Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور تیرے رب کی بات پوری سچی ہے اور انصاف کی، کوئی بدلنے والا نہیں اس کی بات کو اور وہی ہے سننے والا جاننے والا
دوسری آیت میں قرآن حکیم کی اور دو امتیازی صفات کا بیان ہے جو قرآن کے کلام الٓہی ہونے کا کافی ثبوت ہے وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا یعنی کامل ہے کلام آپ ﷺ کے رب کا، سچائی اور انصاف اور اعتدال کے اعتبار سے، اس کے کلام کو کوئی بدلنے والا نہیں۔
لفظ ثَمَّت میں کامل ہونے کا بیان ہے، اور کَلِمَتُ رَبِّکَ سے مراد قرآن ہے (بحر محیط عن قتادہ ؓ قرآن کے کل مضامین دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن میں تاریخ عالم کے عبرت آموز واقعات و حالات اور نیک اعمال پر وعدہ اور برے اعمال پر سزا کی وعید بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں انسان کی صلاح و فلاح کے لئے احکام بیان کئے گئے ہیں، ان دونوں قسموں کے متعلق قرآن مجید کی یہ دو صفتیں بیان فرمائیں، صدقاً وعدلاً ، صدق کا تعلق پہلی قسم سے ہے، یعنی جتنے واقعات و حالات یا وعدہ و عید قرآن میں بیان کئے گئے ہیں وہ سب سچے اور صحیح ہیں، ان میں کسی غلطی کا امکان نہیں، اور عدل کا تعلق دوسری قسم یعنی احکام سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے تمام احکام عدل پر مبنی ہیں، اور لفظ عدل کا مفہوم دو معنی کو شامل ہے، ایک انصاف جس میں کسی پر ظلم اور حق تلفی نہ ہو، دوسرے اعتدال کہ نہ بالکل انسان کی نفسانی خواہشات کے تابع ہوں، اور نہ ایسے جن کو انسانی جذبات اور اس کے فطری ملکات برداشت نہ کرسکیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام احکام الٓہیہ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہیں نہ ان میں کسی پر ظلم ہے، اور نہ ان میں ایسی شدت اور تکلیف ہے جس کو انسان برداشت نہ کرسکے، جیسے دوسری جگہ ارشاد ہے(آیت) لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا، یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ کسی عمل کی تکلیف نہیں دیے“۔ اس کے ساتھ ہی اس آیت میں لفظ تَمَّت لا کر یہ بھی بتلا دیا کہ صرف یہی نہیں کہ قرآن کریم میں صدق و عدل کی صفات موجود ہیں، بلکہ وہ ان صفات میں ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہے۔
اور یہ بات کہ تمام قرآنی احکام تمام اقوام دنیا کے لئے اور قیامت تک آنے والی نسلوں اور بدلنے والے حالات کے لئے انصاف پر بھی مبنی ہوں اور اعتدال پر بھی، یہ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو صرف احکام خدا وندی ہی میں ہوسکتا ہے، دنیا کی کوئی قانون ساز اسمبلی تمام موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کا نہ پورا اندازہ لگا سکتی ہے، اور نہ ان سب حالات کی رعایت کرکے کوئی قانون بنا سکتی ہے، ہر ملک و قوم اپنے ملک اور اپنی قوم کے بھی صرف موجودہ حالات کے پیش نظر قانون بناتی ہے، اور ان قوانین میں بھی تجربہ کرنے کے بعد بہت سی چیزیں عدل و اعتدال کے خلاف محسوس ہوتی ہیں، تو ان کو بدلنا پڑتا ہے، دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں یا آئندہ حالات کی پوری رعایت کرکے ایسا قانون وضع کرنا جو قوم ہر ملک ہر حال میں عدل و اعتدال کی صفات لئے ہوئے ہو، یہ انسانی فکر و نظر سے بالاتر ہے، صرف حق جل و علا شانہ، کے ہی کلام میں ہوسکتا ہے، اس لئے یہ پانچویں صفت قرآن کریم کی کہ اس میں بیان کئے ہوئے گزشتہ اور آئندہ کے تمام واقعات اور وعدہ وعید سب سچے ہیں، ان میں خلاف واقع ہونے کا ادنیٰ شبہ نہیں ہوسکتا، اور اس کے بیان کئے ہوئے تمام احکام پوری دنیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عدل و اعتدال لئے ہوئے ہیں، نہ ان میں کسی پر ظلم ہے، نہ اعتدال و میانہ روی سے سرِ مو تجاوز ہے، یہ بجائے خود قرآن کے کلام الٓہی ہونے کا مکمل ثبوت ہے۔
چھٹی صفت یہ بیان فرمائی کہ (آیت) ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ، یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں، بدلنے کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی اس میں غلطی ثابت کرے، اس لئے بدلا جائے، یا یہ کہ کوئی دشمن زبردستی اس کو بدل ڈالے، اللہ تعالیٰ کا کلام ان سب چیزوں سے بالا تر اور پاک ہے اس نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ (آیت) انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون، ”یعنی ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ پھر کس کی مجال ہے کہ خدا کی حفاظت کو توڑ کر اس میں کوئی غیر تبدل کرسکے، چناچہ چودہ سو برس اس پر گزر چکے ہیں، اور ہر قرن ہر زمانہ میں قرآن کے مخالف اس کے ماننے والوں کی نسبت تعداد میں بھی زیادہ رہے ہیں، قوت میں بھی، مگر کسی کی مجال نہیں ہوسکی کہ قرآن کے ایک زبر زیر میں فرق پیدا کرسکے، ہاں بدلنے کی ایک تسیری صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو منسوخ کرکے بدل دیا جائے، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری پیغمبر اور قرآن آخری کتاب ہے، اس کے بعد نسخ کا کوئی احتمال نہیں، جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔
آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ یعنی اللہ جل شانہ اس تمام گفتگو کو سنتے ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں، اور سب کے حالات اور اسرار سے واقف ہیں ہر ایک کے عمل کا بدلہ اس کے مطابق دیں گے۔
Top