Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ
خلاصہ تفسیر
حکم سوم صوم
اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ (کیونکہ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی سو) تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو (ان تھوڑے دنوں سے مراد رمضان ہے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے) پھر (اس میں بھی اتنی آسانی ہے کہ) جو شخص تم میں (ایسا) بیمار ہو (جس کو روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور بجائے رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں (اور پھر روزہ رکھنے کو دل نہ چاہے تو) ان کے ذمہ (صرف روزے کا) فدیہ (یعنی بدلہ) ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلا دینا یا دیدینا) ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دیدے) تو یہ اس شخص کے لئے اور بہت رہے اور (گو ہم نے آسانی کے لئے ان حالتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن) تمہارا روزہ رکھنا (اس حالت میں بھی) زیادہ بہتر ہے اگر تم (کچھ روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو،

معارف و مسائل
صوم کے لفظی معنی امساک یعنی رکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے اور باز رہنے کا نام صوم ہے بشرطیہ وہ طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مسلسل رکا رہے اور نیت روزہ کی بھی ہو اس لئے اگر غروب آفتاب سے ایک منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ہوا اسی طرح اگر ان تمام چیزوں سے پرہیز تو پورے دن پوری احتیاط سے کیا مگر نیت روزہ کی نہیں کی تو بھی روزہ نہیں ہوا،
صوم یعنی روزہ ان عبادات میں سے ہے جن کو اسلام کے عمود اور شعائر قرار دیا گیا ہے اس کے فضائل بیشمار ہیں جن کے تفصیلی بیان کا یہ موقع نہیں۔
پچھلی امتوں میں روزہ کا حکم
روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے حکم کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی اور مسلمانوں کی دلجوئی کا بھی انتظام کیا گیا کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی سب لوگ اٹھاتے آئے ہیں طبعی بات ہے کہ مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے (روح المعانی)
قرآن کریم کے الفاظ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ عام ہیں حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی تمام شریعتوں اور امتوں کو شامل ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی شریعت اور کوئی امت خالی نہیں رہی اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے،
جن حضرات نے فرمایا ہے کہ مِنْ قَبْلِكُمْ سے اس جگہ نصاریٰ مراد ہیں وہ بطور ایک مثال کے ہے اس سے دوسری امتوں کی نفی نہیں ہوتی (روح)
آیت میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ روزے جس طرح مسلمانوں پر فرض کئے گئے پچھلی امتوں میں بھی فرض کئے گئے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پچھلی امتوں کے روزے تمام حالات وصفات میں مسلمانوں ہی کے روزوں کے برابر ہوں مثلاً روزوں کی تعداد، روزوں کے اوقات کی تحدید اور یہ کہ کن ایام میں رکھے جائیں ان امور میں اختلاف ہوسکتا ہے چناچہ واقعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہی اور روزے کے ایام اور اوقات میں فرق ہوتا رہا ہے (ورح)
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تقویٰ کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے وہی تقوے کی بنیاد ہے،
Top