Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے اللہ کی راہ سے وہ سب تو چلتے ہیں اپنے خیال پر اور سب اٹکل ہی دوڑاتے ہیں
تیسری آیت میں حق تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو اطلاع دی کہ زمین پر بسنے والے بنی آدم کی اکثریت گمراہی پر ہے، آپ ﷺ اس سے مرعوب نہ ہوں ان کی باتوں پر کان نہ دھریں قرآن نے متعدد مقامات پر اس مضمون کو بیان فرمایا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ولقد ضل قبلھم اکثر الاولین، دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین، مطلب یہ ہے کہ عادةً انسان پر عددی اکثریت کا رعب غالب ہوجاتا ہے، اور ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے، اس لئے آنحضرت ﷺ کو خطاب کیا گیا کہ
”دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ﷺ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ ﷺ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں، کیونکہ وہ عقائد و نظریات میں محض خیالات اور اوہام کے پیچھے چلتے ہیں اور احکام میں محض تخمینہ اور اٹکل سے کام لیتے ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں“۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کی عددی اکثریت سے مرعوب ہو کر ان کو موافقت کا خیال بھی نہ فرماویں، کیونکہ یہ سب بےاصول اور بےراہ چلنے والے ہیں، آخر آیت میں فرمایا کہ
”بالیقین آپ ﷺ کا رب ان کو خوب جانتا ہے، جو اس کی راہ سے بےراہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ پر چلتا ہے، پس جیسے گمراہوں کو سزا ملے گی، سیدھی راہ والوں کو انعام و اکرام حاصل ہوگا“۔
Top