Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور یاد رکھو تمہارے پروردگار کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہوگئی ، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ، وہ سننے والا ، جاننے والا ہے
رب کریم کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہوگی کہ اس کی باتیں بدلا نہیں کرتیں : 175: ” کلمہ “ واحد بھی ہو تو اس کا اطلاق مجموعہ کلام ہوتا ہے اور خصوصاً جب وہ پورا کلام حکم واحد میں ہوتا ہے چناچہ ” کلمہ زبیر “ سے مراد ہے قصیدہ زہیر اور کلمہ اول۔ کلمہ دوم اور کلمہ سوم عام لوگوں میں معروف ومشہور ہے۔ اسی طرح لفظ ” تَمَّتْ “ بھی عام ہے جس میں کامل ہونے کا اشارہ پایا جاتا ہے اور ” كَلِمَتُ رَبِّكَ “ سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور کائنات کا ایک ایک ذرہ بھی۔ قرآن کریم کے کل مضامین دو قسم کے ہیں ایک وہ جن میں تاریخ عالم کے عبرت آموز واقعات و حالات اور نیک اعمال پر وعدہ اور برے اعمال پر سزا کی وعید بیان کی گئی ہے دوسرے وہ جن میں انسان کی اصلاح و فلاح کے لئے احکام بیان کے گئے ہیں ان دونوں قسموں کے متعلق قرآن کریم کی دو صفتیں بیان فرمائیں ” صِدْقًا وَّ عَدْلًا 1ؕ“ صدق کا تعلق پہلی قسم سے ہے یعنی جتنے واقعات و حالات یا وعدہ و وعید قرآن کریم میں بیان کئے گئے وہ سب سچ اور صحیح ہیں ، ان میں کسی قسم کی غلطی کا کوئی امکان نہیں اور عدل کا تعلق دوسری قسم یعنی احکام سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام عدل پر مبنی ہیں اور لفظ عدل کا مفہوم دو معنی کو شامل ہے۔ ایک انصاف جس میں کسی پر ظلم اور حق تلفی نہ ہو دوسرے اعتدال کونہ بالکل انسان کی نفسائی خواہشات کے تابع ہوں اور نہ ایسے جن کو انسانی جذبات اور اس کے فطری ملکات برداشت نہ کرسکیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام احکام الہیہ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہیں نہ ان میں کسی پر ظلم ہے اور نہ ان میں ایسی شدت اور تکلیف ہے جس کو انسان برداشت نہ کرسکے۔ اس بات کو دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا کہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ” یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ کسی عمل کی تکلیف نہیں دیتا “ اور یہ بات کہ تمام قرآنی احکام تمام اقوام دنیا کے لئے اور قیامت تک آنے والی نسلوں اور بدلنے والے حالات کے لئے انصاف پر بھی مبنی ہوں اور اعتدال پر بھی اس پر اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ صرف احکام خداوندی ہی ہو سکتے ہیں۔ دنیا کی کوئی قانون ساز اسمبلی تمام موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کا نہ پورا اندازہ لگا سکتی ہے اور نہ ان سب حالات کی رعایت کر کے کوئی قانون بنا سکتی ہے۔ ہر ملک و قوم اپنے ملک اور اپنی قوم کے بھی صرف موجودہ حالات کے پیش نظر قانون بناتی ہے اور ان قوانیں میں بھی تجزیہ کرنے کے بعد بہت سی چیزیں عدل و اعتدال کے خلاف محسوس ہونے لگتی ہیں تو ان کو بدلنا پڑتا ہے۔ دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں یا آئندہ حالات کی پوری رعایت کرکے ایسا قانون وضع کرنا جو ہر حال میں عدل و اعتدال کی صفات کو لئے ہوئے ہو یہ انسان فکر و نظر سے بالاتر ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی کے کلام میں ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں بیان کئے گئے گذشتہ واقعات اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات اور آخرت کے متعلق واقعات اور وعدہ ووعید سب سچے ہیں ان میں خلاف واقع ہونے کا ادنی شبہ بھی نہیں ہو سکتا اور یہ بھی کہ وہ سب واقعات انسانی زبان کے مطابق بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کریم کے تمام احکام اعتدال ومیانہ روی سے سرمو تجاوز نہیں کرتے اور یہ بات بھی قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے دلائل میں سے ایک کامل اور مکمل دلیل ہے۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ 1ۚ ” اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ “ بدلنے کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی اس میں غلطی ثابت کرے اسلئے اس کو بدلا جائے یا نہ کوئی دشمن زبردستی اس کو بدل ڈالے۔ اللہ کا کلام ان باتاوں سے بالاتر اور پاک ہے نہ کبھی اس میں کوئی غلطی ثابت ہو سکتی ہے کہ اس کو اللہ ہی بدلے اور نہ کوئی دشمن زبردستی اس کو بدل سکتا ہے کیونکہ وہ خود سارے زبردستوں سے زیادہ زبردست ہے۔ وہ کون ہے جو اس پر زبردستی اس کو بدل سکتا ہے کیونکہ وہ خود سارے زبردستوں سے زیادہ زبردست ہے۔ وہ کون ہے جو اس پر زبردستی کرسکے۔ رہے وہ لوگ جن لوگوں کو یہ شوق ہے کہ اگر اللہ اپنی بات کو نہ بدلے تو وہ طاقتور ورنہ طاقتور نہیں ہوتا وہ دراصل اپنے سے زبردستوں میں رہ رہ کر اور ان کی بداعتدالیاں اور بدتمیزیاں دیکھ دیکھ کر ان سے اتنے خائف ہوچکے ہیں کہ وہ ان زبردستوں کو بےغیرت اور بدتمیز کہنے کی بجائے اللہ کو اپنی باتیں اور کلمات بدل لینے والا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلئے انکو معذور سمجھ کر ان کو عقل کی دعا دینا مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ ان کو اصل بات سمجھنے کی توفیق دے اور ان دنیا کے زبردستوں سے اللہ کو نجات دے کر بشرطیکہ وہ بھی ان سے نجات حاصل کرنا چاہیں۔ آیت کے اس حصہ کی مزید تشریح کے لئے اس سورت کی آیت 34 کا مطالعہ کریں وہاں اس کی تفصیل مل جائے گی۔ ” وہ سننے والا جانے والا۔ “ اس سلسلہ میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں خواہ وہ کسی زبان میں کہیں یا اپنے دل ہی دل کے اندر کہیں۔ وہ ہر طرح کی باتوں کو سنتا اور جو کچھ کوئی کرتا ہے وہ ظاہر طور پر کرے یا چھپ چھپا کر بہر حال وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
Top