Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ : اطاعت کرے اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ مَعَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے ساتھ اَنْعَمَ : انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ : سے (یعنی) النَّبِيّٖنَ : انبیا وَالصِّدِّيْقِيْنَ : اور صدیق وَالشُّهَدَآءِ : اور شہدا وَالصّٰلِحِيْنَ : اور صالحین وَحَسُنَ : اور اچھے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ رَفِيْقًا : ساتھی
اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔
یہ صدق سے مبالغہ ہے، یعنی جو بہت سچا ہو۔ بعض نے کہا، جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔ بعض نے کہا، صدیق وہ ہے کہ صدق کی عادت کی وجہ سے اس سے جھوٹ ناممکن ہو اور بعض نے کہا کہ جو اپنے اعتقاد اور قول میں سچا ہو اور اپنے فعل کے ساتھ اپنے صدق کو ثابت کرے۔ (مفردات) استاد محمد عبدہ ؓ لکھتے ہیں کہ صدیق صدق سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے والا ہو اور کبھی کسی معاملے میں خلجان اور شک اس کے دل میں پیدا نہ ہو، یا وہ جو رسول اللہ ﷺ کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسروں کے لیے اسوہ بنے، اس اعتبار سے اس امت کے صدیق ابوبکر ؓ ہی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ابوبکر صدیق ؓ دوسرے افاضل صحابہ کے لیے نمونہ بنے ہیں۔ علی ؓ بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں، مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکے۔ چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے، اس لیے علمائے اہل سنت کا اجماع ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ آپ ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں۔ ”الشہداء“ یہ شہید کی جمع ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان دی اور امت محمد ﷺ کو بھی شہداء ہونے کا شرف حاصل ہے، اور ”الصالحین“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہر طرح عقیدہ و عمل کے اعتبار سے صالح اور درست رہے اور ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ (رازی) مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ۔۔ : یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے انعام کا ذکر ہے کہ انھیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت، یعنی ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کو رسول ﷺ کے ساتھ رہنے کا شوق بہت زیادہ تھا، دنیا میں بھی وہ اس کے بہت مشتاق تھے اور انھیں جنت میں آپ کی معیت کا شوق تو حد سے زیادہ تھا۔ ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس رات بسر کیا کرتا تھا اور آپ کے لیے پانی اور دیگر ضروریات کا اہتمام کردیا کرتا تھا، ایک دن آپ ﷺ نے فرمایا : ”کچھ مانگ لو !“ میں نے عرض کی : میں آپ سے جنت میں آپ کی مرافقت (ساتھ) کا سوال کرتا ہوں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کوئی اور سوال ؟“ میں نے عرض کی : ”وہ بھی یہی ہے۔“ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ اپنے بارے میں میری مدد کرو۔“ [ مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ : 489 ] یہ رسول اللہ ﷺ سے خالص محبت اور اطاعت کی برکت ہے کہ اگر عمل میں کچھ کمی ہوئی تب بھی اطاعت و اخلاص کی وجہ سے اتنے اونچے لوگوں کا ساتھ مل جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : ”آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت رکھتا ہے، مگر ابھی تک (اعمال میں) ان سے نہیں مل سکا۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہوگی۔“ [ بخاری، الأدب، باب علامۃ الحب فی اللہ عزوجل : 6169 ] حقیقت یہ ہے کہ اطاعت اور محبت لازم و ملزوم ہیں، وہ محبت جس میں اطاعت نہ ہو جھوٹی ہے اور وہ اطاعت جس کی بنیاد محبت نہ ہو، دکھاوا ہے۔ ہاں، محبت و اخلاص کے ساتھ عمل و اطاعت میں کچھ کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے پورا کر دے گا، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے زیادہ اچھا ساتھی کوئی نہیں اور اللہ کے فضل سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حالات خوب جانتا ہے کہ کسے کس کے ساتھ رکھنا ہے۔ انس ؓ فرماتے ہیں : ”مجھے رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے، ابوبکر و عمر ؓ سے محبت ہے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ ان کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے ان کے ساتھ ہی اٹھائیں گے، گو میں ان جیسے عمل نہیں کرسکا۔“ [ بخاری، الفضائل، باب مناقب عمر بن الخطاب : 3688 ]
Top