روزے کا حکم تھا (30) ابن جریر نے ابو یعلی (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو محمد ﷺ کے اصحاب ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ان کو ہر ماہ تین دن کے روزوں کا حکم دیا جو نفلی تھے فرض نہ تھے پھر رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا اور لوگ روزہ رکھنے کے عادی نہ تھے (یہ حکم) ان پر بھاری ہوا اور جو شخص روزہ نہ رکھتا تھا مسکین کو کھانا کھلا دیتا تھا پھر یہ آیت لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ، ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر “ نازل ہوئی تو مریض اور مسافر کے لئے رخصت ہوئی اور ہم کو روزہ کا حکم ہوا۔ (31) عبد بن حمید، ابن المنذر نے عامر شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ نازل ہوئی تو مالداد لوگ روزہ نہ رکھتے تھے اور (مساکین کو) کھانا کھلا دیتے تھے اور فقراء پر روزہ کردیا گیا پھر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ تو سب لوگوں نے روزہ رکھا۔ (32) امام وکیع اور عبد بن حمید نے ابو یعلی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا بن ابی رباح (رح) کے پاس رمضان کے مہینے میں آیا تو وہ کھا رہے تھے میں نے اس سے کہا کیا آپ کھا رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا روزہ کے بارے میں جو حکم اول نازل ہوا کہ جو شخص چاہیے روزہ رکھے اور جو شخص چاہے روزہ نہ رکھے اور ہر دن مسکین کو کھانا کھلا دے جب یہ آیت لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا فھو خیرلہ “ نازل ہوئی تو مسکینوں کو کھانا کھلانا مستحب تھا پھر جب یہ آیت لفظ آیت ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ نازل ہوئی تو ہر مسلمان پر روزہ فرض ہوگیا مگر مریض یا مسافر یا میری طرح بہت بوڑھے آدمی پر فرض نہیں ہوا بیشک وہ افطار کرے اور ہر دن مسکین کو کھانا کھلا دے۔ (33) امام وکیع، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، بخاری، ابن جریر، ابن المنذر اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” فدیۃ طعام مسکین “ پڑھتے تھے اور فرماتے تھے یہ منسوخ ہے اس آیت کو اس کے بعد والی آیت لفظ آیت ” فمن شھدمنکم الشھر فلیصمہ “ نے منسوخ کردیا۔ (34) امام وکیع، سفیان، عبد الرزاق، الفریابی، بکاری، ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن الانباری نے مصاحف میں، طبرانی، دار قطنی، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ پڑھت تھے (تشدید کے ساتھ) مطلب یہ ہے کہ وہ مشقت اور تکلیف کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور فرماتے تھے کہ (یہ آیت) منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بوڑھا آدمی اور بوڑھی عورت ہے (جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے) وہ ہر دن کے لئے مسکین کو کھانا کھلائیں اور روزے قضا بھی نہ کریں۔ (35) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، دار قطنی، حاکم (ان دونوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ سے مراد ہے کہ وہ تکلیف کے ساتھ روزے رکھتے ہو تو ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا “ یعنی اور جو ایک مسکین سے زائد دیں لفظ آیت ” فھو خیرلہ “ تو یہ اس کے لئے بہتر ہے لفظ آیت ” وان تصوموا “ اور تمہارے لئے روزہ رکھنا بہتر ہے فرماتے ہیں کہ آیت منسوخ نہیں ہے اور اس میں اس بوڑھے کے لئے رخصت دی گئی ہے جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتا ہو یا اس مرض کے لئے جو جانتا ہو کہ اب اسے شفا یاب ہونا مشکل ہے۔ (36) ابن جریر، بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ ” یطیقونہ “ پڑھتی تھیں۔ (37) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ پڑھتے تھے۔ (38) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن الانباری نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ پڑھتے تھے پھر فرمایا یہ آیت منسوخ نہیں ہے جو لوگ بڑی مشکل سے روزہ رکھ سکتے ہیں جیسے بہت بوڑھا شخص تو ان پر فدیہ ہے۔ (39) ابن جریر، ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ (یعنی جو لوگ طاقت رکھتے ہیں) ان کو مشقت میں ڈالا گیا اور انکو مکلف بنایا گیا پڑھتے تھے اسکا معنی مشکل سے روزہ رکھنا۔ (40) سعید بن منصور، ابو داؤد نے الناسخ میں اور ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ پڑھتے تھے اور فرمایا اگر وہ روزے کی طاقت نہیں رکھیں تو وہ روزہ نہ رکھیں۔ (41) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ بہت بوڑھے آدمی کے لئے نازل ہوئی جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتا اس کو اجزات دی گئی ہے کہ وہ اس کے بدلہ میں ہر دن مسکین کا کھانا کھلا دیا کرے۔ (42) عبد بن حمید، ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم، دارقطنی اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ منسوخ نہیں ہے اس سے مراد وہ بہت بوڑھا آدمی ہے جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتا ہو تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر دن آدھا صاع گیہوں میں سے ایک فد اس کے کھانے کے لئے اور ایک مد اس کے سالن کے لئے صدقہ کردیں۔ (43) ابن سعد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت مولی قیس بن ثابت ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین “ کہ وہ روزہ نہ رکھیں اور ہر دن کے لئے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ (44) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ “ سے مراد ہے کہ جو شخص مشقت کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور ہر دن مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے اور اسی طرح حاملہ عورت، دودھ پلانے والی، بہت بوڑھا آدمی اور جو شخص ہمیشہ بیمار رہے (روزہ کے بدلہ میں صدقہ دیدے) ۔ (45) ابن جریر نے علی بن ابی طالب ؓ سے لفظ آیت ” وعلی الذین یطیقونہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد بہت بوڑھا آدمی ہے جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ اس کے بدلہ میں ہر دن مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔ (46) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن المنذر، دار قطنی اور بیہقی نے حضر مالک بن انس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنی موت سے ایک سال پہلے کمزور ہوگئے (روزہ نہ رکھ سکے) تو انہوں نے ایک بڑے پیالہ میں ثرید بنا لیا اور تیس مسکین کو بلا کر کھانا کھلا دیا۔ (47) امام طبرانی نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انسان روزہ رکھنے سے ضعیف ہوجائے اپنی موت سے ایک سال پہلے تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر دن مسکین کو کھانا کھلائے۔ حاملہ اور مرضعہ کے لئے روزے کی رخصت (48) عبد بن حمید، ابن جریر، دار قطنی (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی ام ولد سے فرمایا جو حاملہ تھی یا مرضعہ بچے کو دودھ پلانے والی تھی کہ تو ان لوگوں کی طرح ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تجھ پر مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور تجھ پر قضا نہیں ہے۔ (49) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، دار قطنی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عمر ؓ کی بیٹیوں میں ایک بیٹی کو حضرت ابن عمر کے پاس حمل کی حالت میں رمضان کے روزے کے بارے میں پوچھنے کے لئے بھیجا انہوں نے فرمایا نہ رکھے اور ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ (50) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ حامل عورت اس ماہ روزہ نہ رکھے اور اسی طرح دودھ پلانے والی جو اپنے بچے پر خوف کرے تو وہ روزہ نہ رکھے اور دونوں ہر دن مسکین کو کھانا کھلاتی رہیں اور ان پر قضا بھی نہیں ہے۔ (51) عبد بن حمید نے عثمان بن اسود (رح) سے روایت کیا کہ ہے کہ میں نے مجاہد (رح) سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جو حاملہ ہو اور اس پر روزہ رکھنا دشوار ہو انہوں نے فرمایا کہ اس کو حکم کر دو کہ روزہ رکھے اور ہر دن ایک مشکین کو کھانا کھلا دیا کرو جن صحت مند ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قضا کرلے۔ (52) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ دودھ پلانے والی کو جب خوف ہو تو روزہ نہ رکھے اور مسکین کو کھانا کھلادے اور حاملہ عورت کو جب اپنی جان پر خوف ہو تو وہ بھی روزہ نہ رکھے اور (بعد میں) قضا کرلے یہ عورت مریض کی طرح ہے۔ (53) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (حاملہ اور مرضعہ) دونوں روزہ نہ رکھیں اور (بعد میں) قضا کرلیں۔ (54) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ حاملہ اور مرضعہ جب دونوں کو خوف ہو تو روزہ نہ رکھیں اور (بعد میں) قضا کرلیں۔ (55) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جب رمضان میں انسان کو اپنی جان پر خوف ہو (کہ روزہ رکھوں گا تو مرجاؤں گا) تو اس کو چاہئے کہ روزہ نہ رکھے۔ وما قولہ تعالیٰ : طعام مسکین : (56) سعید بن منصور نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے سورة بقرہ ممبر پر پڑھی جب آیت پر آئے تو پڑھا لفظ آیت ” طعام مسکین “۔ (57) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فدیۃ طعام مسکین “ کے بارے میں کہ اس سے مراد ہے ایک مسکین۔ (58) امام وکیع نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فدیۃ عام مسکین “ سے اہل مکہ کا مد مراد ہے۔ (59) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے طاؤس (رح) سے اپنی والدہ کے بارے میں پوچھا جن کو پیاس تھی اور روزہ نہیں رکھ سکتی تھیں تو انہوں نے فرمایا کہ روزہ رکھے اور ہر دن (مسکین کو) گیہوں کا ایک مد کھلائیں میں نے کہا کون سا مد ؟ فرمایا تیری زمین (یعنی تیرے علاقے) ولا مد۔ (60) دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جس کو بڑھاپا پہنچ جائے اور رمضان کا پہلا روزہ نہ رکھ سکے تو ہر روز ایک مد گندم کھلائے۔ (61) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے سفیان ؓ سے روایت کیا کہ صدقات اور کفارات کا اندازہ نبی اکرم ﷺ کے مد کے ساتھ ہوگا۔ وما قولہ تعالیٰ : فمن تطوع خیرا فھو خیرلہ : (62) امام وکیع نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا “ سے مراد ہے کہ مسکین کو ایک صاع کھانا کھلائے (63) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا “ سے مراد ہے کہ دو مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ (64) عبد بن حمید نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تطوع خیرا “ سے مراد ہے کئی مساکین کو کھانا کھلادے (65) امام وکیع، عبد بن حمید نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ وہ رمضان میں روزے نہ رکھتے تھے کیونکہ وہ بوڑھے ہوچکے تھے اور ہر دن چار مسکینوں کو کھانا کھاتے تھے۔ (66) دار قطنی نے سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے قیس بن سائب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رمضان کا مہینہ کا انسان فدیہ دے تو ہر دن کے لئے مسکین کو کھانا کھلائے۔ سو تم لوگ مری طرف سے ہر روز دو مسکینوں کو کھانا کھلا دو ۔ قولہ تعالیٰ : وان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون : (67) ابن جریر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان تصوموا خیرلکم “ یعنی روزہ بہتر ہے تمہارے لئے فدیہ سے۔ (68) امام مالک، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حزیمہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کے ہر عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے اللہ عزوجل نے فرمایا کہ خبردار روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، اپنا پینا اور اپنی خواہش کو چھوڑتا ہے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی (قیامت کے دن) اپنے رب سے ملاقات کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (69) ابن ابی شیبہ، مسلم، نسائی، بیہقی نے ابوہریرہ و ابو سعید ؓ دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور روزہ دار کے لئے خوشیاں ہیں ایک خوشی جب افطار کرے اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا اور وہ اس کو جزا دے گا خوش ہوگا اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ ڈھال ہے (70) امام احمد اور بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے رب نے فرمایا روزہ ڈھال ہے بندہ اس کی ذریعہ آگ بچاؤ کرتا ہے اور وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا راوی نے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ روزہ آگ سے بچانے والی مضبوط ڈھال ہے۔ (71) امام بیہقی نے ایوب بن حسان واسطی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک آدمی کو سفیان بن عینیہ ؓ سے سوال کرتے ہوئے سنا کہ اے ابو محمد (یہ ان کی کنیت تھی) ان احادیث میں ہے جن میں نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب سے روایت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے مگر روزہ کہ وہ میرے لئے اور میں اس کا بدلہ دوں گا (یہ حدیث کیسی ہے) ابن عینیہ نے فرمایا یہ حدیث عمدہ اور محکم احادیث میں سے ہے جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا حساب فرمائیں گے اور اس کے مظالم کی وجہ سے اس کے سارے اعمال دوسرے لوگوں کو دئیے جائیں گے یہاں تک کہ صرف روزہ اس کے لئے باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے باقی مظالم کو اٹھالیں گے اور اس کو روزہ کے بدلہ میں جنت میں داخل فرما دیں گے۔ (72) امام مالک، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شورمچائے اگر کوئی اس کو برا کہے یا گالی دے تو اس کو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی جب افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اور دوسری خوشی جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ (73) ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن خزیمہ، بیہقی نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں اس میں سے ایک دروازہ جس کا نام ریان ہے قیامت کے دن اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی بھی ان کے ساتھ داخل نہ ہوگا کہا جائے گا کہاں ہیں روزہ دار ؟ تو وہ لوگ اس سے داخل ہوں گے جب ان میں آخری آدمی داخل ہوجائے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا پھر ان میں سے داخل نہ ہوگا۔ ابن خزیمہ (رح) نے زیادہ کہا کہ جو آدمی اس میں سے داخل ہوگا وہ پیئے گا اور جو شخص پیئے گا وہ پیاسا نہ ہوگا۔ (74) امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا روزہ میں کوئی ریا کاری نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا میری وجہ سے اپنے کھانے اور پینے کو چھوڑتا ہے۔ (75) ابن ابی شیبہ، بخاری، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے پہلے گناہ سب معاف کر دئیے جائیں گے۔ (76) امام نسائی اور بیہقی نے عمرو بن سعید (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (77) امام بیہقی نے عبد اللہ بن روفی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا روزہ دار کی نیند عبادت ہے اس کا خاموش رہنا تسبیح ہے اس کا عمل دوگنا ہے۔ اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے گناہ معاف ہے۔ (78) ابن عدی نے، ابو الحسن، محمد بن جمیع العسائی، ابو سعید بن الاعرابی اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی بندہ جب روزہ کی حالت میں صبح کرتا ہے تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اس کے اعضاء تسبیح کرتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے رہنے والے استغفار کرتے ہیں یہاں تک کہ سورج پردے میں چھپ جاتا ہے اگر وہ ایک رکعت یا دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو اس کے لئے آسمان نور سے روشن ہوجاتے ہیں اور حورعین میں سے اس کی بیویاں کہتی ہیں کہ اے اللہ اس کو ہماری طرف بھیج دے ہم اس کو دیکھنے کی مشتاق ہیں اور اگر وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے یا تسبیح بیان کرتا ہے یا تکبیر کہتا ہے تو اس سے ستر ہزار فرشتے ملاقات کرتے ہیں اور اس کے اس ذکر کا ثواب سورج غروب ہونے تک لکھتے رہتے ہیں۔ روزے دار کے لئے جنت کی بشارت (79) بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو روزہ نے کھانے اور پینے سے روکے رکھا جس کی اس کو خواہش تھی تو اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق جنت کے پھل کھلاتے ہیں اور اس کو جنت میں سے پلائے گا۔ (80) امام بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے وئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اسرائیل میں سے ایک نبی کے پاس یہ وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو یہ بتا دیجئے جب کوئی بندہ کسی دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزہ رکھے گا تو میں اس کے جسم کو صحت عطا کروں گا اور اس کے اجر کو بڑا کر دوں گا۔ (81) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ ہم سمندری جنگ میں جا رہے تھے کہ ایک آواز دینے والے نے آواز دی اے کشتی والوں اپنی خبر دو ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا کہ میں نے کہا کیا تو نہیں دیکھتا ہے کہ ہوا ہمارے لئے اچھی ہے (یعنی سازگار ہے) لنگر ہمارے لئے اٹھائے گئے ہیں کشتی ہمارے لئے سمندر کی گہرائی میں چل رہی ہے ؟ تو اس آواز دینے والے نے کہا کیا میں تم کو اس فیصلہ کے متعلق نہ بتاؤں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر لازم رکھا ہے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور بتاؤ۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر یہ فیصلہ فرما لیا ہے کہ جو بندہ دنیا میں اللہ کی رضا کے لئے اپنے آپ کو ایک دن پیاسا رکھے گا (یعنی روزہ رکھے گا) تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ اس کو قیامت کے دن سیراب فرمائیں گے۔ (82) امام احمد، نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو میں آپ سے حاصل کرلوں اور اللہ تعالیٰ اس سے مجھے نفع عطا فرما دیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا روزہ کو لازم پکڑ لے کہ اس کی مثل کوئی (عمل) نہیں۔ (83) امام بیہقی نے عبد اللہ بن أبی رباح ؓ سے روایت کیا کہ قیامت کے دن روزے داروں کے لئے دسترخوان رکھے جائیں گے وہ کھا رہے ہوں گے اور لوگ حساب دینے کی مشقت میں ہوں گے۔ (84) بیہقی نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر کاشتکار کو اپنی کھیتی کا بدل دیا جاتا ہے اور زیادہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اہل قرآن اور روزوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (85) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نیک عمل کرنے والوں کے لئے جنت کے دروازوں میں سے ایک مخصوص دروازہ ہوگا جس سے وہ بلائے جائیں گے اور روزہ والوں کے لئے ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے۔ (86) امام مالک نے مؤطا میں، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، نسائی اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ ڈھال ہے (آگ سے) (87) امام بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اپنے رب عزوجل سے یہ روایت فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے رب نے فرمایا روزہ ڈھال ہے میرا بندہ اس کے ذریعہ آگ سے بچاؤ حاصل کرتا ہے۔ (88) امام احمد اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہے۔ (89) ابن ابی شیبہ، نسائی اور ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور بیہقی نے عثمان بن ابی عاصم ثقفی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ روزہ آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے لئے ڈھال ہوتی ہے لڑائی سے (بچاؤ کے لئے) ۔ (90) ابن ابی شیبہ، نسائی، ابن خزیمہ، اور بیہقی نے ابو عبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو نہ پھاڑ دیا جائے۔ (91) امام طبرانی نے الاوسط میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زورہ ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑانہ جائے پوچھا گیا یہ کس طرح پھٹتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جھوٹ اور غیبت سے۔ (92) امام ترمذی اور بیہقی نے بنو سلیم کے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا سبحان اللہ نصف میزان ہے اور الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے اور اللہ اکبر زمین و آسمان کے درمیان کو بھر دیتا ہے اور وضو (بھی) نصف ایمان ہے۔ اور روزہ آدھا صبر ہے۔ (93) ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ آدھا صبر ہے اور ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (94) ابن عدی اور بیہقی نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ روزہ دار کے سامنے کھانا (95) ابن سعد، ابن ابی شیبہ، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے ام عمارہ بنت کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے میں نے آپ کو کھانا پیش کیا آپ نے فرمایا تم بھی کھاؤ میں نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا جب روزہ دار کے پاس کھانا کھایا جاتا ہے تو اس کے لئے ہر فرشتے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہوجاتے ہیں یا کھانا ختم کردیتے ہیں۔ (96) ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ کا کھانا تناول فرما رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بلال کھانے میں حاضر ہوجاؤ انہوں نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں یا رسول اللہ ! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں باقی ہے کیا تم جانتے ہو اے بلال ! بلاشبہ روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں جب تک اس کے پاس کھانا کھایا جائے۔ (97) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ روزہ دار کے پاس جب کھایا جاتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ (98) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ روزہ دار کے پاس جب کھایا جاتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ (99) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ روزہ دار کے پاس جب کھایا جاتا ہے تو اس کے مفاصل تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں۔ (100) ابو یعلی، طبرانی، بیہقی نے امام ابن ابی شیبہ نے یزید بن خلیل (رح) سے اسی طرح روایت ہے سلمہ بن قیصر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے (صرف) ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے اتنی دور کر دے گا جتنی دور تک کو بچپن سے مرنے تک اڑنا شروع کرے۔ یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مرجائے۔ (101) البزار اور بیہقی نے احمد اور بزار نے ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح روایت کیا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین دعائیں قبول ہوتی ہیں روزہ دار کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔ (102) بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ مسجد کی طرف تشریف لائے اور اس میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے فرمایا جس کے پاس طاقت ہو اس کو چاہئے کہ نکاح کرے ورنہ اس پر روزہ لازم ہیں کیونکہ وہ شہوت کو کم کردیتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ (103) ترمذی، ابن ماجہ نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے اس سے روزہ داروں کو بلایا جائے گا۔ جو شخص روزہ داروں میں سے ہوگا اس سے داخل ہوگا اور جو شخص اس (دروازہ) سے داخل ہوگا اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ (104) ابن ماجہ حاکم بیہقی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افطار کے وقت روزہ دا کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (105) البزار نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ داروں کے لئے ایک حوض ہوگا کہ غیر روزہ دار اس پر نہیں آئیں گے۔ (106) ابن ابی الدنیا اور البزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ابو موسیٰ ؓ کو سمندر کی ایک لڑائی میں بھیجا اس درمیان کہ وہ اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے اور اندھیری رات میں (کشتیوں کے) بادبان اٹھا دئیے گئے تھے ان کے اوپر سے غیب سے ایک آواز آئی کہ اے کشتی والوں ٹھہر جاؤ میں تم کو اپنے فیصلہ کی خبر دیتا ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ فیصلہ لازم کر رکھا ہے۔ ابو موسیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اگر تو خبر دینے والا ہے تو ہم کو خبر دے اس نے کہا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر یہ فیصلہ لازم کر رکھا ہے کہ جو گرمی کے دن میں اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے لئے پیاسا رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کو پیاس کے دن (یعنی قیامت کے دن) پلائے گا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو پانچ کلمات کا حکم (107) ابن سعد، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نسائی۔ ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے الدعوات میں الحرث الاشعری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمای اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو پانچ کلمات پہ عمل کرنے کا حکم فرمایا اور نبی اسرائیل کو بھی عمل کرنے کا حکم فرمایا اور ہوسکتا ہے کہ وہ تھوری سی دیر تاخیر کریں عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ کلمات پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اور بنی اسرائیل کو بھی عمل کرنے کا حکم فرمائیں یا تو آپ انہیں ان باتوں کا حکم دیں ورنہ میں ان کو حکم دیتا ہوں یحییٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر آپ ان کلمات کے ساتھ مجھ سے سبقت لے گئے تو مجھے دھنسا دیا جائے یا عذاب دیا جائے (اگر میں نے ان کاموں کا حکم نہ کیا) (پھر) تمام لوگ بیت المقدس میں جمع ہوئے اور وہ ہجوم سے بھر گیا اور آپ ایک اونچی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پانچ کلمات کا حکم فرمایا ہے کہ میں ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم کروں، ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو مثال اس شخص کی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرتا ہے اس آدمی کی مثال ہے جس نے خالص سونے اور چاندی سے ایک غلام خریدا اور اس سے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ مرا کام ہے سو تو کام کر اور اس کا صلہ مجھے پہنچا وہ کام کرتا ہے مگر اس کا صلہ اپنے مالک کے علاوہ دوسرے کو پہنچاتا ہے کون تم میں سے اس بات کو پسند کرتا ہے اس کا غلام اس طرح کا ہو اور اللہ تعالیٰ نے تم کو نماز کا حکم دیا ہے جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بندہ کے سامنے ہوتا ہے جب تک بندہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے تم کو روزہ کا حکم فرمایا اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو جماعت کے ساتھ ہے اور اس کے پاس ایک تھیلی ہو جس میں مشک ہو اور جماعت کا ہر آدمی اس کی خوشبو کو پسند کرتا ہو اور بلاشبہ روزہ دار کی بو اللہ کے نزدیک اس مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو صدقہ کا حکم فرمایا ہے اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کو دشمن قید کرلے اور اس کے ہاتھ کو اس کی گردن کے ساتھ باندھ دئیے ہوں اور وہ سب لوگ اس کی گردن مارنے کے لئے آگے بڑھیں تو وہ کہے کہ میں اپنی جان کا قلیل و کثیر کے ساتھ فدیہ دیتا ہوں۔ تو (اس طرح) اس نے اس کو اپنی جان کا فدیہ دے دیا (اور اپنی جان کو چھڑا لیا) اور اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے کہ اس کا دشمن (اس کو مارنے کے لئے اس کے نشانات قدم پر تیزی سے نکلا یہاں تک کہ ایک مضبوط قلعہ کی طرف آگیا اور اپنی جان کو دشمن سے بچا لیا اسی طرح بندہ اپنی جان کو شیطان سے نہیں بچا سکتا مگر اللہ کے ذکر سے۔ (108) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہاد کرو غنیمت (کا مال) پاؤ گے روزے رکھو صحت مند ہوجاؤ گے۔ اور سفر کرو مالدار ہوجاؤ گے۔ (109) امام احمد، ابن ابی الدنیا نے کتاب الجوع اور حاکم نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن بندہ کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے اس کو کھانے سے اور شہوت کے پورا کرنے سے روکے رکھا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرمائیے قرآن کہے گا گا میں نے اس کو رات کو سونے سے روکے رکھا اس لئے میری سفارش اس کے معتقل فرمائیے پھر فرمایا کہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (110) ابو یعلی اور طبرانی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ایک آدمی کسی دن نفلی روزہ رکھے پھر اس کو زمین بھر سونا دے دیا جائے تو حساب کے دن سے پہلے اس کا ثواب مکمل نہ ہوگا۔ (111) امام طبرانی نے الاوسط میں اور الصغیر میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان (اتنی بڑی) خندق بنا دیں گے جتنا آسمان و زمین کے درمیان (فاصلہ) ہے۔ (113) طبرانی نے عمرو بن عبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے گا جہنم اس سے ایک سو سال کی مسافت تک دور کردی جائے گی۔ (114) ترمذی، نسائی، ماجہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن (کے روزہ) کی وجہ سے اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال دور فرما دیں گے۔ (115) ترمذی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان (اتنی بڑی) خندق بنا دیں گے جتنا زمین و آسمان کے درمیان (فاصلہ) ہے۔ (116) امام احمد، ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی روزہ دار کی یہاں تک کہ وہ افطار کرے، عادل بادشاہ کی، مظلوم کی دعا، اللہ تعالیٰ بادل کو اوپر اٹھا لیتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رب تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میری عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ عرصہ کے بعد ہو۔ (117) ابن ابی الدنیا نے کتاب الجوع میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ داروں کے منہ سے مشک کی خوشبو پھولتی ہوگی اور قیامت کے دن عرش کے نیچے ان کے لئے دستر خوان بچھایا جائے گا وہ اس میں سے کھائیں گے اور لوگ (قیامت کے دن کی) سختی میں ہوں گے۔ (118) الطبرانی نے الاوسط میں انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ایسا دسترخوان لگائیں گے کہ کسی آنکھ نے ایسا نہیں دیکھا، کسی کان نے ایسا نہیں سنا کسی آدمی کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آیا (اور) اس (دسترخوان) پر صرف روزہ دار بیٹھیں گے۔ (119) ابو الشیخ بن حسان نے الثواب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا اور روزہ دار اپنی قبروں سے نکلیں گے اپنے روزے کی خوشبو سے وہ پہچانے جائیں گے ان کے مونہوں سے مشک سے زیادہ خوشبو ہوگی ان کے لئے دسترخوان اور لوٹے رکھے جائیں گے جن پر مشک کی مہر لگی ہوگی ان سے کہا جائے گا کھاؤ تم (دنیا میں) بھوکے رہے اور پیو تم (دنیا میں) پیاسے رہے لوگوں کو چھوڑو اور تم آرام کرلو اس کے لئے کہ تم نے اس وقت تھکاوٹ برداشت کی جب کہ لوگ آرام میں ہوتے تھے اور کھاتے پیتے تھے وہ آرام کریں گے جبکہ لوگ مشقت میں ہوں گے اور پیاسے ہوں گے۔ (120) ابن ابی الدنیا نے کتاب الاھوال میں مغیب بن سمی (رح) سے روایت کیا کہ سورج کے سروں کے اوپر ایک ہاتھ کی بلندی پر ہوگا اور جہنم کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، آگ کی لپیٹ اور گرم لو ان پر چلے گی اور دوزخ کے شعلے ان پر نکل رہے ہوں گے یہاں تک کہ زمین پر لوگوں کے پسینے سے ایسی بدبو اٹھے گی جیسے مردار کی بدبو ہوتی ہے اور روزہ دار اس وقت عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے۔ (121) الاصبہانی نے الترغیب میں، احمد بن ابی الھوری کے طریق سے روایت کیا ہے کہ ابو سلیمان (رح) نے فرمایا کہ میرے پاس ابو علی اصم ایک عمدہ حدیث لے کر تشریف لائے کہ میں نے اس حدیث کو دنیا میں ان سے سنی تھی کہ روزہ داروں کے لئے دسترخوان لگایا جائے گا جس سے وہ کھائیں گے اور لوگ حساب (کی سختی میں) مبتلا ہوں گے عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم تو حساب دے رہے ہیں اور یہ لوگ کھانا کھا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے انہوں نے برابر روزے رکھے اور تم نے نہیں رکھے اور یہ راتوں کو قیام میں ہوتے تھے۔ اور تم سوئے ہوئے ہوتے تھے۔ جنت کا اعلی مقام (122) امام بیہقی نے شعب الایمان میں ابو مالک اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک ایسا کمرہ ہے کہ اس کا باہر اس کے اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اس کا اندر اس کے باہر سے دکھائی دیتا ہے۔ یہ اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ نے تیار فرما رکھا ہے جو نرم بات بات والا (بھوکوں کو) کھانا کھلاتا ہے، لگا تار وزے رکھتا ہے اور رات کو نماز پڑھتا ہے جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ (123) بیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرفمایا کرتے تھے کہ ہر مومن کی دعا افطار کے وقت ہوتی ہے یا تو دنیا میں اس کو جلدی دے دیا جاتا ہے یا اس کی دعا آخرت میں ذخیرہ کرلی جاتی ہے ابن عمر ؓ افطار کے وقت فرمایا کرتے تھے لفظ آیت ” واسع المغفرۃ اغفرلی “ (اے وسیع رحمت والے مجھ کو بخش دیجئے) ۔ (124) احمد نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا (آج) تم میں سے کون جنازہ میں حاضر ہوا ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” میں “ پھر پوچھا آج کس نے مریض کی عیادت کی ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے۔ پھر پوچھا (آج) کس نے صدقہ کیا ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے۔ پھر پوچھا آج کس نے روزہ رکھا حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (جنت) واجب ہوگئی، واجب ہوگئی۔ (125) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن ریاح (رح) سے روایت کیا ہم معاویہ ؓ کی طرف نکلے تو ایک راہب کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا (قیامت کے دن) دسترخوان لگائے جائیں گے تو سب سے پہلے اس میں سے روزہ دار کھائیں گے۔ (126) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، دار قطنی، بیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کا ایک روزہ بغیر رخصت اور بغیر فرض کے چھوڑ دیا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کی قضا نہ کریں گے اگرچہ وہ روزے رکھ بھی لے۔ (127) دار قطنی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بغیر عذر کے رمضان کے ایک دن کا روزہ نہ رکھے تو (بطور قضا کے) اس پر ایک ماہ کے روزے ہیں۔ (128) دار قطنی نے رجاء بن جمیل (رح) سے روایت کیا کہ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن (رح) فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص رمضان کے ایک دن کا روزہ نہ رکھے تو وہ پھر (بطور قضا کے) بارہ دن کے روزے رکھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بارہ مہینوں میں سء ایک مہینہ پر راضی ہو۔ (129) ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے رمضان کے روزے کا ایک دن کا روزہ بھی نہیں رکھا آپ ﷺ نے فرمایا تو صدقہ کر اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور روزہ کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھ۔ (130) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے جان بوجھ کو بغیر سفر اور مرض کے رمضان کا روزہ رکھا تو کبھی اس کی ادائیگی نہ ہوگی۔ اگرچہ ساری عمر کے روزے رکھے۔ (131) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص جان بوجھ کر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے وہ ساری عمر ان کو پورا کرسکے گا۔
Top