Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور تمہارے پروردگار کی باتیں سّچائی اور انصاف میں پوری ہیں۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور وہ سنتا ہے ، جانتا ہے۔
آیت 115 یعنی اے رسول ﷺ ان سے کہہ دیجیے (افغیر اللہ ابتغی حکماً ) ” کیا میں اللہ کے سوا کوئی منصف تلاش کروں “ اور اس کے پاس اپنے فیصلے لے کر جاؤں اور اس کے اوامرو نواہی کی پابندی کروں ؟ کیونکہ غیر اللہ حاکم نہیں محکوم ہوتا ہے اور مخلوق کے لئے ہر تدبیر اور ہر فیصلہ، نقص، عیب اور ظلم و جور پر مشتمل ہوتا ہے اور جسے حاکم بنانا واجب ہے، وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات ہے جو خلق و امر کی مالک ہے۔ (وھو الذین انزل الیکم الکتب مفصلاً ” حالانکہ اسی نے اتاری ہے تم پر کتاب واضح “ یعنی جس میں حلال و حرام، احکام شریعت اور دین کے اصول و فروغ واضح کئے گئے ہیں، اس کی توضیح سے بڑھ کر کوئی توضیح نہیں، اس کی دلیل سے روشن کوئی دلیل نہیں، اس کے فیصیل سے اچھا کوئی فیصلہ نہیں اور اس کی بات سے زیادہ درست کسی کی بات نہیں کیونکہ اس کے احکام حکمت و رحمت پر مشتمل ہیں۔ کتب سابقہ کے حاملین یہود و نصاریٰ اس حقیقت کو پہچانتے ہیں (یعلمون انہ منزل من ربک بالحق) ” اور) جانتے ہیں کہ وہ آپ کے رب کی طرف سے ٹھیک نازل ہوئی ہے “ اسی لئے اخبار سابقہ اس کی موافقت کرتی ہیں (فلاتکونن من الممترین) پس آپ اس بارے میں شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا (وتمت کلمت ربک صدقاً وعدلاً ) ” اور آپ کے رب کی بات پوری سچی ہے اور انصاف کی “ یعنی خبر میں صداقت اور اوامرونواہی میں عدل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عزیز میں جو خبریں بیان کی ہیں اس سے سچی کوئی خبر نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی سے بڑھ کر کسی حکم میں عدل و انصاف نہیں۔ (لامبدل لکلمتہ) ” اس کی بات کو کوئی بدلنے والا نہیں “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی ہے اور صدق کی مختلف انواع اور حق کے ذریعے سے ان کو محکم کیا ہے۔ اس لئے ان میں تغیر و تبدل کرنا ممکن نہیں اور نہ اس سے زیادہ خوبصورت کلام وجود میں لایا جاسکتا ہے (وھو السمیع) ” اور وہ سنتا ہے “ وہ مختلف زبانوں اور متفرق حاجتوں پر مبنی تمام آوازوں کو سن سکتا ہے (العلیم) ” جانتا ہے۔ “ جس کا علم ظاہر و باطن اور ماضی و مستقبل ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
Top