Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 71
قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ١ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَا١ؕ قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ١ؕ فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَا : کہ وہ بَقَرَةٌ : ایک گائے لَا ذَلُوْلٌ : نہ سدھی ہوئی تُثِیْرُ : جوتتی الْاَرْضَ : زمین وَلَا تَسْقِي : اور نہ پانی دیتی الْحَرْثَ : کھیتی مُسَلَّمَةٌ : بےعیب لَا۔ شِيَةَ : نہیں۔ کوئی داغ فِیْهَا : اس میں قَالُوْا : وہ بولے الْاٰنَ : اب جِئْتَ : تم لائے بِالْحَقِّ : ٹھیک بات فَذَبَحُوْهَا : پھر انہوں نے ذبح کیا اس کو وَمَا کَادُوْا : اور وہ لگتے نہ تھے يَفْعَلُوْنَ : وہ کریں
موسیٰ نے کہا خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ بیل محنت کش نہ ہو کہ زمین کو جو تنا ہو اور نہ وہ کھیتی میں آبپاشی کرتا ہو وہ صحیح سالم ہو اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو اس پر ان لوگوں نے کہا اب آپ پوری اور صاف بات لائے پھر انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔2
2 انہوں نے کہا اے موسیٰ آپ اپنے رب سے ہمارے لئے درخاوست کیجیے کہ وہ اس بیل کا حال اور اس کا وصف بیان کرے کہ وہ کیسا ہو کتنا بڑا ہو۔ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ فرمتا ہے وہ بیل نہ تو بہت بوڑھا ہو اور نہ بالکل بچہ ہو بلکہ اس کی عمران دونوں حالتوں کے درمیان ہو اب جو کچھ تم کو حکم دیا گیا ہے اس کو کر ڈالو اپر انہوں نے کہا آپ اپنے رب سے ہمارے لئے یہ درخواست اور کردیجیے کہ وہ یہ بیان کرے کہ اس بیل کا رنگ کیسا ہو حضرت موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ایک ایسا بیل ہو جس کا رنگ زرد ہو اور زرد بھی بہت گہرا اور شوخ جو دیکھنے والوں کو فرحت بخش اور خوش آئند ہو یہ سن کر انہوں نے کہا اچھا ایک اور درخواست اپنے رب سے ہمارے لئے کردیجیے کہ وہ ذرا واضح طور پر یہ بیان کر دے کہ وہ بیل کیسا ہو اور اس کے اوصاف کیا ہوں وہ گھر کھڑا رہتا ہو یا ہل میں جوتا جاتا ہو کیونکہ اس بیل کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ہے اور اس میں ابھی کچھ اشتباہ باقی ہے اور ہم انشاء اللہ اب کی دفعہ ضرور راہ پالیں گے اور اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ جائیں گے۔ حضرت موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو ہل ہی میں جوتا گیا ہو جس سے زمین جوتی جائے اور نہ اس کو پانی میں لگایا گیا ہو جس سے کھیتی کی آب پاشی کی جائے صحیح سالم اور بےداغ ہو وہ کہنے لگے اب آپ صاف اور پورا جواب لائے ہیں پھر انہوں نے ان اوصاف کا بیل تلاش کر کے اس کو ذبح کیا حالانکہ پے در پے ان کے سوالات اور حجت بازی سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ کام کرنے والے نہیں ہیں۔ (تیسیر) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ایک شخص کی لڑکی تھی اس سے کسی نے شادی کا پیام دیا باپ نے انکار کردیا اس پر اس پیام دینے والے نے لڑکی کے باپ کو قتل کردیا قاتل کا پتہ نہ چلتا تھا اس پر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے درخواست کی کہ قاتل معلوم ہونا چاہئے تاکہ بےچینی دور ہو اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ عمویل یا عامیل ایک سرمایہ دار آدمی تھا اس کے وارثوں نے اسے قتل کردیا پھر اس کو شہر کے دروازے پر یا کسی دوسرے محلہ میں ڈال آئے قریب تھا کہ ورثا مقتول میں اور ان محلے والوں میں سخت جنگ ہوجائے لیکن کسی سمجھ دار شخص نے دونوں فریق میں یہ کہہ کر بیچ بچائو کرا دیا کہ جب ہم میں اللہ کا پیغمبر موجود ہے تو اس سے دریافت کرو تم آپس میں کیوں لڑتے ہو چناچہ اس بات پر سب مل کر حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مفسرین کے اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ نزول تورات سے قبل کا ہے اور اس وقت تک بنی اسرائیل کو اس قسم کے قتل کا حکم معلوم نہ تھا جب حضرت مسویٰ نے جناب باری میں دعا کی تو ارشاد ہوا کہ تم ایک بیل کو ذبح کرو۔ چنانچہ اس قسم کے بیل کو بڑی مشکل سے تلاش کیا تو بنی اسرائیل کو معلوم ہوا کہ اس عمر اور اس رنگ و روپ کا بیل ایک لڑکے کی ملک ہے جو جنگل میں چرتا رہتا ہے اور سوائے اس لڑکے کے وہ بیل کسی کے ہاتھ نہیں آسکتا ۔ صاحب در منشور حضرت وہب بن منبہ سے نقل کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا نیک آدمی تھا۔ اس کا ایک لڑکا تھا اور اس کے پاس ایک بچھڑا تھا، اس نیک شخص نے مرتے وقت اس بچھڑے کو خدا کے سپرد کر کے جنگل میں چھوڑ دیا اور اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ جب یہ لڑکا بڑا ہوجائے تو اس سے کہنا کہ وہ جنگل میں جا کر خدا سے یوں دعا کرے کہ اے اللہ ! ابراہیم و اسحاق و یعقوب میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ بچھڑا میرے پاس آجائے۔ یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو ماں کا بہت خدمتگار تھا جو مزدوری کر کے لاتا تھا اس میں سے ایک تہائی خیرات کرتا تھا اور ایک تہائی خرچ کرتا تھا اور ایک تہائی ماں کو دیا کرتا تھا۔ ماں نے اس کو یہ کہہ دیا تھا کہ جب تک مجھ سے دریافت نہ کرے اس بچھڑے کا سودا کسی سے نہ کیجیو۔ ابتدا ایک آسمانی فرشتے نے بطور امتحان اس لڑکے سے بات چیت کی اور تین دن تک اس بچھڑے کی قیمت لگاتار رہا۔ لیکن لڑکا ہر روز یہ کہطتا رہا کہ میں اپنی ماں سے دریافت کرلوں فرشتہ یہ کہتا رہا کہ تو چاہے جتنی قیمت لے لے مگر اپنی ماں سے دریافت نہ کر، آخر تیسرے دن فرشتے نے کہا کہ اس کی قیمت بہت آئے گی مگر تو اس وقت تک اس بیل کو فروخت نہ کیجیو جب تک اس کی کھال بھر کر سونا نہ حاصل کرے، لڑکا ہر روز کی بات اپنی ماں کو بتاتا رہا۔ ماں نے کہا بیٹا ! جب تک مجھ سے دریافت نہ کرلے کسی سے ہاں نہ کیجیو۔ بنی اسرائیل تلاش کرتے ہوئے اس لڑکے کے پاس پہنچے اور اس بیل کی قیمت لگاتے رہے۔ یہ کہتا رہا میں اپنی ماں سے دریافت کرلوں۔ آخر فرشتے نے جو قیمت بتائی تھی اس قیمت پر ماں نے اجازت دے دی اور بیل کا سودا ہوگیا۔ لڑکے نے جنگل میں جا کر دعا کی اور وہ بیل اس لڑکے کے پاس آکھڑا ہوا بہرحال اس غیر مرفوع روایت کا درجہ کیسا ہی ہو اور قتل کے وجوہات کچھ بھی ہوں قرآن شریف سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف اس قدر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کوئی خون ہوا اور قاتل کا پتہ نہ چلا اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا کہ قاتل کو معلوم کرنے کا طریقہ بتایا تاکہ صحیح انصاف ہو سکے اور مقتول کا خون رائیگاں نہ ہو اور قاتل کے ساتھ جو سازش میں شریک تھے وہ نمایاں ہوجائیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر یہ لوگ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی ان کو اس کا پتہ نہیں لگتا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا ہے جو شخص زرد رنگ کا جوتا پہنے گا تو جب تک اس جوتہ کو استعمال کرے گا وہ خوش اور مسرور رہے گا۔ بعض حضرات نے اس موقعہ پر ترتیب آیات کی بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ قتل کے بعد بنی اسرائیل کو بیل ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا اس لئے واذ قتلتم کی آیت مقدم ہوئی اور واذ قال موسیٰ لقومہ کی آیت مئوخر ہوئی۔ یہ شبہ کرنے کے بعد پھر اس کے جوابات دیئے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس بحث کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ نزول کی ترتیب اور ہو اور تلاوت کی ترتیب دوسری ہو۔ نیز یہ کہ ترتیب خواہ کچھ ہو لیکن واقعہ بہرحال پورا ذکر کردیا گیا ہے اور چونکہ اوپر سے بنی اسرائیل کی بد عنوانیوں اور شرارتوں کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اس لئے وہ سلسلہ بھی قائم رکھا گیا۔ (تسہیل)
Top