Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 71
قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ١ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَا١ؕ قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ١ؕ فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَا : کہ وہ بَقَرَةٌ : ایک گائے لَا ذَلُوْلٌ : نہ سدھی ہوئی تُثِیْرُ : جوتتی الْاَرْضَ : زمین وَلَا تَسْقِي : اور نہ پانی دیتی الْحَرْثَ : کھیتی مُسَلَّمَةٌ : بےعیب لَا۔ شِيَةَ : نہیں۔ کوئی داغ فِیْهَا : اس میں قَالُوْا : وہ بولے الْاٰنَ : اب جِئْتَ : تم لائے بِالْحَقِّ : ٹھیک بات فَذَبَحُوْهَا : پھر انہوں نے ذبح کیا اس کو وَمَا کَادُوْا : اور وہ لگتے نہ تھے يَفْعَلُوْنَ : وہ کریں
موسیٰ نے کہا خدا فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو ، نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو، اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو، کہنے لگے اب تم نے سب باتیں درست بتادیں، غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں
71۔ (آیت)” قال انہ یقول انھا بقرۃ لاذلول “۔ کام کرنے کی عادی (کام پر سدھائی ہوئی) کہا جاتا ہے ، ” رجل ذلول “ واضح طور پر ذلیل (یعنی جس میں خودی اور خودداری نہ ہو ۔ ہر ایک کا مطیع اور حقیر) اسی طرح کہا جاتا ہے ” دابۃ ذلولۃ واضح الذل “ ہو (یعنی وہ جانور کام کا عادی ہو) ” تثیر الارض “ زمین کو زراعت کے لیے الٹ پلٹ کرتی ہو۔ (آیت)” ولاتسقی الحرث “ یعنی سانیہ نہ ہو (پانی نکالنے کا کام نہ کرتی ہو) ” مسلمۃ “ بری ہو۔ عیبوں سے ” لاشیۃ فیھا “ یعنی اس کے پورے چمڑے کے رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کا داغ نہ ہو۔ حضرت عطاء (رح) فرماتے ہیں (آیت)” لا شیۃ فیھا “ کا معنی ہے کہ اس میں کوئی عیب نہ ہو۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اس میں نہ سفیدی ہو نہ سیاہی ہو ۔ (آیت)” قالوا الان جئت بالحق “ یعنی اب ایسا بیان لائے ہیں جو تام اور شافی ہے جس میں اب کسی قسم کا اشکال نہیں ہے اور انہوں نے اس (قسم کی) گائے کو تلاش کیا تو اس جوان (جو والدہ کا فرمانبردار تھا) کے سوا کسی کے پاس ان صفات کے ساتھ مکمل موصوف گائے نہ پائی اور (آیت)” وما کادوا یفعلون “ کے معنی سے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے نہ کرنے کی وجہ ان کی شدت اضطراب اور اس گائے کے بارے میں اختلاف تھا ۔
Top