Taiseer-ul-Quran - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور جو کچھ ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اگر ہم چاہیں تو اسے لے جائیں پھر ہمارے مقابلے میں آپ کو کوئی (ایسا) مددگار 107 نہ ملے گا۔ (جو اسے واپس لاسکے)
107 وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے : اس آیت کا تعلق دراصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں دراصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جارہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آرہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہوسکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورة بقرہ کی آیت نمبر 23 پر حاشیہ نمبر 27 ملاحظہ فرمائیے)
Top