Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الصِّيَامُ
: روزے
كَمَا
: جیسے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
مِنْ قَبْلِكُمْ
: تم سے پہلے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار بن جاؤ
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح فرض کیا گیا تھا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط (اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح فرض کیا گیا تھا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔ گنتی کے چند دن) (البقرۃ : 183 تا 184) اس آیت کریمہ میں غور کیجیے ! تو مختلف حقائق آپ کو اپنی طرف متوجہ کریں گے سب سے پہلی بات یہ کہ احکام کا تعلق چونکہ صاحب ایمان لوگوں سے ہے کیونکہ جب تک کوئی آدمی ایمان نہیں لاتا وہ کسی حکم کا مکلف نہیں ہوتا۔ اس سے اللہ کے یہاں احکام کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم ایمان لانے میں کوتاہی کیوں کی ؟ روزہ چونکہ عبادت سے متعلق ایک حکم ہے اس لیے صاحب ایمان لوگوں سے خطاب فرماکر اس کا حکم دیا گیا اور حکم کے لیے کُتِبَ عَلَیْکُمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُم کا معنی ہوتا ہے ” تم پر فرض کردیا گیا ہے “۔ اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ ہوگا ” اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں “ یعنی یہ محض صحت کی درستی یا عادتوں کی اصلاح کے لیے کوئی نسخہ تجویز نہیں کیا گیا کہ جس کا جی چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جس کا جی چاہے نہ اٹھائے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک حکم ہے جس کی حیثیت فرض کی ہے۔ البتہ ! جس حاکم حقیقی نے اسے فرض ٹھہرایا ہے وہی بجا طور پر اس کا حق رکھتا ہے کہ جب چاہے اور جن لوگوں کے لیے چاہے اس کی فرضیت میں نرمی کردے۔ البتہ ! کوئی شخص اپنی مرضی سے اپنے طور پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فرائض میں سے یہ فرض ایک مشکل فرض ہے۔ سخت موسم میں اپنی ضروریات سے رک جانا اور جوانی میں خواہشات نفس پر پہرہ بٹھادینا، یقینا ایک مشکل کام ہے۔ اس لیے پروردگار نے رحمت کا اظہار فرماتے ہوئے اور مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : یہ روزے سب سے پہلے تمہیں پر فرض نہیں کیے گئے بلکہ تم سے پہلے جتنے لوگ بھی گزرے ہیں اور جتنی امتیں تاریخ میں گزرچکی ہیں ان میں سے ہر امت پر نماز کی طرح روزے بھی فرض کیے گئے ہیں اور وہ یقینا وہ اس سے عہدہ برأبھی ہوئے۔ مزید یہ بات کہ ان کی تعداد بھی کوئی غیر معمولی نہیں گنتی کے چند دن ہیں۔ روزے کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہوئے ان کی گنتی اور بھی کم معلوم ہوتی ہے اس لحاظ سے تمہیں نہایت شوق سے روزہ رکھنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنی چاہیے۔ روزہ ہر امت پر فرض کیا گیا ہے قرآن کریم کے اس ارشاد ( روزے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے) کے حوالے سے جب ہم مذاہب کی تاریخ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جس میں روزے فرض نہ کیے گئے ہوں۔ ہندوئوں کو بہت قدامت کا دعویٰ ہے۔ ان میں بھی ہر ہندی مہینے کی گیارہ بارہ تاریخ کو برہمن اکاوشی کا روزہ رکھتے تھے۔ اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے۔ بعض برہمن کا تک کے مہینے میں ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے تھے۔ جینی دھرم میں تو بڑی کڑی شرائط کے ساتھ روزہ موجود ہے۔ قدیم مصریوں میں بھی روزہ موجودرہا ہے، جس کا شمار تہواروں میں ہوتا تھا۔ یونان میں صرف عورتیں تھسوفریا کی تیسری تاریخ کو روزہ رکھتی تھیں۔ پارسی مذہب میں گوعام پیروئوں پر فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجو دتھا۔ خصوصاً مذہبی پیشوائوں کے لیے توپنجسالہ روزہ ضروری تھا۔ یہودیوں میں بھی روزہ ایک فریضہ الٰہی کے طور پر موجود رہا ہے۔ اگرچہ اس میں بہت کچھ ترمیم و تحریف کر ڈالی گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر چالیس دن روزہ رکھا۔ چناچہ یہود عام طور پر حضرت موسیٰ کی پیروی میں چالیس دن روزہ رکھنا بہتر سمجھتے تھے، لیکن چالیسیوں دن کے روزے کو فرض سمجھتے تھے جو ان کے ساتویں مہینے (قشریں) کی دسویں تاریخ کو پڑتا ہے اور اسی لیے اس کو عاشورہ کہا جاتا ہے۔ اسی دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات کے دس احکام ملے تھے۔ اس لیے تورات میں اس دن کے روزہ کی نہایت تاکید آئی ہے۔ اس کے علاوہ یہودی صحیفوں میں اور روزوں کی بھی تصریح آئی ہے، جن میں سے کچھ علاقائی اور مقامی کہے جاسکتے ہیں، کچھ انفرادی روزے بھی ہیں۔ جنھیں ہر شخص اپنے حالات کے مطابق رکھ سکتا ہے کچھ گناہوں کے کفارہ کے لیے کچھ کسی مصیبت اور افتاد کے وقت رحمت خداوندی کے حصول کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ عیسائی مذہب میں اگرچہ شرعی احکام ترتیب وتدوین کے مختلف ادوار سے گزرے ہیں اور شریعت کے بارہ ان کا تصور بھی بہت مختلف ہے۔ تاہم اتنی بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن تک جنگل میں روزہ رکھا۔ حضرت یحییٰ جو حضرت حضرت عیسیٰ کے گویا پیشرو تھے وہ بھی روزہ رکھتے تھے اور ان کی امت بھی روزہ دار تھی۔ مکہ کے قریش جاہلیت کے دنوں میں عاشورہ یعنی دسویں محرم کو روزہ رکھتے تھے کیونکہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔ حاصل کلام یہ کہ کوئی مذہب بھی روزہ کے تصور سے خالی نہیں رہا۔ اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی اصلاح اور تعمیرِ سیرت و کردار میں روزہ اتنا موثر اور اللہ کے قرب کے حصول کے لیے اس قدر لازمی ہے کہ اللہ نے ہر امت پر اسے لازم ٹھہرایا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر امت کو روزے کی صورت میں نوازا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ روزہ کے تین مقاصد پیشِ نظر آیت کریمہ میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کہہ کر اور آئندہ آیات میں وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ سے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی فرضیت کے تین مقاصد ہیں : 1: تقویٰ 2: اللہ کی کبریائی کا یقین 3: اللہ کا شکر اب ہم اسی ترتیب سے نہایت اختصار کے ساتھ انھیں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1 تقویٰ تقویٰ اصل میں وقویٰ ہے عربی زبان میں اس کے لغوی معنی بچنے، پرہیز کرنے اور لحاظ کرنے کے ہیں۔ لیکن اصطلاح شریعت میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاضر وناظر ہونے کا یقین پیدا کرکے دل میں خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کردیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بناء پر ہر کام میں اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بات کہ تقویٰ اصل میں دل کی اس کیفیت کا نام ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت سے ظاہر ہے۔ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرِاللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوب ” اور جو شعائرالٰہی کی تعظیم کرتا ہے تو وہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا اصل تعلق دل سے ہے یعنی یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو دلوں میں امور خیر کی تحریک پیدا کرتی اور شعائرِالٰہی کی تعظیم سے ان کو معمور کرتی ہے۔ تقویٰ کی یہ حقیقت کہ وہ دل کی خاص کیفیت کا نام ہے ایک صحیح حدیث سے تصریحاً ثابت ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا اور یہ کہہ کر دل کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے یقینا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دل کی پاکیزہ ترین اور اعلیٰ ترین کیفیت کا نام ہے جو تمام نیکیوں کی محرک ہے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعب ( رض) سے منقول ہے۔ حضرت عمر ( رض) نے ان سے پوچھاتقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ انھوں نے عرض کیا : امیرالمومنین ! آپ کو کبھی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو ؟ حضرت عمر ( رض) نے فرمایا : بارہا۔ انھوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں ؟ حضرت عمر نے جواب دیا۔ میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ کانٹے دامن میں الجھ کر اسے تارتار نہ کردیں۔ حضرت ابی نے کہا ” بس اسی کا نام تقویٰ ہے “۔ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کررہا ہے دونوں طرف افراط وتفریط خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستہ پر کانٹوں سے دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی وبدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا۔ یہی تقویٰ ہے اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے روزہ فرض کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی عبادات بھی تو قرآن کریم کی تصریح کے مطابق تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہی فرض کی گئی ہیں پھر روزہ کی اس حوالے سے کیا خصوصیت ہے ؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہیں۔ پہلی یہ کہ ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ انسان زندگی کی جس شاہراہ پر سفر کررہا ہے وہ قدم قدم پر خواہشات وترغیبات اور افراط وتفریط کے وساوس کے کانٹوں سے اٹاپڑا ہے۔ اپنے دل و دماغ اور دامن اطاعت کو ان کانٹوں سے بچا کر نکلنا کس قدر مشکل کام ہے اس لیے ضروری ہے کہ دل یعنی ضمیر کی بیداری کے لیے تمام ممکن عوامل سے کام لیاجائے اس لیے تمام عبادات سمیت روزے کو بھی اسی قلبی بیداری یعنی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے لگا دیا ہے۔ دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ اگرچہ دوسری عبادات کا منتہائے مقصود بھی یہی تقویٰ ہے بلکہ پورے دین و شریعت کی روح بھی یہی ہے مگر روزہ اپنی اثر اندازی اور نتیجہ خیزی میں ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسی لیے شائد پروردگار نے روزہ کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ فرمایا : اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ ” اور روزہ خاص میرے لیے ہے “ حالانکہ نماز زکوٰۃ حج قربانی بلکہ ہر نیکی جس کا پروردگار نے حکم دیا ہے سب اسی کے لیے ہے۔ اسی کی اطاعت میں اور اسی کی رضا و خوشنودی کے لیے اسے روبعمل لایا جاتا ہے۔ لیکن کسی نیکی کی نسبت پروردگار نے اس طرح اپنی طرف نہیں فرمائی۔ وجہ ظاہر ہے کہ باقی تمام عبادات اور تمام نیک اعمال یقینا تقویٰ ہی پیدا کرتے ہیں مگر روزہ اس معاملے میں ان سے بدرجہا فائق ہے کیونکہ تمام عبادات اپنے اندر ایک اجتماعی صورت رکھتی ہیں۔ نماز جماعت کی پابندی کا تقاضا کرتی ہے اموالِ ظاہرہ میں زکوٰۃ کی مسنون صورت بیت المال کی پابندی کے ساتھ اجتماعی ہے اور اموال باطنہ میں بھی زکوٰۃ وصول کرنے والا تو بہر حال جانتا ہے حج تو ایک شہرت عام اور ابتلائے عام والی عبادت ہے اس لیے ان تمام عبادات میں بندے کی اپنے رب سے خصوصی تعلق کی حالت میں شکست وریخت کے پیدا ہوجانے کا ہر وقت اندیشہ ہے اور اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ دکھاوے اور ریاکاری کے چھینٹے صفائے قلب کو گدلا کردیں۔ ایک عابد وزاہد اپنی قلبی حالت پر مطمئن ہوتا ہے مگر اچانک خبر ہوتی ہے کہ اندرہی اندر نیکی کی شہرت کی حرص اور حصول منفعت کی ہوس اپنا کام دکھاچ کی ہے۔ کیونکہ ؎ براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے ہوس سینے میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں مگر روزہ اس لحاظ سے ایک منفرد عبادت ہے اس میں دکھاوے ریاکاری اور ظاہرداری کا امکان بہت کم ہے۔ ایک آدمی کے روزے دار ہونے یا نہ ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی اس کے ایسے کوئی ظاہری اعمال نہیں جس سے دیکھنے والے کو ایک روزے دار کے روزے کا احساس ہو یہ خالصۃً بندے اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ روزہ دار اپنے مالک کی رضا کے لیے بھوکا پیاسا رہتا ہے اور دل ہی دل میں اس سے لولگائے کاروبارِ زندگی میں مصرورف رہتا ہے اور صرف اس کا مالک اس کے دل کی کیفیت سے واقف اور اس کے روزے سے آگاہ ہے۔ اس لیے جس قدر صفائے دل، بیداریِ قلب اور تعلق باللہ کے امکانات یہاں ہیں وہ دوسری عبادات میں نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے روزے کی نسبت پروردگار نے بطور خاص اپنی طرف فرمائی اور خصوصی اجر وثواب کی امید بھی دلائی۔ فرمایا : اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ ” روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا “ حالانکہ ہر نیکی کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود ہی دیتے ہیں لیکن یہاں بطور خاص اپنی طرف نسبت فرماکر اجروثواب میں افزونی اور اظہارِخوشنودی کا سامان بھی کردیا۔ اس حدیث کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو روزے کی اہمیت اور عظمت اور اس کی صفت تقویٰ میں ہزار درہزارچند اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ متذکرہ حدیث کو اس طرح پڑھا جائے (اور الفاظ میں اس کی گنجائش بھی ہے) اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزیٰ بِہٖ ” روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزاہوں “ یعنی ایک روزہ دار روزہ اجروثواب کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے رکھتا ہے یعنی اس کا مطلوب و مقصود اس کا رب ہے جب کہ باقی تمام اعمال اجروثواب کی امید میں کیے جاتے ہیں اور حصول جنت کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہے۔ اور وہ صحیح بھی ہے کیونکہ خود پروردگار کا ارشاد ہے : وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَاالسَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ” اور تیزی سے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں “ اور یہ بھی صحیح ہے کہ جنت اسی کو ملے گی جس سے اللہ راضی ہوگا۔ لیکن یہاں سوال ہدف کی بلندی اور منتہائے مقصود کے ارفع واعلیٰ ہونے کا ہے۔ روزہ اپنے رکھنے والے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہارا دل اپنے آقا ومالک کی محبت سے اس طرح لبریز ہوجانا چاہیے کہ کسی اور کے لیے اس میں گنجائش نہ رہے۔ حتی کہ جنت کے لیے بھی نہیں۔ یا یہ کہ تمھارادل اپنے رب کے لیے ہر چیز بلکہ ہر تمنا سے بھی خالی ہوجائے اور اس کا دروازہ ہر خواہش کے لیے بند ہوجائے اور پھر تم کہہ سکو ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایسی صورت میں خود میں اس کی جزا ہوں یعنی جو میری طلب میں دوعالم سے بےگانہ ہو کر میرے آستانے پر آپڑا ہے میں اسے اپنا لیتا ہوں اور اسے اس حد تک نوازتا ہوں کہ اس کی محبت کا صلہ محبت سے دیتا ہوں : َاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ’ ’ جو صرف مجھ ہی سے محبت کرتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ “ اس کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے جس کی ایک آدمی تمنا کرے ؟ ؎ سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد روزے کا ایک اور پہلو بھی نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ کہ روزے سے اگرچہ مقصود جیسا کہ عرض کیا گیا قلب اور ضمیر کے احساسات کو ایسی زندگی دینا ہے جس سے نہ صرف وہ خیر وشر میں تمیز کرنے کے قابل ہوجائے بلکہ خیر اس کی چاہت بن جائے اور شر سے اسے شدید نفرت پیدا ہوجائے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پروردگارِ عالم نے روزے کے جو اعمال مخصوص فرمائے ہیں اور جو اس کو ہیئت عطا کی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آدمی روزے کے لیے تمام اعمال احساسِ ذمہ داری اور کامل شعور کے ساتھ ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ روزہ حقیقی تبدیلی کا ضامن نہ بنے۔ غور کیجیے ! اللہ تعالیٰ نے چند دنوں کے نہیں بلکہ پورے ایک مہینے کے روزے فرض فرمائے اور ان روزوں کے ذریعے اپنے بندے سے مسلسل 720 گھنٹے تک ایک ایکسرسائز اور قوائد کرائی تاکہ اس طریقے سے اللہ کی بندگی کا اور اس کی اطاعت کا تصور پوری طرح اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوجائے۔ اندازہ فرمائیے ! وہ اشیائے خوردونوش اور میاں بیوی کا جائز تعلق جو سال کے گیارہ مہینوں میں ہر طرح اس کے حلال اور مباح ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں آکر اس کے لیے حرام ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی فجر طلوع ہوتی ہے اس وقت سے لے کرغروبِ آفتاب تک اس کے سامنے نعمتوں کے ڈھیر لگے رہتے ہیں، مگر کبھی اس کا ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتا، پیاس سے حلق میں کانٹے پڑجاتے ہیں مگر وہ پانی کا ایک گھونٹ گلے سے نیچے نہیں اتارتا اور پھر کوئی اسے دیکھنے والا نہیں ہوتا وہ تنہائی میں ممنوعہ چیزوں میں سے جس چیز سے چاہے تمتع کرسکتا ہے۔ کوئی نگاہ اسے دیکھنے والی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایسا کام کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا جس سے اس کا روزہ ٹوٹ سکتا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ اگر ایک آدمی نے محض عادت کے تحت بلاسوچے سمجھے روزہ نہیں رکھا ہے اور وہ اس طرح پورا ایک مہینہ اس اطاعت کی مشق جاری رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے دل و دماغ بلکہ اس کے ہر رگ وریشہ میں اللہ کی اطاعت سما نہ جائے۔ وہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی جب کسی غلط کام کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا قدم اٹھائے گا یا دل میں خیال بھی لائے گا تو اللہ کی اطاعت کا یہ تصور اور خدا کی برتری اور کبریائی کا یہ عقیدہ اسے باربار روکے گا کہ دیکھو تم غلط کام کررہے ہو اور پھر صرف یہی نہیں کہ ایک روزہ دار کو کھانے پینے اور مباشرت سے روکا گیا ہے اورا سی کی پورا مہینہ مشق کرائی ہے بلکہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے بھی واضح طور پر پوری زندگی کو اللہ کی معصیت سے پاک کردینا روزے کا مقصد ٹھہرایا ہے اور جو آدمی صرف کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرتا ہے لیکن باقی زندگی کے معاملات میں خلاف شریعت امور سے اجتناب نہیں کرتا تو حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اس نے ناحق بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کی اللہ کو ایسے روزے دار کے روزے کی ضرورت نہیں۔ فرمایا : مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ (جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے) یہاں جھوٹ پر عمل کرنا قابل توجہ ہے۔ اس سے مراد زندگی کے کسی مرحلے میں بھی خلاف شریعت امور پر عمل کرنا ہے۔ چاہے وہ مرحلہ ملازمت سے تعلق رکھتاہو یا تجارت سے، وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کا تعلق سیاست سے ہو یا عدالت سے، محکومیت سے ہو یا حاکمیت سے، جہاں بھی وہ خلاف شریعت امور کو اختیار کرے گا، اس نے گویا جھوٹی زندگی کو اختیار کرلیا، اس سے اجتناب کرنا روزے کا اصل مقصد ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مزید فرمایا : کَمْ مِنْ صَائِمٍ فَلَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّاالظَّمَأمُ وَکَمْ مِنْ قَائِمِ فَلَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلاَّالسِّھْرُ (کتنے ایسے روزے دار ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے اور کچھ نہیں ملتا اور کتنے ایسے شب زندہ دار ہیں جن کو رتجگے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا) 2 اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا یقین اس طرح ایک روزہ دار جب اپنی پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت وحاکمیت میں دے دیتا ہے کہ طلوع سحر سے غروب آفتاب تک باوجود یکہ اس کے سامنے متنوع اور مرغن نعمتیں موجود ہیں لیکن صرف اس لیے اس کا ہاتھ ان کی طرف نہیں بڑھتا کہ اس کے مالک نے اسے ان نعمتوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روک دیا ہے۔ اس کی نوجوان اور خوبصورت بیوی اس کے پاس موجود ہے لیکن وہ اسے چھونا تو درکنار اپنے دل و دماغ کو بھی جنسی جذبات سے صرف اس لیے محفوظ رکھتا ہے کہ اس کا آقا اس کے سینے کے جذبات سے واقف ہے اور آج اس نے ان جائز جذبات پر بھی قدغن عائد کردی ہے۔ اس کی زبان ہر قسم کی بدگوئی دل آزاری اور غیبت سے مجتنب ہے کیونکہ روزے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر جیسے ہی غروب آفتاب کا اعلان ہوتا ہے تو یہ بند قفل کھل جاتا ہے اب یہ روزہ دارنی کی کے جذبے سے بھی اگر چاہے تو کھانے پینے سے نہیں رکتا کیونکہ اب اس کے مالک نے افطار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ گویا یہ ایک کٹ پتلی یا مشین ہے جسے حرکت دینے والی تار اس کے اللہ کے ہاتھ میں ہے یہ اس کے ہلانے سے حرکت میں آتا ہے اور روکنے سے رک جاتا ہے۔ اس طرح مسلسل 720 گھنٹے ایک روزہ دار اپنی عبدیت و عبادت اور اللہ کی حاکمیت و اطاعت کی مشق کرتا ہے تاکہ وہ اس احساسِ بندگی سے سرشار ہو کر اپنے ارادہ واختیارکولگام دینے اور زندگی کے ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کرنے اور اسی کی اطاعت میں بسر کرنے کے قابل ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادت و اطاعت کی اس مشق کے بعد (جو مکمل ایک ماہ جاری رہتی ہے) جب وہ چاند دیکھتا ہے تو بےساختہ اس کی زبان پر ایک ترانہ جاری ہوجاتا ہے اور جب صبح کو وہ نماز عید کے لیے عید گاہ کی طرف بڑھتا ہے تب بھی یہی ترانہ اس کے لبوں پر ہوتا ہے پھر جب اپنے گھر کو لوٹتا ہے تو راستہ بدل کر یہی نغمہ الاپتا ہوا جاتا ہے، گلی کو چے اس نغمے سے گونج اٹھتے ہیں اور سینے حوصلوں اور ولولوں سے معمور ہوجاتے ہیں۔ وہ نغمہ اور ترانہ کیا ہے ؟ وہ ہے : اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآاِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْد اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق اور حاکم حقیقی نہیں اللہ سب سے بڑا ہے اور ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو زیب دیتی ہے ) یہ ہے مفہوم وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ کا یعنی ہم نے روزہ اس لیے فرض کیا تاکہ تم اللہ کو ہی بڑا سمجھو اور اسی کی بڑائی کروجس طرح اس نے ( اپنی کتاب کے ذریعہ) تمہیں رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، بندگی، عظمت اور کبریائی کے استحضار سے ایک روزہ دار کے اندر بالآخر ایک صلاحیت پیدا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے جس کے بارے میں یہاں ارشاد فرمایا گیا ہے : لَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُُوْنَ ” شاید تم شکر گزار بن جاؤ “ یعنی امید کی جاسکتی ہے کہ اس مسلسل محنت اور مداومت سے تمہارے اندر شکر کی صفت پیدا ہوجائے۔ 3 شکر شُکر وہ بلند ترین صفت ہے، جس کا پیدا کیا جانا اسلامی عبادات کے مقاصد میں ایک بلند تر مقصد ہے۔ اسی کی ضد کفر ہے جو ایک انسان کے لیے قبیح ترین اور عنداللہ مبغوض و مردود صفت ہے۔ یہ دونوں صفات دراصل انسان کے دو بنیادی رویے ہیں۔ جو اس کی فطرت کا تقاضہ بھی ہیں اور اس کی طبیعت کا خاصّہ بھی۔ اسی لیے ارشاد فرمایا گیا : اِنَّاھَدَیْنَاہُ السَّبِیْلُ اِمَّاشَاکِرًاوَاِمَّاکَفُوْرَا ” ہم نے انسان کو راستہ بتادیا (اب وہ) شکرگزار ہے یا ناشکر گزار (کافر) شکرگزاری کارویہ ایک مومن کی حقیقی منزل ہے “۔ شُکر کا معنی لغت میں یہ ہے کہ ” جانور میں تھوڑا ساچارہ ملنے پر تروتازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے “۔ اس سے انسانوں کے محاورہ میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ ” کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کردے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے “۔ اس مفہوم پر غور کرنے سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ 1 شکر ایک ایسا رویہ ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی تقلیل اور مقاصد کی تکمیل پیش نظر ہوتی ہے امیدیں قلیل ہوتی ہیں اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں۔ آدمی خواہشات کا پتلا نہیں بلکہ اولوالعزمیوں کا پیکر ہوتا ہے۔ صحابہ کرام جس کی عملی تصویر تھے۔ بقول اقبال ؎ ان کی امیدیں قلیل ان کے مقاصد جلیل ان کی ادا دلفریب ان کی نگہ دلنواز اسے ناآسودہ آرزوئیں پریشان نہیں کرتیں بلکہ حرص وطمع سے دور وہ ایک سمٹ کر رہنے والاانسان ہوتا ہے۔ اسے اپنے دل کی خواہشات اور اپنے دماغ کی اڑان گھاٹیوں پر اس طرح قابو ہوتا ہے کہ یہ عوامل اس سے غلط کام کروانے پر قادر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے نفسانی تقاضوں اور جسمانی قوتوں پر اس طرح حاوی ہوتا ہے کہ ان سے اپنے مطلوبہ مقاصد میں حسب ارادہ کام لینے کی قدرت رکھتا ہے، جسم اس سے اپنی ضروریات کے لیے درخواست کرتا ہے، حکم نہیں دے سکتا۔ یہ شخص اپنی مرضی سے جس درخواست کو چاہتا ہے قبول کرلیتا ہے جسے چاہتا ہے رد کردیتا ہے۔ عام مروج اسلوب میں کہہ لیجیے کہ اسے ضبط نفس حاصل ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضبط نفس ایسا نہیں جو اسے فرعون یا ہٹلر بنادے کیونکہ شکر کے تصور میں ایک دوسری حقیقت بھی شامل ہے وہ یہ ہے کہ ایسا شخص اپنے منعم حقیقی اور اپنے محسن اصلی کو پہچانتا ہے۔ وہ اس کے احسانات کی قدروقیمت سے بھی آگاہ ہے، وہ اپنی جان لڑاکر اور اپنی توانائیاں کھپا کر ان احسانات و انعامات کا حق ادا کرنا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا انعام و احسان بھی اپنی قدرومنزلت میں بےمثال و بےپناہ ہے اور وہ خود اپنی ساری توانائیوں اور وجاہتوں سمیت ایک ذرہ بےمقدار ہے، وہ ضبط نفس کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ضروریات کو کفائت وتقلیل کی زنجیر پہناتا اور اپنی خواہشات کو حدود اللہ میں محدود کردیتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے منعم کو پہچانتے ہوئے اپنی تمام صلاحیتوں کو احسان شناسی اور قدرشناسی میں صرف کردیتا ہے، اس طرح وہ ایک عابد وشاکر بندہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تین عظیم نعمتوں سے نوازا ہے۔ 1۔ دل، 2۔ زبان، 3۔ اعضاء وجوارح۔ وہ ان تینوں کو اس کی قدر شناسی یعنی شکرگزاری میں استعمال کرتا ہے۔ دل میں اسی کی قدرشناسی کا جذبہ موجزن رہتا ہے۔ زبان اسی کے احسانات کے اقرار واعتراف اور اسی منعم کی حمد وثناء میں زمزمہ سنج رہتی ہے اور اعضاء وجوارح اسی کے نام کی سربلندی، اسی کے پیغام کی نشرواشاعت، اور اسی کے بندوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ روزے کی مسلسل مشق اس کے اندر اسی شکر کے جذبے کو ابھارتی ہے۔ اس کے اندر ایک طرف ضبط نفس کو پیدا کرکے جسمانی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کو کمزور کرتی ہے۔ دوسری طرف منعم حقیقی سے گہرا تعلق اور وارفتگی پیدا کرکے مقاصد حیات کو سہل کردیتی ہے۔ ممکن ہے یہ خیال پیداہو کہ روزہ نے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک صرف کھانے پینے اور مباشرت سے روکا ہے حالانکہ ضروریات یہیں تک تو محدود نہیں اور اتنی سی پابندی سے ضبط نفس کہاں پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جسم کے بنیادی تقاضے تین ہی ہیں۔ 1 غذا جو زندہ رہنے اور بقائے جسم کے لیے ضروری ہے۔ 2 جنسی طلب جو بقائے نوع کے لیے ضروری ہے۔ 3 آرام جو قوت کارکردگی کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ روزے نے انھیں تینوں کو کمزور بلکہ حدود میں محدود کرنے کا کمال کیا ہے۔ وہ دن کو کھانے پینے اور مباشرت پر پابندی لگاکر ان پر قابو پانا سکھاتا ہے اور رات کو قیام لیل کا حکم دے کر آرام و راحت کی طلب کو محدود کرتا ہے کیونکہ درحققیت یہی تینوں بنیادی مطالبے ہیں جو بڑھ کر اور اپنی حدود سے نکل کر خواہشات ومرغوبات کا ایک جہان پیدا کردیتے ہیں۔ زمام اقتدار پھر انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتی بلکہ جسم اور اس کے بہیمانہ تقاضوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور انسان بالکل بےقابو ہو کر خواہش نفس اور لذت پسندی کے دھارے میں بہتاچلا جاتا ہے۔ وہ آوارہ مویشیوں کی طرح ہر جگہ منہ مارتا ہے اس کو کھانے پینے اور خواہشات نفس پوری کرنے کا جنون ہوجاتا ہے وہ اس لیے کھاتا پیتانھیں تاکہ زندہ رہے وہ زندہ اس لیے ہے تاکہ کھاتا پیتا رہے۔ بقول شیخ سعدی : خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است وہ اپنی ذہانت وفطانت بھی اسی خدمت میں لگا دیتا ہے تاکہ آئے روز اشیائے خوردونوش میں نئی سے نئی اختراع کی جاسکے۔ اس کی تمام تر صلاحیت کھانوں کو زیادہ لذیذ پر تکلف اور متنوع بنانے میں صرف ہونے لگتی ہے۔ وہ ہاضم دوائوں اور بھوک کھولنے والے مشروبات ایجاد کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کھانے اور جلد سے جلد ہضم کرنے کا موقع مل سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ساری ترقی و توانائی کے باوجود اور مادی خوشحالی کی اس بلندترین سطح پر ہوتے ہوئے بھی کو ہلو کے بیل اور زمین جو تنے والے جانور کی طرح ہوجاتا ہے اور اس کا دائرہ عمل صرف دو چیزوں کے درمیان محدود ہو کر رہ جاتا ہے یعنی کھانے کے کمرے (ڈائننگ ھال) اور بیت الخلاء۔ وہ ان دونوں کے سوا کسی اور مبداء ومعاد سے ناواقف اور اس طواف کے سوا کسی اور طواف وسعی سے ناآشنا رہتا ہے کھانے پینے کی خواہش کے سوا اس میں ہر چیز کی خواہش مرجاتی ہے اس کی تمام سوچیں صرف اسی ایک فکر میں ڈھل جاتی ہیں۔ قرآن مجید نے انسانوں کے اس طبقہ یا انسان نما جانوروں کے اس ریوڑ کی جو معجزانہ تصویر کھینچی ہے اس سے زیادہ سچی اور نادر تصویر ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ کہتا ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا یَتَمَتَّـعُوْنَ وَیَـأ کُلُوْنَ کَمَاتَاکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّھُمْ جو کافر ہیں وہ عیش کررہے ہیں اور کھاپی رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے پیتے ہیں آگ ہی ان کا ٹھکانہ ہے) یہ صورتحال یقینا کافرکو ہی زیب دیتی ہے جو صرف دنیا اور دنیوی عیش و عشرت کے سوا کسی بلند تر زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔ مگر وہ قوم جو دنیا کو ایک دارالعمل اور یہاں کی زندگی کو ایک مہلت عمل سمجھتی ہو جو صرف ضروریات کے لیے نہیں بلکہ ارفع واعلیٰ مقاصدِ حیات کے لیے زندہ ہو جس کی تگ وتاز کے لیے دنیا ایک تنگنائے سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی ہو جو آخرت کے لیے اور اسی کے تصور میں جیتی اور مرتی ہو اور جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے اٹھائی گئی ہو اور جس کی پوری تاریخ اولوالعزمیوں، جفاکوشیوں، وفاشعاریوں اور جاں سپاریوں سے عبارت ہو، وہ یقینا ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اس لیے روزہ کے ذریعے ایسی چیزوں پر پابندی لگاکر جو انجام کا ردل کی موت اور شکم ومعدہ کی لامحدود سلطنت پر منتج ہوتی ہیں ایک ایسی زندگی کی تعمیر کا سامان کیا جو عبادت و عبدیت کے تصور سے بہرہ ور اللہ کی کبریائی کی حقیقت سے آشنا اور ادائے شکر پر مستعد ہو یعنی جس قوم کا ہر فرد عبادت کے واسطے سے اپنی عبدیت سے آگاہ ہو۔ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ” کی حقیقت سے واقف ہو اور لَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُونَ ” پر عمل کے نتیجے میں ضبط نفس کی صلاحیت پیدا کرکے اللہ ہی کی اطاعت و بندگی کا خوگر ہو۔
Top