Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں تو جو (کتاب) ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اسے (دلوں سے) محو کردیں پھر تم اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار نہ پاؤ۔
86۔ 87:۔ اوپر ذکر تھا کہ یہ قرآن ایسے بڑے فائدہ کی چیز ہے کہ اس سے دلی اور جسمانی بیماریوں کو شفا ہوتی ہے اس آیت میں اس فائدہ کی قدر بڑھانے کے لیے فرمایا اگر ہم اس قرآن کو لوگوں کے دل اور ورقوں سے ایسا مٹا اور بھلا دیں کہ اس کا اثر تک باقی نہ رہے تو ہمارے اس کام پر کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اعتراض کرے اور اس کو پھیر لاوے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں صحیح سند کی عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے قریب قرآن اٹھا لیا جائے گا، لوگوں نے پوچھا یہ کس طرح ہوگا قرآن تو حافظوں کے سینہ میں محفوظ ہے اور ورقوں میں لکھا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ قیامت کے قریب ایک رات ایسی آئے گی کہ جس میں تمہارے دل اور تمہارے ورقوں میں قرآن نہ ہوگا اور صبح کے وقت تم اٹھوگے تو کوئی اثر اس کا نہ پاؤ گے پھر یہ آیت پڑھی 1 ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے ایک ایسی ہوا چلے گی کہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف لوگوں کے دلوں سے فراموش ہوجائے گا اور ورقوں میں سے حرف مٹا دیئے جائیں گے اس مضمون کی ایک صحیح روایت تفسیر ابن ابی حاتم اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ ؓ سے بھی ہے 2 ؎۔ پھر اللہ پاک نے اپنا فضل وانعام آنحضرت ﷺ پر بیان فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں کہ قرآن کو اٹھا لیں مگر یہ ہمارا فضل و کرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا اور علاوہ اس کے اور بہت سی مہربانیاں اللہ کی آپ ﷺ پر ہیں آپ ﷺ کو اولاد آدم ( علیہ السلام) کا سردار اور خاتم الانبیاء قرار دیا مقام محمود عطا کیا اس کے سوا اور بہت سے اور بڑے بڑے فضل خدا کے آپ ﷺ پر ہیں۔ صحیح مسلم میں ابو موسیٰ ؓ اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم سب صحابہ سورة برائۃ کی برابر ایک سورة قرآن شریف کی سورتوں میں سے پڑھا کرتے تھے مگر اب اس کی ایک آیت بھی یاد نہیں رہی۔ اس حدیث سے آیت کا اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے مضمون کے موافق جب اللہ چاہے اس بھولی ہوئی سورت کی طرح سارے قرآن کو لوگوں کے دل اور ورقوں سے بھلا اور مٹا دیوے چناچہ قیامت کے قریب جب وہ چاہے گا تو ایسا ہی کرے گا۔ 1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 201 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر الدر المنثور 201 ج 4۔
Top