Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 71
قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ١ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَا١ؕ قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ١ؕ فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَا : کہ وہ بَقَرَةٌ : ایک گائے لَا ذَلُوْلٌ : نہ سدھی ہوئی تُثِیْرُ : جوتتی الْاَرْضَ : زمین وَلَا تَسْقِي : اور نہ پانی دیتی الْحَرْثَ : کھیتی مُسَلَّمَةٌ : بےعیب لَا۔ شِيَةَ : نہیں۔ کوئی داغ فِیْهَا : اس میں قَالُوْا : وہ بولے الْاٰنَ : اب جِئْتَ : تم لائے بِالْحَقِّ : ٹھیک بات فَذَبَحُوْهَا : پھر انہوں نے ذبح کیا اس کو وَمَا کَادُوْا : اور وہ لگتے نہ تھے يَفْعَلُوْنَ : وہ کریں
موسیٰ نے کہا خدا فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو ، نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو، اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو، کہنے لگے اب تم نے سب باتیں درست بتادیں، غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں
(71 ۔ 73): شروع قصہ کا یہی ہے مگر جس تنبیہ کے لئے قصے کی ترتیب بدلی گئی ہے اس کا ذکر اوپر گذر چکا۔ اس سورت میں مردہ کے زندہ ہونے کا ذکر پانچ آیتوں میں جگہ جگہ آیا ہے تاکہ منکرین حشر کے دل میں اچھی طرح یہ جم جاوے کہ جس طرح ان مردوں کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اسی طرح سب مردے حشر کے دن زندہ کئے جائیں گے اور یہود لوگ اگر حشر کے منکر نہیں ہیں لیکن حشر کے ذکر سے ان کے دل میں یہ بات جم جاوے کہ آخر حشر نیک وبد کے حساب و سزا و جزا کے لئے ہے۔ پھر حشر کی اصلی غرض کو بھول کر عقبیٰ کے مضر کام کرنا بڑی نادانی کی بات ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو اپنے نفس پر قادر رہ کر دنیا میں موت کے ما بعد کاموں میں لگا رہے اور نادان وہ ہے جو نفس کے تابع ہو کر دنیا میں موت کے مابعد کی باتوں کو بھول جائے 3 ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
Top