Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ
: اطاعت کرے
اللّٰهَ
: اللہ
وَالرَّسُوْلَ
: اور رسول
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
مَعَ الَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے ساتھ
اَنْعَمَ
: انعام کیا
اللّٰهُ
: اللہ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مِّنَ
: سے (یعنی)
النَّبِيّٖنَ
: انبیا
وَالصِّدِّيْقِيْنَ
: اور صدیق
وَالشُّهَدَآءِ
: اور شہدا
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور صالحین
وَحَسُنَ
: اور اچھے
اُولٰٓئِكَ
: یہ لوگ
رَفِيْقًا
: ساتھی
اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ سب ساتھی۔
ایک اہم حقیقت وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ الخ اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ روئے سخن منافقین کی طرف ہی ہے اگرچہ خطاب کسی کو نہیں۔ انھیں کو سنا کر کہا جا رہا ہے کہ تمہیں اندازہ نہیں کہ تمہیں آج تک جن لوگوں کے ساتھ چلنے کا اتفاق ہوا ہے اور جن کی نسبتوں کو کسی طرح ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو اور جن کی رفاقتیں تمہارے لیے حاصل زندگی ہیں ‘ وہ کس طرح کے اور کس قماش کے لوگ ہیں ؟ ان میں ایک ایک آدمی مال پر جان دینے والا ‘ حبِّ جاہ کا مریض ‘ اپنی ذات کے گنبد میں بند اور اپنی ہی قوم کے حصار میں محدود رہنے والا ہے۔ ہر شخص کی اپنی اپنی عصبیتیں ہیں ‘ جنھیں وہ چھوڑنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ بظاہر نظر آنے والی رفاقتیں حقیقت میں مفادات کے بندھن ہیں۔ جیسے ہی یہ ٹوٹتے ہیں یا ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو تمام تعلقات دھرے رہ جاتے ہیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن دکھائی دیتے ہیں۔ تمہیں اگر اپنی مذہبی عصبیت اور قومی تفاخر نے اندھا نہیں کردیا تو تم ہر چیز اپنی نگاہوں سے دیکھ سکتے ہو۔ لیکن اسلام کی دعوت کے بعد جس گروہ اور قوم کے ساتھ تمہیں وابستہ ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے اور تمام رشتے توڑ کر جس نئے رشتے کو قبول کرنے کے لیے تمہیں ترغیب دی جارہی ہے تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان میں سے ایک ایک فرد کس سیرت و کردار کا حامل ہے اور اس قافلے کا ایک ایک راہی کس طرح اپنے دوسرے رفیقانِ سفر پر جان دیتا ہے۔ دنیا میں ان کی رفاقت بھی سب سے بڑی متاع ہے۔ لیکن آخرت میں ان کی رفاقت کے مقام و مرتبہ کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح پتھر اور لوہے سے رشتہ جوڑنے والا ہمیشہ ڈوبتا ہے اور تم موجودہ وابستگیوں کے سبب ڈوبتے جا رہے ہو اور جس طرح لکڑی سے رشتہ جوڑنے والا ہمیشہ تیرتا ہے اسلام اور مسلمانوں سے وابستگی دنیا کے خوفناک سمندر میں تیرنے کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے۔ اور آج جو لوگ اس سے وابستہ ہوچکے ہیں انھیں غور سے دیکھو کس طرح ان میں سے ایک ایک آدمی پارس بن چکا ہے اور کس طرح ایک ایک شخص بقعہ نور بن کر تاریکیوں میں روشنی کا سامان کر رہا ہے اور یہ پورا قافلہ روشنی کی قندیلوں کی طرح خود بھی روشنی میں سفر کر رہا ہے اور دوسرے لوگوں کے راستوں کو بھی روشن کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ چناچہ اسی دوسرے قافلے کی خبر اس آیت کریمہ میں دی گئی ہے کہ اس قافلے والوں کا بنیادی اثاثہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہے۔ جو شخص بھی چاہے وہ عربی ہو یا عجمی ‘ کالا ہو یا گورا ‘ اللہ اور رسول کی اطاعت میں شریک ہو کر اس قافلے کا رفیق بن جاتا ہے تو اس کی قسمت کو ایسے چار چاند لگ جاتے ہیں کہ اس کے آگے چلنے والے لوگ اللہ کے نبی ہوتے ہیں اور اس کے دائیں بائیں صدیقوں ‘ شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ ہر طرف سے اپنے آپ کو اس قدرمحفوظ پاتا ہے جس کا دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ رفاقت کہیں ٹوٹنے والی نہیں۔ یہ لوگ دنیا میں جیتے ہیں تو اکٹھے ‘ مرتے ہیں تو اکٹھے۔ آخرت میں رہیں گے تو تب بھی ایسے ہی عظیم لوگوں کا ساتھ ہوگا۔ ان میں سے انبیائِ کرام کے تعارف کی تو ضرورت نہیں۔ صدیق کا تعارف البتہ صدیق جس کی جمع صدیقین ہے فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا لغوی معنی نہایت راست باز اور راست گفتار ہے۔ اللہ کے مقاماتِ قرب میں سے اللہ کے نبیوں کے بعد یہ شائد سب سے بڑے مقام کا نام ہے۔ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں ھم الذین زکت فطرتہم و اعتدلت امزجتہم و صفت سرائرہم حتیٰ انہم یمیزون بین الحق والباطل والخیر والشر بمجرد عروضہ (صدیقین وہ لوگ ہیں جن کی فطرت اور جن کا باطن ہر گرد و غبار سے یوں پاک صاف ہوتا ہے کہ جب ان پر حق پیش کیا جاتا ہے تو بےساختہ اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ خیر و شر کے درمیان انھیں التباس نہیں ہوتا بلکہ جیسے نگاہ سیاہ وسفید کے درمیان بےتکلف امتیاز کرلیتی ہے اسی طرح وہ حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کرلیتے ہیں) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صداقت پسندی اور حق پرستی کے اس معیار پر ہوتے ہیں اور ان کی طبیعت اس قالب میں اس طرح ڈھل جاتی ہے کہ وہ جب بھی چلتے ہیں تو صاف اور سیدھے راستے پر اور جب بھی ساتھ دیتے ہیں تو حق و انصاف کا اور جس چیز کو حق کے خلاف پاتے ہیں اس کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ( رح) نے اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ صدیق کا مزاج رسول کی تربیت میں رہ کر رسول کے مزاج کا پرتو بن جاتا ہے۔ ایک مثال سے واضح کیا ہے۔ فرمایا اس کو یوں سمجھو کہ اللہ کے نبی قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہیں اور آئینہ میں ان کا عکس دکھائی دے رہا ہے۔ وہ عکس نبی نہیں بلکہ نبی کا عکس ہے۔ اور اگر اس عکس کی کوئی محسوس اور مجسم مثال دیکھنی ہو تو اسے صدیق کہا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے جس نے بھی کہا ٹھیک کہا ؎ صدیق عکس حسن کمال محمد است صدیق ہونے کا یہ مرتبہ یوں تو کئی صحابہ کو حاصل تھا ‘ لیکن صدیق اکبر صرف حضرت ابوبکر ( رض) ہی تھے۔ ان کی زندگی کے وہ شب و روز جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ گزرے اور وہ ماہ و سال جو آپ ( رض) نے بطور خلیفۃ الرسول ﷺ کے گزارے ‘ ان کا ایک ایک لمحہ آپ ( رض) کے اس مقام کی خبر دیتا ہے۔ آپ ( رض) کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی تو آپ ( رض) نے بےتأمل حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا۔ آپ ( رض) نے معراج کی خبر سنی تو بغیر کسی تردد کے اس کی تصدیق کی۔ معاہدہ حدیبیہ پر تمام صحابہ کرام کو دلی رنج پہنچا ‘ لیکن ایک آپ ( رض) تھے کہ آپ ( رض) کو کوئی تردد نہ تھا بلکہ آپ ( رض) نے حضرت عمر فاروق ( رض) کے سوال کرنے پر تیکھے انداز میں کہا تھا کہ ” بھلے آدمی حضور کے دامن سے وابستہ رہو ‘ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ ﷺ کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کرتے۔ “ اور دور خلافت میں آپ ( رض) کا ایک ایک قدم ‘ آپ ( رض) کے مقام و مرتبہ کا عکاس تھا۔ آپ ( رض) نے ایسے ایسے اقدامات بھی کیے کہ جلیل القدر صحابہ تک ان کی افادیت و حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ لیکن بارگاہِ نبوت ﷺ کے اس مجذوب کا ایک ایک فیصلہ ہم آہنگ تقدیر ثابت ہوا۔ آپ ( رض) کی زندگی کے حالات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صدیق اکبر کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے۔ اور ایک انسان ‘ انسان ہوتے ہوئے نبی کے بعد جس اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے اس اعلیٰ مقام کا حامل کس طرح کا شخص ہوتا ہے۔ شہید کا تعارف اس قافلے کا تیسرا اہم فرد شہید کہلاتا ہے ‘ جس کی جمع شہداء ہے۔ امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں الشہید فعیل بمعنی الفاعل وھو الذی یشہد بصحۃ دین اللہ تارۃ بالحجۃ والبیان واخری بالسیف والسنان و یقال للمقتول فی سبیل اللہ شہید من حیث انہ بذل نفسہ فی دین اللہ و شہادتہ لہ بانہ الحق و ماسواہ الباطل (شہید کا وزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ وہ شخص جو کبھی نور برہان اور قوت بیان سے اور کبھی شمشیر وسنان سے دین الٰہی کی حقانیت کی شہادت دے ‘ وہ شہید کہلاتا ہے۔ اور راہ حق میں قتل ہونے والے کو اسی مناسبت سے شہید کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی جان قربان کر کے دین کی حقانیت کی گواہی دی) ۔ انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز اس کی جان ہے۔ وہ ہر چیز کو جان کی حفاظت کے لیے قربان کردیتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس کی جان ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن جب اللہ کے دین کی حفاظت کا سوال درپیش ہو اور اللہ کے دین کی حقانیت ثابت کرنا پیش نظر ہو تو وہ اس کی خاطر جان دے کر یہ گواہی دیتا ہے کہ میں اپنی جان سے بھی زیادہ اللہ کے دین کو قیمتی متاع سمجھتا ہوں۔ اس کی خاطر سب کچھ لٹایا جاسکتا ہے۔ چناچہ یہ اپنی جان دے کر اللہ کے دین کے برحق ہونے کی ایک ایسی دلیل قائم کر جاتے ہیں جنھیں دنیا کی کوئی دلیل اور کوئی پر اپیگنڈہ غلط ثابت نہیں کرسکتا۔ بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را صالح سے کون مراد ہے ؟ اس قافلے کا چوتھا ہمسفر الصالح ہے جس کی جمع الصالحین ہے۔ صالح سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے خیالات اور عقائد میں ‘ اپنی نیت اور ارادوں میں اور اپنے اقوال و افعال میں راہ راست پر قائم ہوجائے اور جو زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی شریعت کی راہنمائی میں فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھے۔ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا (اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی) یہاں بظاہر رفیق کی جگہ رفقا کا لفظ آنا چاہیے تھا کیونکہ رفقائے سفر چار قسموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رفیق ان الفاظ میں سے ہے جو واحد ‘ جمع اور جنس سب معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تو یہاں رفیق اگرچہ واحد ہے لیکن معنی میں رفقا کے ہے۔ جس شخص کو دنیا میں اور آخرت میں ایسے رفیقانِ سفر ملیں یا وہ ایسے عظیم قافلہ کا ایک فرد بننے کی سعادت حاصل کرسکیے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے شانِ نزول دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے آدمی بہترین رفیقہ سفر اور بہترین احباب کا انتخاب کرتا ہے اور جس کو یہ نعمتیں میسر آجاتی ہیں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی خوش نصیب آدمی ہو۔ اسی طرح آخرت کی ابدی زندگی میں بھی یقینا ہر صالح آدمی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں ایسے عظیم لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع عطا فرمائے۔ پیغمبر تک یہ دعا کرتے رہے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا سورة یوسف میں موجود ہے تَوَفَّنِیْ مُسْلِماً وَاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَاس لیے صحابہ کرام بھی انتہائی خواہش رکھتے تھے کہ جس طرح ہمیں دنیا میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور خدمت کی سعادت میسر ہے کاش جنت میں بھی یہ نعمت ہمیں میسر آئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ثوبان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔ آنحضرت ﷺ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا ” یا رسول اللہ ! کوئی جسمانی تکلیف نہیں ‘ نہ کوئی گھر کی پریشانی ہے۔ البتہ ایک سوچ ہے جو مجھے چین نہیں لینے دیتی۔ وہ یہ کہ جب آپ ﷺ کا رخ زیبا آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا اندھیر ہوگئی۔ میں فوراً زیارت کے لیے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں ‘ لیکن مجھے رہ رہ کے یہ خیال آتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے جنت کی نعمت سے بہرہ ور فرمایا تو وہاں تو آپ ﷺ اپنے مقام بلند میں ہوں گے اور یہ عاجز جنت کے کسی گوشہ میں پڑا ہوگا۔ وہاں اگر یہ آنکھیں آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکیں تو جنت میں بھی کیا جی لگے گا۔ جنت تو حقیقت میں وہ ہے جس میں محبوب کا دیدار نصیب ہو۔ یہ وہ سوچ ہے جو مجھے ہر وقت پریشان رکھتی ہے۔ “ حضور ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ لیکن کچھ دیر بعد جبرائیل امین یہ آیت کریمہ لے کر نازل ہوئے اور اس میں امت کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے اطاعت کا رشتہ رکھنے والے انشاء اللہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی معیت و وصال سے محروم نہیں رہیں گے۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ حضرت کعب بن اسلمی ( رض) اکثر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہتے تھے۔ ایک رات تہجد کے وقت آپ ﷺ کی خدمت میں وضو کا پانی ‘ مسواک اور دیگر ضروریات پیش کیں تو آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا ” مانگو کیا مانگتے ہو ؟ “ کعب اسلمی ( رض) نے عرض کیا ” حضور ! میں جنت میں آپ ﷺ کی صحبت چاہتا ہوں۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” اور کچھ ؟ “ تو انھوں نے عرض کیا ” اور کچھ نہیں۔ “ اس پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ” اگر تم جنت میں میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو اَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوُدِ (تم نوافل کی کثرت سے میری مدد کرو) انشاء اللہ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا “۔ اور بھی ایسے خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ حدیث میں ملتا ہے جنھوں نے آنحضرت ﷺ سے اس سعادت کے حصول کی خواہش کی۔ آخری آیت کریمہ میں فرمایا کہ ایمان و عمل کا سرمایہ جتنا کسی خوش نصیب کے پاس ہوگا وہ یقینا اتنا ہی بہتر سے بہتر اجر وثواب سے نوازا جائے گا ‘ لیکن انبیاء ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین کی معیت اور رفاقت ‘ یہ اللہ کا وہ فضلِ خاص ہے جسے وہ چاہے گا عطا فرمائے گا۔ اور اللہ کا علم یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ کون خوش نصیب اس سعادت سے نوازا جانے کے قابل ہے۔ اس لیے اللہ اور رسول کی اطاعت اور محبت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اس سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ یا اللہ ! ہم مقدور بھر آپ کی اور آپ کے رسول پاک کی اطاعت و محبت کا حق ادا کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ لیکن ہمیں اس پر بھروسہ نہیں۔ ہم آپ کے فضل کے امیدوار ہیں۔ اگر آپ نے کرم فرمایا تو بخشش بھی ہوجائے گی اور متذکرہ بالا صحبت مبارک سے بھی نوازے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
Top