Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور آپ کے پروردگار کا یہ (کلام) صدق وعدل کے لحاظ سے کامل ہے، کوئی بدل نہیں سکتا اس کے کلام کو، اور وہی خوب سننے والا ہے، پورا علم رکھنے والا ہے،168 ۔
168 ۔ خوب سننے والا ان منکرین کے اقوال کا۔ (آیت) ” السمیع “۔ کوئی اسے غافل وبے خبر نہ سمجھ لے، پورا علم رکھنے والا ان منکرین کے عقائد اور دلی خیالات کا ، (آیت) ’ العلیم “۔ کوئی اسے ناواقف نہ خیال کرے، (آیت) ” کلمت ربک “۔ اہل معانی نے لکھا ہے کہ کلمۃ واحد ہے لیکن اس کا اطلاق مجموعہ کلام پر بھی ہوتا ہے۔ جب وہ پورا کلام حکم واحد میں ہوتا ہے۔ چناچہ کلمہ ” زہیر “ سے مراد قصیدہ زہیر اور کلمۃ سے مراد خطبۃ عربی میں عام ہے۔ الکمۃ قد یراد بھا الکلمات الکثیرۃ اذا کانت مضبوطۃ۔ بضابط واحد کقولھم قال زھیر فی کلمتہ یعنی قصیدتہ وقال قس فی کلمتہ ایہ خطبتہ (کبیر) (آیت) ” لامبدل لکلمۃ “۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کلام الہی میں کاٹ، چھانٹ، گھٹ بڑھ کرسکے، یہ ترمیم و تغیر سے ہمیشہ کیلیے محفوظ ہے۔ قال قتادۃ الکلماتھی القران لامبدل لہ لایزید فیہ المفترون ولا ینقصون (قرطبی) المراد انھا تبقی مصونۃ عن التحریف والتغییر (کبیر) دوسرے معنی امام رازی (رح) نے یہ بھی کیے ہیں کہ ان دلائل قومی میں منکروں کے شکوک وشہبات ذرا بھی رخنہ نہیں پیدا کرسکتے تلک الشبھات لا تاثیرلھا فی ھذہ الدلائل التی لا تقبل التبدیل البتۃ (کبیر) (آیت) ” وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا “۔ تمامتر صدق اپنے بیانات کے لحاظ سے۔ ماضی کے جتنے واقعات اس نے بیان کیے ہیں۔ دنیا میں تاریخی واثری تحقیقات جتنی بھی بڑھتی جائیں گی، قرآن کی صداقت کو اس سے دھکا نہیں لگ سکتا۔ وہ اور زیادہ ہی روشن ہوتی جائے گی، یکسر عدل اپنے احکام وہدایت کے لحاظ سے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے پیچیدہ انفرادی واجتماعی مسائل میں تجربہ کرلیا جائے۔ قرآن کے قائم کردہ نقطہ عدل و اعتدال اور درجہ توازن کی قدر اور نکھرتی ہی آئے گی، امام رازی (رح) نے کل مضامین قرآنی کو خبر اور تکلیف کے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور یہاں صفات صدق وعدل کو انہیں دونوں سے متعلق کیا ہے۔ صدق ان کان من باب الخبر وعدلا ان کان من باب التکالیف (کبیر) الصدق فی الاخبار والمواعید والعدل فی الاقضیۃ والاحکام (روح) فقہاء مفسرین نے آیت سے استدلال کیا ہے کہ تصریحات قرآنی کی طرح دلالات قرآنی بھی واجب الاتباع ہیں۔ دلت الایۃ علی وجوب اتباع دلالات القران لانہ حق لایمکن تبدیلہ بمایناقضہ (قرطبی)
Top