Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ : اطاعت کرے اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ مَعَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے ساتھ اَنْعَمَ : انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ : سے (یعنی) النَّبِيّٖنَ : انبیا وَالصِّدِّيْقِيْنَ : اور صدیق وَالشُّهَدَآءِ : اور شہدا وَالصّٰلِحِيْنَ : اور صالحین وَحَسُنَ : اور اچھے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ رَفِيْقًا : ساتھی
اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ سب ساتھی۔
ایک اہم حقیقت وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ الخ اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ روئے سخن منافقین کی طرف ہی ہے اگرچہ خطاب کسی کو نہیں۔ انھیں کو سنا کر کہا جا رہا ہے کہ تمہیں اندازہ نہیں کہ تمہیں آج تک جن لوگوں کے ساتھ چلنے کا اتفاق ہوا ہے اور جن کی نسبتوں کو کسی طرح ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو اور جن کی رفاقتیں تمہارے لیے حاصل زندگی ہیں ‘ وہ کس طرح کے اور کس قماش کے لوگ ہیں ؟ ان میں ایک ایک آدمی مال پر جان دینے والا ‘ حبِّ جاہ کا مریض ‘ اپنی ذات کے گنبد میں بند اور اپنی ہی قوم کے حصار میں محدود رہنے والا ہے۔ ہر شخص کی اپنی اپنی عصبیتیں ہیں ‘ جنھیں وہ چھوڑنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ بظاہر نظر آنے والی رفاقتیں حقیقت میں مفادات کے بندھن ہیں۔ جیسے ہی یہ ٹوٹتے ہیں یا ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو تمام تعلقات دھرے رہ جاتے ہیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن دکھائی دیتے ہیں۔ تمہیں اگر اپنی مذہبی عصبیت اور قومی تفاخر نے اندھا نہیں کردیا تو تم ہر چیز اپنی نگاہوں سے دیکھ سکتے ہو۔ لیکن اسلام کی دعوت کے بعد جس گروہ اور قوم کے ساتھ تمہیں وابستہ ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے اور تمام رشتے توڑ کر جس نئے رشتے کو قبول کرنے کے لیے تمہیں ترغیب دی جارہی ہے تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان میں سے ایک ایک فرد کس سیرت و کردار کا حامل ہے اور اس قافلے کا ایک ایک راہی کس طرح اپنے دوسرے رفیقانِ سفر پر جان دیتا ہے۔ دنیا میں ان کی رفاقت بھی سب سے بڑی متاع ہے۔ لیکن آخرت میں ان کی رفاقت کے مقام و مرتبہ کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح پتھر اور لوہے سے رشتہ جوڑنے والا ہمیشہ ڈوبتا ہے اور تم موجودہ وابستگیوں کے سبب ڈوبتے جا رہے ہو اور جس طرح لکڑی سے رشتہ جوڑنے والا ہمیشہ تیرتا ہے اسلام اور مسلمانوں سے وابستگی دنیا کے خوفناک سمندر میں تیرنے کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے۔ اور آج جو لوگ اس سے وابستہ ہوچکے ہیں انھیں غور سے دیکھو کس طرح ان میں سے ایک ایک آدمی پارس بن چکا ہے اور کس طرح ایک ایک شخص بقعہ نور بن کر تاریکیوں میں روشنی کا سامان کر رہا ہے اور یہ پورا قافلہ روشنی کی قندیلوں کی طرح خود بھی روشنی میں سفر کر رہا ہے اور دوسرے لوگوں کے راستوں کو بھی روشن کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ چناچہ اسی دوسرے قافلے کی خبر اس آیت کریمہ میں دی گئی ہے کہ اس قافلے والوں کا بنیادی اثاثہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہے۔ جو شخص بھی چاہے وہ عربی ہو یا عجمی ‘ کالا ہو یا گورا ‘ اللہ اور رسول کی اطاعت میں شریک ہو کر اس قافلے کا رفیق بن جاتا ہے تو اس کی قسمت کو ایسے چار چاند لگ جاتے ہیں کہ اس کے آگے چلنے والے لوگ اللہ کے نبی ہوتے ہیں اور اس کے دائیں بائیں صدیقوں ‘ شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ ہر طرف سے اپنے آپ کو اس قدرمحفوظ پاتا ہے جس کا دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ رفاقت کہیں ٹوٹنے والی نہیں۔ یہ لوگ دنیا میں جیتے ہیں تو اکٹھے ‘ مرتے ہیں تو اکٹھے۔ آخرت میں رہیں گے تو تب بھی ایسے ہی عظیم لوگوں کا ساتھ ہوگا۔ ان میں سے انبیائِ کرام کے تعارف کی تو ضرورت نہیں۔ صدیق کا تعارف البتہ صدیق جس کی جمع صدیقین ہے فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا لغوی معنی نہایت راست باز اور راست گفتار ہے۔ اللہ کے مقاماتِ قرب میں سے اللہ کے نبیوں کے بعد یہ شائد سب سے بڑے مقام کا نام ہے۔ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں ھم الذین زکت فطرتہم و اعتدلت امزجتہم و صفت سرائرہم حتیٰ انہم یمیزون بین الحق والباطل والخیر والشر بمجرد عروضہ (صدیقین وہ لوگ ہیں جن کی فطرت اور جن کا باطن ہر گرد و غبار سے یوں پاک صاف ہوتا ہے کہ جب ان پر حق پیش کیا جاتا ہے تو بےساختہ اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ خیر و شر کے درمیان انھیں التباس نہیں ہوتا بلکہ جیسے نگاہ سیاہ وسفید کے درمیان بےتکلف امتیاز کرلیتی ہے اسی طرح وہ حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کرلیتے ہیں) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صداقت پسندی اور حق پرستی کے اس معیار پر ہوتے ہیں اور ان کی طبیعت اس قالب میں اس طرح ڈھل جاتی ہے کہ وہ جب بھی چلتے ہیں تو صاف اور سیدھے راستے پر اور جب بھی ساتھ دیتے ہیں تو حق و انصاف کا اور جس چیز کو حق کے خلاف پاتے ہیں اس کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ( رح) نے اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ صدیق کا مزاج رسول کی تربیت میں رہ کر رسول کے مزاج کا پرتو بن جاتا ہے۔ ایک مثال سے واضح کیا ہے۔ فرمایا اس کو یوں سمجھو کہ اللہ کے نبی قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہیں اور آئینہ میں ان کا عکس دکھائی دے رہا ہے۔ وہ عکس نبی نہیں بلکہ نبی کا عکس ہے۔ اور اگر اس عکس کی کوئی محسوس اور مجسم مثال دیکھنی ہو تو اسے صدیق کہا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے جس نے بھی کہا ٹھیک کہا ؎ صدیق عکس حسن کمال محمد است صدیق ہونے کا یہ مرتبہ یوں تو کئی صحابہ کو حاصل تھا ‘ لیکن صدیق اکبر صرف حضرت ابوبکر ( رض) ہی تھے۔ ان کی زندگی کے وہ شب و روز جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ گزرے اور وہ ماہ و سال جو آپ ( رض) نے بطور خلیفۃ الرسول ﷺ کے گزارے ‘ ان کا ایک ایک لمحہ آپ ( رض) کے اس مقام کی خبر دیتا ہے۔ آپ ( رض) کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی تو آپ ( رض) نے بےتأمل حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا۔ آپ ( رض) نے معراج کی خبر سنی تو بغیر کسی تردد کے اس کی تصدیق کی۔ معاہدہ حدیبیہ پر تمام صحابہ کرام کو دلی رنج پہنچا ‘ لیکن ایک آپ ( رض) تھے کہ آپ ( رض) کو کوئی تردد نہ تھا بلکہ آپ ( رض) نے حضرت عمر فاروق ( رض) کے سوال کرنے پر تیکھے انداز میں کہا تھا کہ ” بھلے آدمی حضور کے دامن سے وابستہ رہو ‘ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ ﷺ کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کرتے۔ “ اور دور خلافت میں آپ ( رض) کا ایک ایک قدم ‘ آپ ( رض) کے مقام و مرتبہ کا عکاس تھا۔ آپ ( رض) نے ایسے ایسے اقدامات بھی کیے کہ جلیل القدر صحابہ تک ان کی افادیت و حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ لیکن بارگاہِ نبوت ﷺ کے اس مجذوب کا ایک ایک فیصلہ ہم آہنگ تقدیر ثابت ہوا۔ آپ ( رض) کی زندگی کے حالات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صدیق اکبر کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے۔ اور ایک انسان ‘ انسان ہوتے ہوئے نبی کے بعد جس اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے اس اعلیٰ مقام کا حامل کس طرح کا شخص ہوتا ہے۔ شہید کا تعارف اس قافلے کا تیسرا اہم فرد شہید کہلاتا ہے ‘ جس کی جمع شہداء ہے۔ امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں الشہید فعیل بمعنی الفاعل وھو الذی یشہد بصحۃ دین اللہ تارۃ بالحجۃ والبیان واخری بالسیف والسنان و یقال للمقتول فی سبیل اللہ شہید من حیث انہ بذل نفسہ فی دین اللہ و شہادتہ لہ بانہ الحق و ماسواہ الباطل (شہید کا وزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ وہ شخص جو کبھی نور برہان اور قوت بیان سے اور کبھی شمشیر وسنان سے دین الٰہی کی حقانیت کی شہادت دے ‘ وہ شہید کہلاتا ہے۔ اور راہ حق میں قتل ہونے والے کو اسی مناسبت سے شہید کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی جان قربان کر کے دین کی حقانیت کی گواہی دی) ۔ انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز اس کی جان ہے۔ وہ ہر چیز کو جان کی حفاظت کے لیے قربان کردیتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس کی جان ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن جب اللہ کے دین کی حفاظت کا سوال درپیش ہو اور اللہ کے دین کی حقانیت ثابت کرنا پیش نظر ہو تو وہ اس کی خاطر جان دے کر یہ گواہی دیتا ہے کہ میں اپنی جان سے بھی زیادہ اللہ کے دین کو قیمتی متاع سمجھتا ہوں۔ اس کی خاطر سب کچھ لٹایا جاسکتا ہے۔ چناچہ یہ اپنی جان دے کر اللہ کے دین کے برحق ہونے کی ایک ایسی دلیل قائم کر جاتے ہیں جنھیں دنیا کی کوئی دلیل اور کوئی پر اپیگنڈہ غلط ثابت نہیں کرسکتا۔ بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را صالح سے کون مراد ہے ؟ اس قافلے کا چوتھا ہمسفر الصالح ہے جس کی جمع الصالحین ہے۔ صالح سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے خیالات اور عقائد میں ‘ اپنی نیت اور ارادوں میں اور اپنے اقوال و افعال میں راہ راست پر قائم ہوجائے اور جو زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی شریعت کی راہنمائی میں فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھے۔ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا (اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی) یہاں بظاہر رفیق کی جگہ رفقا کا لفظ آنا چاہیے تھا کیونکہ رفقائے سفر چار قسموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رفیق ان الفاظ میں سے ہے جو واحد ‘ جمع اور جنس سب معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تو یہاں رفیق اگرچہ واحد ہے لیکن معنی میں رفقا کے ہے۔ جس شخص کو دنیا میں اور آخرت میں ایسے رفیقانِ سفر ملیں یا وہ ایسے عظیم قافلہ کا ایک فرد بننے کی سعادت حاصل کرسکیے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے شانِ نزول دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے آدمی بہترین رفیقہ سفر اور بہترین احباب کا انتخاب کرتا ہے اور جس کو یہ نعمتیں میسر آجاتی ہیں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی خوش نصیب آدمی ہو۔ اسی طرح آخرت کی ابدی زندگی میں بھی یقینا ہر صالح آدمی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں ایسے عظیم لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع عطا فرمائے۔ پیغمبر تک یہ دعا کرتے رہے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا سورة یوسف میں موجود ہے تَوَفَّنِیْ مُسْلِماً وَاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَاس لیے صحابہ کرام بھی انتہائی خواہش رکھتے تھے کہ جس طرح ہمیں دنیا میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور خدمت کی سعادت میسر ہے کاش جنت میں بھی یہ نعمت ہمیں میسر آئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ثوبان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔ آنحضرت ﷺ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا ” یا رسول اللہ ! کوئی جسمانی تکلیف نہیں ‘ نہ کوئی گھر کی پریشانی ہے۔ البتہ ایک سوچ ہے جو مجھے چین نہیں لینے دیتی۔ وہ یہ کہ جب آپ ﷺ کا رخ زیبا آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا اندھیر ہوگئی۔ میں فوراً زیارت کے لیے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں ‘ لیکن مجھے رہ رہ کے یہ خیال آتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے جنت کی نعمت سے بہرہ ور فرمایا تو وہاں تو آپ ﷺ اپنے مقام بلند میں ہوں گے اور یہ عاجز جنت کے کسی گوشہ میں پڑا ہوگا۔ وہاں اگر یہ آنکھیں آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکیں تو جنت میں بھی کیا جی لگے گا۔ جنت تو حقیقت میں وہ ہے جس میں محبوب کا دیدار نصیب ہو۔ یہ وہ سوچ ہے جو مجھے ہر وقت پریشان رکھتی ہے۔ “ حضور ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ لیکن کچھ دیر بعد جبرائیل امین یہ آیت کریمہ لے کر نازل ہوئے اور اس میں امت کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے اطاعت کا رشتہ رکھنے والے انشاء اللہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی معیت و وصال سے محروم نہیں رہیں گے۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ حضرت کعب بن اسلمی ( رض) اکثر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہتے تھے۔ ایک رات تہجد کے وقت آپ ﷺ کی خدمت میں وضو کا پانی ‘ مسواک اور دیگر ضروریات پیش کیں تو آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا ” مانگو کیا مانگتے ہو ؟ “ کعب اسلمی ( رض) نے عرض کیا ” حضور ! میں جنت میں آپ ﷺ کی صحبت چاہتا ہوں۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” اور کچھ ؟ “ تو انھوں نے عرض کیا ” اور کچھ نہیں۔ “ اس پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ” اگر تم جنت میں میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو اَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوُدِ (تم نوافل کی کثرت سے میری مدد کرو) انشاء اللہ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا “۔ اور بھی ایسے خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ حدیث میں ملتا ہے جنھوں نے آنحضرت ﷺ سے اس سعادت کے حصول کی خواہش کی۔ آخری آیت کریمہ میں فرمایا کہ ایمان و عمل کا سرمایہ جتنا کسی خوش نصیب کے پاس ہوگا وہ یقینا اتنا ہی بہتر سے بہتر اجر وثواب سے نوازا جائے گا ‘ لیکن انبیاء ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین کی معیت اور رفاقت ‘ یہ اللہ کا وہ فضلِ خاص ہے جسے وہ چاہے گا عطا فرمائے گا۔ اور اللہ کا علم یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ کون خوش نصیب اس سعادت سے نوازا جانے کے قابل ہے۔ اس لیے اللہ اور رسول کی اطاعت اور محبت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اس سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ یا اللہ ! ہم مقدور بھر آپ کی اور آپ کے رسول پاک کی اطاعت و محبت کا حق ادا کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ لیکن ہمیں اس پر بھروسہ نہیں۔ ہم آپ کے فضل کے امیدوار ہیں۔ اگر آپ نے کرم فرمایا تو بخشش بھی ہوجائے گی اور متذکرہ بالا صحبت مبارک سے بھی نوازے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
Top