Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
روزے کی فرضیت ارشاد باری ہے ( یایھا الذین امنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون، اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ہم پر روزے فرض کردیے اس لیے کہ قول باری ( کتب علیکم کے معنی فرض علیکم کے ہیں۔ یعنی تم پر فرض کر دئیے گئے۔ مثلاً قول باری ہے ( کتب علیکم القتال وھوا کرہ لکم ، تم پر قتال فرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے) اسی طرح ارشاد باری ہے ( ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا، نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو مقرر وقت کے ساتھ الہ ایمان پر لازم ہے) یعنی ایسا فرض جس میں پابندی وقت کا اہتمام کیا جائے۔ لغت میں سیام ک معنی امساک یعنی رک جانے کے ہیں۔ ارشاد باری ہے ( انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا ، میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے پج میں کسی نے بولوں گی) حضرت مریم کے اس قول کا مطلب ہے کہ میں نے بات نہ کرنے کا تہیا کیا ہے۔ بولنے سے رُک جانے کو صوم کہا گیا ہے اور کہا جاتا ہے۔ خیل صیام اور گھوڑے رک جانے والے چارہ کھانے ، اور محاورہ ہے ۔ صامت الشمس نصف النھار ، سورج دوپہر کے وقت کھڑا ہوگیا، یہ اس بنا پر ہے کہ اس وقت سورج حرکت کرنے سے رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور صیام کے یہ لغوی معنی ہیں۔ اور وہ شریعت میں کھانے پینے سے رک جانے کا نام ہے۔ شریعت میں اسی مفہوم کے ساتھ دن کے روزے میں جماع سے باز رہنے کا حکم ہے اور وہ مجمل لفظ محتاج بیان ہے اپنے ورود کے لحاظ سے، کیونکہ ایسا شرعی نام وضع کیا گیا ہے مختلف معانی کے لیے جو لغت میں تفصیلی معنی کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ آیت کے لیے اس کی توضیح و تشریح کردینے ک بعد جب شریعت میں روزے کی عملی شکل متعین ہوگئی تو اس لفظ کے وہ معنی سمجھ میں آگئے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ( کما کتب علی الذین من قبلکم کے تین معانی ہیں جو سب ک سب سلف سے مروی ہیں۔ حسن، شعبی اور قتادہ سے منقول ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں یعنی نصاریٰ پر بھی رمضان کے مہینے یا اس کے مساوی دوسرے دنوں کے روزے فرض کئے گئے تھے۔ پھر انہوں نے یہ دن بدل ڈالے اور انذ کی تعداد میں اپنی طرف سے اضافہ کردیا۔ ابن عباس، ربیع بن انس اور سدی سے منقول ہے کہ روزہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے لے کر اگلی نماز عشاء تک کا ہوتا تھا اور سوجانے کے بعد دوبارہ اٹھ کر کھانا پینا اور ہمبستری کرنا حلال نہ ہوتا، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ہم مسلمانوں پر اسی طرح چند دنوں کے روزے فرض کیے گئے تھے جس طرح ہم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس صورت میں روزوں کی مقدار میں یکسانیت پر آیت کے الفاظ دلالت نہیں کرتے بلکہ اس میں مقدار کی کمی بیشی جائز ہے۔ مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ الذین من قبلکم سے مراد اہل کتاب ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے واسطے سے حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ ” روزے کی فرضیت تین مرحلوں سے گزری ، حضور ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے ہر ماہ تین دنوں کے روزے اور یوم عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ( کتب علیکم الصیام) کے حکم کے ذریعے رمضان کے روزے فرض کر دئیے “۔ آگے حضرت معاز بن جبل نے جو کچھ فرمایا وہ حضرت ابن عباس کے درج بالا قول سے ملتا جلتا ہے۔ مصنف کتاب ابوبکر جصاص فرماتے ہیں :” چونکہ ( کما کتب علی الذین من قبلکم) کے الفاظ اس پر دلالت نہیں کرتے کہ اس سے کتنی تعداد مراد ہے یا روزے کی کیفیت کیا ہے یا اس کا وقت کونسا ہے، اس لیے لفظ صیام اپنے مدلول کے لحاظ سے مجمل تھا۔ اور اگر ہمیں گزشتہ لوگوں کے روزوں کا وقت اور ان کی تعداد معلوم ہوجاتی تو اس صورت میں درج بالا قرآنی الفاظ سے روزے کی کیفیت اور سو کر اٹھنے کے بعد روزہ دار پر عائد ہوجانے والے محطورات یعنی پابندیاں مراد لینا جائز ہوتا۔ پھر ہمارے لیے ان لوگوں کے روزوں کی پیروی کرنے کے سلسلے میں ظاہر لفظ کے استعمال کی گنجائش باقی نہ رہتی، جب ک اس کے فوراً بعد یہ ارشاد باری موجود ہے ( ایاما معدودات گنتی کے چند دن) اس کا اطلاق تھوڑے دنوں پر بھی جائز ہے اور زیادہ دنوں پر بھی ۔ لیکن جب سلسلہ آیات میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد آگیا ہے کہ ( شھر رمضان الدین انزل فیہ القران ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان، فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے) تو اس سے ایام معدودات ، کی تعداد، ان کا وقت اور ان میں روزہ رکھنے کا حکم بیان ہوگیا، ابن ابی لیلیٰ سے بھی یہی معنی مروی ہیں۔ ابن عباس اور عطاء سے مروی ہے کہ ( ایاماً معدودات) سے مراد ہر ماہ کے تین روزے ہے جب تک رمضان کا حکم نازل نہیں ہوا، پھر نزول رمضان کے ساتھ ہی یہ منسوخ ہوگئے ( فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر، پس جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔
Top