Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا بولا بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
آیت نمبر 61 تا 70 ترجمہ : اس وقت کو یاد کرو کہ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے تعظیم کے طور پر جھکو تو سب جھکے سوائے ابلیس کے، اس نے کہا کیا میں اس کو جھکوں جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ؟ (طینًا) حذف حرف جر کی وجہ سے منصوب ہے، ای من طینٍ (ابلیس نے) کہا بھلا دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے مجھے اس کو (جھکنے) سجدہ کا حکم دیکر مجھ پر فضیلت دی، حالانکہ میں اس سے بہتر ہوں اسلئے کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، مجھے قسم ہے لام قسمیہ ہے اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو میں بھی اگواء کرکے اس کی پوری نسل کو بیخ کنی کر ڈالوں گا ان میں سے بہت کم لوگ بچ سکیں گے جن کو تو بچائے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا (اچھا) جا، تجھے نفخۂ اولی تک مہلت ہے، تو جو ان میں سے تیری پیروی کرے گا تم سب کی پوری سزا جہنم ہے، لہٰذا تو جس جس کو ان میں سے گاجے باجے اور ہر ذریعہ معصیت سے دعوت دے کر پھسلا سکتا ہے پھسلا لے اور ان پر تو اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا (یعنی ہر حربہ استعمال کرلے) اور خیل سے مراد گھوڑ سوار اور مشاۃ سے مراد پیادے ہیں، اور حرام مال میں مثلاً سود کا مال اور غصب کا مال اور زنا کی اولاد میں اپنا حصہ لگالے اور ان سے وعدے کرلے کہ نہ مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور نہ کوئی حساب کتاب ہے اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں، میرے مومن (مخلص) بندوں پر تیرا قابو اور زور نہ چلے گا اور آپ کا رب ان کی حفاظت کیلئے تیری طرف سے کافی ہے، تمہارا رب تو وہ ہے کہ جو دریا میں تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم تجارت کے ذریعہ اس کا فضل (روزی) تلاش کرو حقیقت یہ ہے کہ وہ کشتیوں کو تمہارے تابع کرکے تمہارے حال پر مہربان ہے اور جب سمندر میں تم پر غرق ہونے کے خوف کی مصیبت آتی ہے تو اس وقت تم سے وہ سب غائب ہوجاتے ہیں جن جن معبودوں کی تم بندگی کرتے تھے تو اس وقت تم اسی ایک معبود کو پکارتے ہو (یعنی) اس وقت تم اسی ایک وعدہٗ (لاشریک) کو پکارتے ہو اسلئے کہ (اس وقت) تم ایسی مصیبت میں ہوتے ہو کہ اس کو صرف وہی دور رکھ سکتا ہے پھر جب تم کو ڈوبنے سے بچا لیتا ہے اور تم کو خشکی میں پہنچا دیتا ہے تو تم توحید سے رخ پھیر لیتے ہو اور انسان ہے ہی نعمتوں کا ناشکرا تو کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ قارون کے مانند زمین میں دھنسا دے یا تم پر کنکریلی تیز ہوا چلا دے یعنی قوم لوط کے مانند تم پر سنگباری کر دے، پھر تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ، اور کیا تم اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ وہ پھر تم کو دریا میں لیجائے اور تم پر طوفانی ہوا چلا دے یعنی ایسی تند ہوا کہ جس پر بھی گذرے اس کو توڑ کر رکھ دے، اور تمہاری کشتیوں کو بھی توڑ دے، پھر تم کو تمہارے کفر کے سبب غرق کر دے پھر تم کو اس بات پر کوئی ہمارا پیچھا کرنے والا بھی نہ ملے یعنی کوئی مددگار، یا ایسا حمایتی کہ جو کچھ ہم نے تمہارے ساتھ کیا ہے اس سلسلہ میں ہم سے باز پرس کرسکے، اور ہم نے اولاد آدم کو علم نطق کے ذریعہ اور اعتدال خلق وغیرہ کے ذریعہ عزت بخشی اور اسی میں تم کو موت کے بعد پاک کرنا بھی ہے اور ہم نے ان کو خشکی میں جانوروں پر سوا کیا اور دریا میں کشتیوں پر سوار کیا، اور ان کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی جیسا کہ پالتو اور وحشی جانور، مَنْ بمعنی ما ہے یا اپنے حال پر ہے اور یہ فوقیت فرشتوں پر بھی شامل ہے اور مراد فضیلت جنس علی الجنس ہے، اور اس لئے اس کے افراد کی فضیلت لازم نہیں اسلئے کہ ملائکہ انبیاء کے علاوہ ہر بشر سے افضل ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَخبرنی، أَرَاْیتَکَ ، کاف حرف خطاب ہے نہ کہ اسم بلکہ فاعل مخاطب کی اسناد کی تاکید ہے لہٰذا اس کا کوئی محل اعراب نہیں ہے، اور ھذا، أرایتکَ کا مفعول اول ہے اور الذی کرّمْتَ ھذا کی صفت ہے اَرأیتکَ کا مفعول ثانی محذوف ہے اور وہ لِمَ کرّمْتَ عَلَیَّ ہے اس حذف پر صفت دلالت کر رہی ہے۔ قولہ : فضَّلْتَ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : کرّمْتَ کی تفسیر فضَّلْتَ سے کیوں کی ؟ جواب : اس لئے کہ تکریم کا صلہ علیٰ واقع نہیں ہوتا۔ قولہ : مُنْظَرًا، ای مُمَھّلاً ، اِذھب، ذھاب سے نہیں ہے جو المجئ کی ضد ہے، بلکہ اس کے معنی ہیں امض لشانک الذی اخترتہٗ یعنی جو تو نے ارادہ کیا ہے تو وہ کر گذر۔ قولہ : انتَ وھم یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ منھم میں ھم جمع غائب کی ضمیر ہے اور جزاء کم میں کم جمع حاضر کی، دونوں میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ اصل اِنَّ جھنم جزاءک وجزاءُھم تھا پھر مخاطب کا غائب پر غلبہ دیدیا، لہٰذا دونوں ضمیروں میں مخالفت کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : استفزز (استفعال) امر واحد مذکر حاضر، تو گھبرا لے۔ قولہ : لَاحْتنِکَنَّ (اِحتناک افتعال) میں ضرور ڈھانٹی لونگا، میں ضرور قابو میں کروں گا، میں ضرور لگام لگاؤں گا، صیغہ واحد متکلم مضارع بانون تاکید ثقیلہ۔ قولہ : لاستاصلنَّ میں پوری طرح بیخ کنی کردوں گا، جڑے سے اکھاڑ پھینکوں گا۔ قولہ : اَوْصَلکم۔ سوال : نجاکم کی تفسیر اوصلکم سے کیوں کی۔ جواب : چونکہ نجاکم کا صلہ الی نہیں آتا اور یہاں صلہ اِلیٰ واقع ہو رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے جس کی وجہ بتادی کہ نجاکم، اوصلکم کے معنی کو متضمن ہے، جس کا صلہ اِلیٰ آتا ہے۔ قولہ : الحصباء ای الحصاۃ۔ قولہ : بکفرکم اس میں اشارہ ہے کہ بما کفرتم میں ما مصدریہ ہے لہٰذا عدم عائد کا اعتراض واقع نہ ہوگا۔ قولہ : اعتدال الخلقِ ، اور اعتدال ہی کی وہ بات ہے جو ابن عباس ؓ نے ذکر کی ہے، کہ ہر حیوان منہ جھکا کر کھاتا ہے مگر انسان کھانے کی طرف منہ جھکانے کے بجائے کھانے کو منہ کی طرف اٹھاتا ہے۔ قولہ : المراد تفضیل الجنس، یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ مطلقا تمام بنی آدم مطلقاً تمام فرشتوں سے افضل ہیں۔ جواب : جنس بنی آدم کی جنس ملائکہ پر فضیلت مراد ہے یعنی خاص فرشتے عام انسانوں سے افضل ہیں نہ کہ خاص انسانوں سے مثلاً انبیاء سے۔ تنبیہ : اگر لفظ ” علیٰ کثیرٍ “ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ اعتراض ہی پیدا نہیں ہوگا۔ تفسیر و تشریح واستفزر۔۔۔۔ (الآیۃ) شیطانی آواز سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ گانے بجانے اور مزا میر اور لہو و لعب کی آوازیں یہی شیطان کی آوازیں ہیں جن کے ذریعہ وہ لوگوں کو حق سے دور و لاتعلق کرتا ہے (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مزامیر، مو سیقی اور رقص وسر ودسب حرام ہیں، آدم علیہ اصلا ۃ واسلام وابلیس کا قصہ سورة بقرہ، اعراف اور حجر میں گذر چکا ہے یہاں چوتھی مرتبہ آیا ہے، علاوہ ازیں سورة کہف، طہ اور سورة ص میں بھی اس کا ذکر آئیگا۔ ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ سے انکار کرتے وقت دو باتیں کہی تھیں، اولؔ یہ کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے، اور میں آگ کی مخلوق ہوں، آپ نے مٹی کو آگ پر فوقیت و فضیلت کیوں دیدی ؟ یہ امر الٰہی کے مقابلہ میں حکم کی حکمت معلوم کرنے کے متعلق سوال تھا جس کا کسی مامور کا حق نہیں ہوتا یہ سوال ہی قابل التفات نہیں تھا اسلئے کہ غلام کو آقا سے کسی حکم کی علت یا حکمت معلوم کرنے کا اختیار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے اس سوال کو ناقابل التفات سمجھ کر جواب نہیں دیا گیا دوسریؔ بات یہ ہے کہ فوقیت و فضیلت دینے کا حق اسی ذات کو ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کی تربیت کی ہو، دوسری بات یہ کہی تھی کہ اگر تاقیامت زندگی ملنے کی میری درخواست منظور کرلی گئی تو میں آدم (علیہ السلام) کی ساری اولاد کو بجز قدر قلیل کے گمراہ کر ڈالوں گا، حق تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ میرے مخلص بندوں پر تیرا قابو نہ چلے گا چاہے تو اپنا سارا الاؤ لشکر لے کر ان پر چڑھ دوڑے، باقی رہے غیر مخلص اگر وہ تیرے قابو میں آگئے تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو تیرا ہے، کہ عذاب جہنم میں دونوں گرفتار ہونگے شیطانی لاؤ لشکر کیلئے یہ ضروری نہیں کہ حقیقت میں اس کا سوار و پیاروں کا کوئی لشکر ہو یہ تو ایک محاورہ ہے جو پورا زور صرف کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ وشارکھم۔۔۔ والاولاد، لوگوں کے مال اور اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بیان فرمایا کہ اموال میں جو مال ناجائز اور حرام طریقوں سے حاصل ہو یا حرام کاموں میں صرف کیا جائے یہی شیطان کی اس میں شرکت ہے اور اولاد میں شیطان کی شرکت، اولاد کے حرام ہونے سے بھی ہے اور یہ بھی کہ اولاد کے مشرکانہ نام رکھے، مثلاً عبد العزیٰ ، پیر بخش، نبی بخش وغیرہ یا ان کی حفاظت کیلئے مشرکانہ رسوم ادا کرے یا ان کی پرورش کیلئے حرام ذرائع آمدنی اختیار کرے۔ ولقد کرمنا بنی آدم (الآیۃ) بنی آدم کا یہ شرف و فضل بہ حیثیت انسان کے ہر انسان کو حاصل ہے خواہ مومن ہو یا کافر، کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلہ میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے، جس طرح کی شکل و صورت، قدروقامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ کو عطا فرمائی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کو عطا نہیں فرمائی، جو عقل انسان کو دی گئی ہے جس کے ذریعہ اس نے اپنے آرام و راحت کیلئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں حیوان وغیرہ اس سے محروم ہیں۔
Top