Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں تو چھین لیں آپ سے (اے پیغمبر ! ) وہ سب کچھ جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی عطا کیا ہے، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی بھی نہ مل سکے،
155۔ وحی ربانی محض انعام واحسان خداوندی :۔ جس میں پیغمبر کا نہ کانہ کوئی اختیار ہوتا ہے اور نہ عمل دخل۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور اگر ہم چاہیں تو چھین لیں آپ سے اے پیغمبر وہ سب کچھ جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی عطا کیا ہے “۔ یعنی قرآن حکیم کو آپ ﷺ کے سینے سے اٹھادیں کہ یہ ہماری ہی ایک عظیم الشان بخشش اور عطیہ واحسان ہے۔ اور ہم جس طرح اس کے دینے پر قادر ہیں اسی طرح اس کے اٹھا دینے اور سینوں سے مٹادینے پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ قرآن کا اٹھانا اور لے جانا یہ ہے کہ سینوں اور سفینوں سے ایسا محو کردیا جائے کہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ (المراغی والمعارف وغیرہ) سو اس کا نہ اٹھایا جانا اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ پر ایک عظیم الشان احسان ہے۔ لہذا اس کی قدر کرو کہ اس نے آّپ کو قرآن کی اس عظیم الشان نعمت سے نوازا اور اس کو آپ کے سینے میں محفوظ بھی رکھا۔ (محاسن وغیرہ) پس اس میں ان علمائے کرام کیلئے بھی ایک درس عظیم ہے جن کو قدرت نے اپنی فیاضیوں سے قرآن حکیم کے علوم و معارف سے سرفراز فرمایا ہو کہ وہ دل وجان سے اس نعمت عظمی کی قدر کریں۔ ورنہ ناقدری کرنے کی صورت میں یہ نعمت ان سے چھن سکتی ہے کہ ناشکری کا نتیجہ وانجام سخت عذاب ہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہم ارزقنا التوفیق والسداد الما تحب وترضی وخذنا بنواصینآالی ماتحب وترضی ولا تکلنآ الی انفسنا طرفتہ عین یاذالجلال والاکرام۔ 156۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کا کوئی کارساز نہیں ہوسکتا :۔ جو اس کا کام بناس کے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم بالفرض آپ سے اس وحی کو سلب کرلیں تو پھر آپ ہمارے مقابلے میں کوئی حمائتی اور کارساز نہ پاس کیں جو ہمارے ارادے میں آڑے آسکے یا چھینی ہوئی نعمت آپ ﷺ کو واپس دلا سکے۔ اس میں خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کو ہے لیکن سنانا دراصل دوسروں کو ہے (صفوۃ، مراغی اور معارف وغیرہ) سو معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے۔ وہ جو چاہے کرے نہ کوئی اس کے ارادے میں حائل ہوسکتا ہے اور نہ کوئی اس سے باز پرس کرسکتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کہ وہ علی کل شیء قدیر بھی ہے اور اس کی شان لایسئل عما یفعل وہم یسئلون (الانبیاء : 23) کی شان ہے۔ یعنی وہ ” جو کرے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا لیکن لوگوں سے بہرحال پوچھ ہوگی “۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی مایحب ویرید بکل حال من الاحوال۔
Top