Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ
: اطاعت کرے
اللّٰهَ
: اللہ
وَالرَّسُوْلَ
: اور رسول
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
مَعَ الَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے ساتھ
اَنْعَمَ
: انعام کیا
اللّٰهُ
: اللہ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مِّنَ
: سے (یعنی)
النَّبِيّٖنَ
: انبیا
وَالصِّدِّيْقِيْنَ
: اور صدیق
وَالشُّهَدَآءِ
: اور شہدا
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور صالحین
وَحَسُنَ
: اور اچھے
اُولٰٓئِكَ
: یہ لوگ
رَفِيْقًا
: ساتھی
اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگوں کا ساتھی ہوا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور وہ نبی ہیں ، صدیق ہیں ، شہید ہیں ، نیک اور راست باز انسان ہیں اور ایسے ساتھی کیا ہی اچھے ساتھی ہیں (اگر کسی کو میسر آئیں)
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کا اصل ثمرہ : 123: جو لوگ سب سے کٹ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کو اللہ کے انعام یافتہ بندوں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کی معیت ورفاقت حاصل ہوتی ہے اور کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اس پاک گروہ کی معیت ورفاقت حاصل ہو۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ اس فضل خاص ہے اور اللہ اس فضل خاص کے مستحق بندوں سے بیخبر نہیں ہے جو لوگ اس فضل کے حاصل کرنے کے لئے ہجرت اور جہاد کی بازیاں کھیلیں گے وہ مطمئن رہیں کہ اللہ ان کی جاں بازیوں سے اچھی طرح باخبر ہے اور کے لئے خاص انعامات رکھے گئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ان تمام چیزوں پر عمل کریں جن کے کرنے کا حکم اللہ نے اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے اور ان تمام چیزوں سے پرہیز کریں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے تو عمل کے اعتبار سے ان کے مختلف درجات ہوں گے اور درجہ کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ جنت کے مقامات عالیہ میں جگہ عطافرمائیں گے اور دوسرے درجہ کے لوگوں کو ان کے ساتھ جگہ عطافرمائیں گے جو انبیاء کرام کے بعد ہیں جن کو صدیقین کہا جاتا ہے یعنی وہ اجلہ صحابہ کرام جنہوں نے بغیر کسی جھجھک اور مخالفت کے اول ہی روز کو ایمان کی دعوت سنی تو اس کو قبول کرلیا جیسے ابوبکر صدیق ؓ پھر تیسرے درجہ کے حضراتشہداء کے ساتھ ہوں گے۔ شہداء وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان اور مال قربان کردیا پھر چوتھے درجہ کے حضرات صلحاء کے ساتھ ہوں گے اور صلحاء وہ لوگ ہیں جو اپنے ظاہر و باطن میں اعمال صالحہ کے پابند ہیں اور اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ انبیاء کرام سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سچائی کے وہ تمام پیغامبر ہیں جو مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں پیدا ہوتے رہے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت سے حکم الٰہی کے مطابق نوع انسانی کو خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت دی تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اعظم و آخر ﷺ کو مبعوث فرما کر نبوت کا دروازہ بند کردیا اور اب تا قیامت آپ ﷺ ہی کی دعوت جاری وساری رہے گی۔ صدیق اسے کہتے ہی جس میں سچائی کی روح غالب ہو یعنی ایسا انسان جو سچائی سے فطری مناسبت رکھتا ہو اور اسے دیکھتے ہی پہچان لیتا اور قبول کرلیتا ہو۔ شہید کے معنی ہیں گواہی دینے والا یعنی ایسا انسان جو اپنے قول و عمل سے سچائی کا اعلان کرنے والا ہو اور دنیا میں اس کے لئے شہادت وحجت قائم کر دے۔ صالحین سے مقصود وہ تمام انسان ہیں جو اپنے اعتقاد و عمل میں نیک اور راست باز ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرنے والے ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور مقبول ہیں جن کے چار درجے بتلائے گئے ہیں۔ انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین۔ اس آیت کریمہ کو کچھ لوگوں نے نبوت کے جاری ہونے کے لئے دلیل بنایا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح آج بھی ایک انسان نیک اعمال کر کے صالحین میں شمار ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو کر اشہداء میں اور ہر معاملہ میں سچ بول کر سچائی کو مان کر اور سچائی کا ساتھ دے کر صالحین میں شمار ہو سکتا ہے اسی طرح ترقی کرتے وہ نبی بن کر انبیاء میں بھی داخل ہو سکتا ہے حالانکہ یہ لوگ اس بات کو اچھای طرح جاتنے ہیں کہ نبوت و رسالت کسبی چیز نہیں کہ ایک انسان محنت کر کے اس عہدہ کو حاصل کرلے بلکہ یہ خالصتہ وہبی یا عطائی چزا تھی جس کے قیامت تک ختم کردینے کا اعلان الٰہی موجود ہے پھر اللہ تعالیٰ کے بند کئے ہوئے دروازہ کو کھول سکے ایسی بات وہ شخص تو نہیں کہہ سکتا جس کے دل میں ایمان نام کی کوئی شے موجود ہو اور جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو اس کی زبان کچھ کہے اس کا اعتبار کیا ؟ وقدا کطا میں استدل بھذہ الا یہ علٰی بقاء النبوۃ مطلقۃ کانت اور مقیدۃ لان اللہ قد سہد بھا بھا وخوخ تھا وختما قولا منہ وفلا الٰی یوم لاقیماہ (ایا للسائلین ص 227 الحافط عنایت اللہ ﷺ پھر قرآن کریم میں اس آیت کے اندر یہ بات بیان فرما دی گئی اور اس کی ترتیب اس طرح رکھی کہ اس بات کا کسی کو شبہ ہی پیدا نہ وہو سکے کیونکہ عطائی اور روہبی چیز کو سب سے پہلے فرمایا تاکہ حاصل کرنے اور کمانے کا مفہوم اس سے پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی نبوت ، کتاب اور حکمت کا ذکر فرمایا وہاں ” اٰتَیْنَا “ ” اٰتَیْنٰھُمْ “ ” اٰتَاِنُی “ ُٰئوتِیْہِ “ ” جَعَلْنَا “ جَعَلْنِیْ “ ” اَرْ سَلْنَا “ ” اَرْسَلَنِیْ “ ” اَرْسَلْنٰھُمْ “ اور ” اَنْزَلْنا “ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے۔ کیا حاصل کرنے اور عطا کئے جانے یا دیئے جا نے میں کوئی فرق نہیں ؟ کیوں نہیں اس فرق کو تو بچے بھی جانتے ہیں لیکن جس کو غرض نے اندھا کردیا ہو ، وہ کیا سمجھے ؟ ڈوبنے والا ہاتھ پائوں مارتا ہے کہ شاید کوئی تنکا ہی سہارا بن جائے ؟ لیکن کبھی کوئی تنکے کے سہارے بچ بھی نکلا ؟ پھر جس کو اللہ غرق کرنا چاہے اس کون بچا سکتا ہے۔ یہ اللہ کا غرق کرنا کیا ہے ؟ اس کے قانون کا مطالعہ کرو بات خود بخود واضح ہوجائے گی۔ اس طرح ” ہونے “ اور ” ساتھ ہونے “ میں بھی بہت بڑا فرق ہے اور ہر آدمی اس کو سمجھتا ہے جس کو اللہ نے عقل و فکر دی ہے وہ ان باتوں میں غور کرتا ہے۔ قرآن کریم ” مَعَ الَّذِیْنَ “ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے “ کے الفاظ نے اس بحث کو بالکل بند کردیا ہے جو خواہ مخواہ چھیڑ دی گئی اور یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ چھیڑ چھاڑ کرنے والے شرارتی ذہن کے لوگ کبھی شرارت سے باز نہیں آتے۔ باب نبوت کے بند ہونے کے بعد اس کو کھٹکھٹا نے والے شرارتی نہیں تو اور کیا ہیں ؟ زیر نظر آیت ایک خاص واقعہ کی بناء پر نازل ہوئی جس کو امام تفسیر حافظ ابن کثیر (رح) نے متعدد اسانید سے نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضر عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز ایک صحابی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے دل میں آپ ﷺ کی محبت جان سے بھی زیادہ ہے ، اپنی بیوی سے بھی ، اپنی اولاد سے بھی ، بعض اوقات میں اپنے گھر میں بےچین رہتا ہوں یہاں تک کہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کی زیارت کرلوں تب سکون ہوتا ہے ، اب مجھے فکر ہے کہ جب اس دنیا سے آپ ﷺ کی وفا ہوجائے اور مجھے بھی موت آجائے گی تو میں جانتا ہون کہ آپ ﷺ جنت میں انبیاء کے ساتھ درجات عالیہ میں ہوں گے اور مجھے اول تو یہ معلوم نہیں کہ جنت میں پہنچوں گا بھی یا نہیں ؟ اگر پہنچ بھی گیا تو میرا درجہ آپ ﷺ سے بہت نیچے ہوگا ، میں وہاں آپ ﷺ کی زیارت نہ کرسکوں گا تو مجھے کیسے صبر آئے گا ؟ آنحضرت ﷺ نے ان کا کلام سن کر کچھ جواب نہ دیا ، یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ نازل ہوگئی ” مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ “ اس وقت آنحضرت ﷺ نے ان کو بشارت سنادی کہ اطاعت گزاروں کو جنت میں انبیاء اور صدیقین اور شہدا اور صالحین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملتا رہے گا ، یعنی درجات جنت میں تفاضل اور اعلیٰ ادنی۔۔ ہونے کے باوجود ملاقات و مجالست کے موقع ملیں گے۔ جنت میں ملاقات کی چند صورتیں : جس کی ایک صورت یہ بھی ہوگی کہ اپنی جگہ سے ایک دوسرے کو دیکھیں گے جیسا کہ موطاء امام ملک (رح) میں بروایت اور سعید خدری ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت اپنی کھڑکیوں میں اپنے سے اوپر کے طباقات والوں کو دیکھیں گے جیسے دنیا تم ستاروں کو دیکھتے ہو۔ اور یہ بھی صورت ہوگی کہ درجارت میں ملاقات کے لئے آیا کریں گے ، جیسا ابن جریر نے بروایت ربیع نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا کہ اونچے درجات والے نیچے درجات کی طرف اترکر آیا کریں گے اور ان کے تھ ملاقات اور مجالست ہوا کرے گی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نیچے کے درجات والوں کو ملاقات کے لئے اعلیٰ درجات میں جانے کی اجازت ہو ، اس آیت کی بناء پر رسول کریم ﷺ نے بہت سے لوگوں کو جنت میں اپنے ساتھ رہنے کی بشارت دی۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت کعب بھی اسلمی ؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ گزارتے تھے ، ایک رات تہجد کے وقت کعب اسلمی ؓ نے آنحضرت ﷺ کے لئے وضو کا پانی اور مسواک وغیرہ ضروریات لا کر رکھیں تو آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا : مانگو کیا مانگتے ہو ؟ کعب اسلمی ؓ نے عرض کیا ، میں جنت میں آپ ﷺ کی صحبت چاہتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا اور کچھ ؟ تو انہوں نے عرض کیا اور کچھ نہیں ، اس پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم جنت میں میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ” اعنی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود “ یعنی تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا لیکن اس میں تم بھی میری مدد اس طرح کرو کہ کثرت سے سجدے کیا کرو ، یعنی نوافل کی کثرت کرو۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں اس بات کی شہادت دے چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور میں پانچ وقت کی نماز کا بھی پابند ہون اور زکوۃ بھی ادا کرتا ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتا ہوں یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے وہ انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ، بشر طی کہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرے۔ اسی طرح ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : التاجر الصدوق الا مین مع النبیین والصدیقین والشھداء ” یعنی وہ بیوپاری جو سچا اور امانت دار ہو ، انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ “ قرب کی شرط محبت ہے : رسول کریم ﷺ کی صحبت اور رفاقت آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرنے سے حاصل ہوگی ، چناچہ صحیح بخاری میں طرق متواترر کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑھی جماعت سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا جو کسی جماعت سے محبت اور تعلق رکھتا ہے مگر عمل میں ان کے درجہ کو نہیں پہنچا ، آپ ﷺ نے فرمایا العرأ مع من احب ” یعنی محشر می ہر شخص اس کے ساتھ ہوگا جس اس کو محبت ہوے۔ “ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کو دنیا میں کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس حدیث سے ، کیونکہ اس حدیث نے ان کو یہ بشارت دے دی کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والے محشر اور جنت میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گے۔ صدیقین کی تعریف قرآن کریم میں : یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں سمجھتے بلکہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” جو لوگ روز جزاء کو برح مانتے ہیں اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ (المعارج : 70:26 , 27) ایک جگہ ارشا فرمایا : ” ایمان والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں کی یہ سب کچھ اس لئے ہوا اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے۔ “ (الاحزاب : 33:24 , 23) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی سچے لوگ ہیں۔ “ (الحجرات : 49:15) ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : ” یہ مال ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کئے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ ہیں ، یہی راست باز لوگ ہیں ۔ “ (الحشر : 59:8) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اللہ فرمائے گا آج وہ دن ہے کہ سچے انسانوں کو ان کی سچائی کام آئے گی ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں۔ “ (المائدہ : 5:119) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، آسمانی کتابوں پر اللہ کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ کی محبت کی راہ میں اپنا مال ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور سائلوں کو دیت ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں ، جب قول وقرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کر کے رہتے ہیں ، تنگی ومصیبت کی گھڑی ہو یا خوف وہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے ہوتے ہیں بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے ہیں۔ “ (البقرۃ : 2:177) شاہدین کی تعریف قرآن کریم میں : فرمایا جو لوگ اللہ کی طرف سے دلیل وحجت پر ہیں اور انہوں نے راہ حقیقت پالی ہے اور ان کے پاس اس بات کی دلیل وگواہی بھی موجود ہے جس کو وہ ایمان وایقان سے مان چکے ہیں وہ ان مغرورین دنیا کی طرح نہیں ہوسکتے۔ ان کی راہ ہدایت الٰہی کی رہ ہے اور ہدایت الٰہی کی کا مایبی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل ہیں یعنی وجدان وعقل کا فیصلہ اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اللہ کی طرف سے اغای ہو یعنی اللہ کی وحی اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سرتاپا رحمت آچکی ہو اور اس کی تصدیق کر رہ ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں ؟ “ (ھود : 11:17) ایک جگہ فرمایا : ” مسلمانو ! ہم نے تمہیں نیک ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تمام انسانوں کے لئے سچائی کی گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لئے اللہ کا رسول گواہی دینے والا ہو۔ “ (البقرۃ : 2:143) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جو لوگ اللہ اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپن رب کے نزدیک صدیق شہید ہیں ، ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔ “ (الحدید :57:19) ایک جگہ ارشا فرمایا : “ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرا ان کریم میں بھی تمہارے یہی نام ہے تاکہ رسول تم پر گواہ اور تم لوگوں پر گواہ۔ “ (الحجرات : 49:15) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! ہم نے تہمین بھیجا ہے گواہ بنا کر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ “ (الاحزاب : 33:45) نبی کو گواہ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں۔ ایک قومی شہادت دوسرے عملی شہادت اور تیسرے اخروی شہادت۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جس روز ہم امت میں نہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے جو ان کے اوپر گواہی دے گا اے پیغمبر اسلام تمہیں ان لوگوں کی حیثیت سے لائیں گے۔ “ (النحل : 12:89) صالحین کی تعریف قرآن کریم میں : فرمایا جو لوگ ایمان و عمل کی سچائی رکھتے ہیں ضروری ہے کہ وہ اپنی عملی نیک اجر پائیں۔ رب کریم کا قانون مکافات کسی خاص گروہ اور نسل ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام نوع انسانی کے لئے ہے جو انسان بھی راست باز اور نیک کردار ہوگا اللہ کہ ہاں اجر محفوظ پائے گا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے روکتے ہیں ، بھلائی کے تمام کاموں میں تیز گام ہیں اور بلاشبہ ان لوگوں میں سے ہیں جو نیک کردار ہیں۔ “ (ال عمران : 3:114) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔ “ (العنکبوت : 29:9) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور زبور میں ہم تذکیرو ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “ (الانبیاء : 21:105) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں : کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے کردہ میں داخل کر دے ؟ “ (المائدہ : 5:84) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” میرا کار ساز تو بس اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی ہے جو نیک انسانوں کی سازی کرتا ہے ؟ “ (الاعراف : 7:192) ایک جگہ ارشادفامایا : ” اے میرے رب ! مجھے حکم عطا فرما اور مجھ کو صالحن کے ساتھ ملا دے۔ “ (الشعراء : 26:83) یہی دعا ہر ایک مسلم انسان کی ہونا چاہئے کہ اے اللہ ! دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر نیک لوگوں کے ساتھ کر دے۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور ان کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں اس لیے یہ تو ہر انسان کی دعا ہونی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا وسزا پر یقین رکھتا ہے لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دل میں تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک بد اخلاق ، فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ مائے۔ معاشرے کا بگاڑ تو جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لئے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کا موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی دیکھتا ہے بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کے چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے ایک صالح آدمی اس وقت تک بےچین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ ہوجائے یا پھر وہ اس سے نکل کر کوئی دوسری سوسائٹی نہ پالے جو حق وصداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو۔ اوپر سورة الانبیاء کی آیت 105 کا ترجمہ درج کیا گیا ہے خیال پڑتا ہے کہ شاید یہ کسی دوست عزیر کے دل میں کھٹ کھٹ پیدا کر دے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وضاحت کردی جائے۔ آیت قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (الانبیاء : 21: (105 ” دیکھو ہم نے زبور میں تذکیرو نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کی وراثت انہی بندوں کے حصے میں آئے گی جو نیک ہوں گے۔ “ ایک غلطی کا ازالہ : اس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کریم کی تردید اور پورے نظام دین کی بیخ کنی کردیتا ہے۔ وہ آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجود زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت وفرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قائدہ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت زمین ہے ، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعدوہ آگے بڑھ کر ان قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دنیا میں پہلے وارث زمین رہی ہیں اور آج اس وارثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر ، مشرک ، دہرئیے ، فاسق ، فاجر ، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف صاف الفاظ میں کفر ، فسق ، فجور ، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئی اور آج بھی نوازی جار رہی ہیں۔ فرعون ونمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانروائوں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا خدا کے منکر ، مخالف ، بلکہ مد مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارث زمین ہوئے ہیں اس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کردہ قاعدۃ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا ، اب لا محالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ” صالح “ کے اس مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چناچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصور تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں ” صالح “ قرار پاسکیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فارق ؓ ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصور کی تلاش میں ڈارونکا نظریہ ارتقاء ان کی راہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصور ” صلاح “ کو ڈراوینی تصور ” صلاحیت “ (Fitness) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔ اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیر بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور ان پر زور و قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی ” خدا کا صالح بندہ “ ہے اور اس کا یہ فعل تمام ” عابد “ انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ ” عبادت “ اس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے ، اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثت زمین سے محروم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارے شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بند کہا جاسکتا ہے۔ یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہ اگر ” صلاح “ اور ” عبادت “ کا تصور یہ ہے تو پھر ایمان (ایمان بااللہ ، ایمان بالیوم الاخر ، ایمان بالرسل اور ایمان بالکتب) کیا ہے جس کے بغیر خود اسی قرآن کی رو سے ، خدا کے ہاں کوئی عمل صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اس نظام اخلاق اور قانون زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے ؟ اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر ، فاسق ، عذاب کا مستحق اور مغضوب بارگاہ خداوندی ہے ؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایماندری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کرلیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوننے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان ، اسلام ، توحید ، آخرت ، رسالت ، ہرچیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب ان کی اس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہوجائیں اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو الٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمت دین سے اختلاف کرتے ہیں ان کو الٹا الزام دیتے ہیں کہ ” خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں “ یہ دراصل مادی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس طح لاحق ہوگیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہے ، حالانکہ اصولاً قرآن کی ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظام فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے ، اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ ” مادی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت “ کی ہم معنی نہیں ہے ، اور ” صالح “ کو اگر ” صاحب صلاحیت “ کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسرا سبب جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس سیاق وسباق سے الگ کر کے بےتکلف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکلالتے ہیں ، حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق وسباق سے مناسبت رک تھے ہو اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چالا آرہا ہے وہ عالم آخرت میں مومنین ، صالحین اور کفار ومشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کو بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وارثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے ؟ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو ایت کا یہ مطلب ہے کہ دوسری تخلیق میں ، جس کا ذکر ایا سے پہلے کی آیت می ہوا ہے ، زمین کے وارث صرف صالح لوگوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجود عارضی نظام زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون سورة مومنون آیات 10 ۔ 11 میں بھی ارشاد ہوا ہے اور اس زیادہ صریح الفاظ سورة زمر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخ صور اول و ثانی کا ذرک کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرمایا ہے ، پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتایا ہے کہ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا حَتّٰی۔ ٓ اِِذَا جَآئُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ” اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ لیجاے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لئے جنت کے دروازے کھو لدیتے جائیں گے اور ان کے منتظم ان سے کہیں گے سلام ہو تم کو ، تم بہت اچھے رہے ، آئو اب اس میں ج ہمیشہ رہنے کے لئے داخل ہو جائو اور کہیں گے کہ حمد ہے اس خدا کی جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین کا وارث کردیا ، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لئے۔ “ دیکھتے یہ دونوں نے آیت ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں اور دونوں جگہ وراثت زمین کا تعلق عالم آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔ اب زبور کو لیجئے جس کا حوالہ آیت زیر بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اس وقت پائی جاتی ہے اپنی اصل غیر محرف صورت میں ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں مزامری دائود کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہوگئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راست بازی اور توکل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے۔ ” کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا ، تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر ہو نہ ہوگا۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراونی سے شادماں رہیں گے ان کی میراث ہمیشہ کے لئے ہوگی صادقین زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ “ (37 دائود کا مزامیر۔ 9 ۔ 10 ۔ 11 ۔ 19 ۔ 29) دیکھے ، یہاں راست باز لوگوں کے لئے زمین کی دائمی وارثت کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کرہ اس دنیا کی زندگی سے۔ دنیا میں زمین کی عارضی وارثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اس سورة اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ زمین اللہ کی ہے ، اپنے بدنوں میں سے جس کو چہاتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ “ مشیت الٰہی کے تحت یہ وارثت مومن اور کافر ، صالحی اور فاسق ، فرمان بردار اور نافرمان سب کو ملتی ہے مگر جزائے عمل کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر ، جیسا کہ اسی آیت کے بعد دوسری آیت میں فرمایا ہے و یستخلفکم فی الارض فینظر۔ نیک لوگوں کی رفاقت کا میسر آنا اللہ کا فضل و کرم ہے : 124: ان لوگوں کی رفاقت کا میسر آنا اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم کافی و وانی ہے کیونکہ وہ ہرچیز پر حاوی و محیط ہے لوگوں کی نیتوں کو بھی لوگوں کے عمل کو بھی اور ان کے مقتضائے عمل کو بھی۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ عام مومنین کو جو ان کا ملین کی معیت ورفاقت نصیب ہوگی یہ محض فضل الٰہی کا ظہور ہوگا ان کے اعمال کا ثمرہ نہیں۔
Top