Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں تو جو (کتاب) ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اسے (دلوں سے) محو کردیں۔ پھر تم اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار نہ پاؤ
قرآن اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ پر انعام کی ہے یعنی آپ پر نہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہوجائے گا۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کر کے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بےمثل بےنظیر بےشریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکہ میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کردیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں۔
Top