Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ
: اطاعت کرے
اللّٰهَ
: اللہ
وَالرَّسُوْلَ
: اور رسول
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
مَعَ الَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے ساتھ
اَنْعَمَ
: انعام کیا
اللّٰهُ
: اللہ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مِّنَ
: سے (یعنی)
النَّبِيّٖنَ
: انبیا
وَالصِّدِّيْقِيْنَ
: اور صدیق
وَالشُّهَدَآءِ
: اور شہدا
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور صالحین
وَحَسُنَ
: اور اچھے
اُولٰٓئِكَ
: یہ لوگ
رَفِيْقًا
: ساتھی
” جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں
(آیت) ” نمبر 69۔ 70 : یہ ایک ایسا سچ ہے جس سے تمام قلبی احساسات جاگ اٹھتے ہیں بشرطیکہ کسی دل میں بھلائی کا کوئی ذرہ موجود ہو ‘ بشرطیکہ نیکی کا کوئی بیج موجود ہو بشرطیکہ اس میں کسی باعزت مقام اور اللہ کے جوار رحمت میں داخل ہونے اور اللہ کی شان کریمی کی تلاش کا کوئی داعیہ ہو ۔ یہ مجلس ایسے ہی اولوالعزم اور بلندیوں کے متلاشیوں کے لئے ہے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس فضل وکرم کے مقام تک کوئی شخص صرف اپنی اطاعت شعاری اور اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ کا وسیع اور عمیق اور بھر پور فضل وکرم ہوتا ہے اور اس کا عمومی فیضان ہوتا ہے اور جس کی قسمت ہو اسے ڈھانپ لیتا ہے ۔ یہاں مناسب ہے کہ ہم چند لمحے نبی ﷺ کے صحابہ کی محفل میں گزاریں ۔ یہ لوگ دنیا وآخرت میں دونوں میں حضور ﷺ کی محفل کے مشتاق تھے ۔ ان حضرات میں سے بعض تو ایسے تھے کہ وہ آپ کی جدائی کے تصور ہی سے پریشان ہوجاتے تھے ۔ حالانکہ آپ ﷺ اس وقت ان کے درمیان موجود تھے ۔ اسی لئے یہ آیات نازل ہوئیں ‘ جس سے ان کی محبت تروتازہ ہوگئی اور ان کا پاکیزہ جذبہ جوش میں آگیا ۔ اور ان کی پاک و شفاف محبت اور پاک ہوگئی ۔ ابن جریر نے حضرت سعید ابن جبیر سے روایت کی ہے ۔ انصار میں سے ایک شخص آیا جو بہت ہی پریشان تھا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ ” اے فلاں تم پریشان کیوں ہو ؟ اس نے جواب دیا اللہ کے نبی میں ایک معاملے میں سوچ رہا تھا ۔ آپ نے دریافت کیا کہ کیا تھا وہ ؟ اس نے کہا وہ یہ تھا کہ ہم صبح وشام آپ سے آکر ملتے ہیں آپ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہیں اور آپ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں ۔ کل آپ نبیوں کے ہاں چلے جائیں گے تو ہم آپ سے ملاقات نہ کرسکیں گے ۔ حضرت نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اتنے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر آئے ۔ (آیت) ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین “۔ (4 : 69) نبی ﷺ نے اس شخص کے لئے پیغام بھیجا اور اسے خوشخبری دی ۔ حضرت ابوبکر ؓ ابن مردیہ نے حضرت عائشہ ؓ سے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا حضور آپ میرے لئے میری جان سے زیادہ محبوب ہیں ‘ آپ میرے لئے میرے اہل خاندان سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ میرے لئے میری بیٹیوں سے زیاہد محبوب ہیں اور جب میں گھر پہ ہوتا ہوں تو میں آپ کو یاد کرتا ہوں اور اٹھ کر آجاتا ہوں اور آپ کو دیکھ لیتا ہوں ‘ صبر نہیں کرسکتا ۔ جب میں اپنی موت اور آپ کی موت کے بارے میں سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ آپ جنت میں داخل ہو کر نبیوں کے گروہ میں داخل ہوجائیں گے اور میں اگر جنت میں چلا بھی جاؤں تو شاید آپ کو دیکھ نہ سکوں۔ اس شخص کے ان خدشات کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصلحین وحسن اولئک رفیقا “۔ (4 : 69) ” جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔ “ صحیح مسلم نے ربیعہ کی حدیث نقل کی ہے ‘ فرماتے ہیں میں ایک رات نبی کریم ﷺ کے پاس تھا ۔ میں نے آپ کو وضو کے لئے پانی اور دوسری ضروریات فراہم کیں تو حضور ﷺ نے فرمایا : مانگو جو مانگتے ہو تو میں نے کہا کہ اے رسول خدا ﷺ میں تو جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور ؟ تو اس نے کہا بس صرف یہی ۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا آپ کثرت سجود کے ذریعے اپنے نفس کے خلاف میری معاونت کریں ۔ بخاری شریف میں متعدد طریقوں سے یہ روایت آئی ہے کہ ایک شخص ایک گروہ کو پسند کرتا ہے مگر ان سے ملاقات نہیں ہوتی تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ آپ نے فرمایا آدمی انہیں لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کو وہ محبوب سمجھتا ہے ۔ یہی بات تھی ‘ جس میں ان کے دل و دماغ ہر وقت مشغول تھے ۔ محبت رسول اور آخرت میں صحبت رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے دنیا میں بھی صحبت رسول کا مزہ چکھا ہوا تھا ۔ اور آج اس کا مزہ صرف وہی دل چکھ سکتا ہے جس کے اندر محبت رسول موجود ہو اور ہم لوگوں کے لئے اس آخری حدیث میں روشنی کی کرن ‘ اطمینان کا سامان اور امید کی شمع نظر آتی ہے ۔ درس 36 ایک نظر میں : میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ اس سبق میں آیات کا جو مجموعہ دیا گیا ہے ‘ وہ مدینہ کے ابتدائی دور میں غزوہ احد کے بعد اور غزوہ خندق سے پہلے نازل ہوا ہوگا کیونکہ اس میں اسلامی سوسائٹی کی جو تصویر کشی کی گئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابھی تک پختگی کے مقام تک نہ پہنچی تھی ۔ اس سوسائٹی میں مختلف قسم کے گروہ موجود تھے ‘ جن میں بعض ناپختہ تھے اور بعض ایسے لوگ بھی موجود تھے جو ایمان ہی نہ لائے تھے اور محض منافقت کر رہے تھے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی سوسائٹی کو اپنی تعلیم و تربیت کی مزید ضرورت تھی اور اس سلسلے میں عظیم جدوجہد اور گہری توجہ کی ضرورت تھی ۔ اسے اس عظیم مقصد کے لئے تیار کرنے اور وہ بوجھ اٹھانے کا اہل بنانے کی ضرورت تھی جو اسلام نے اس کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا تھا ‘ نیز اسلامی انقلاب کے لئے جس سطح کے لوگوں کی ضرورت تھی ‘ اس سطح تک اس سوسائٹی کو بلند کرنا ضروری تھا ۔ چاہے یہ تربیت اور اصلاح عقائد و تصورات کے میدان میں ہو ‘ یا مخالف کیمپوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے میدان میں ہو۔ اور یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ بعض لوگ ناپختہ تھے ‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سوسائٹی میں نہایت ہی بلند معیار کے لوگوں کی کمی تھی ۔ یہاں ہم اس وقت کی اسلامی سوسائٹی کو مجموعی طور پر لے رہے ہیں ۔ اس سوسائٹی میں مختلف عناصر موجود تھے ‘ لیکن سب ایک جیسے نہیں تھے ۔ لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ اس سوسائٹی کے تمام عناصر کو بلند سطح تک لانے کی سعی کی جائے تاکہ اس کے افراد کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا ہو ۔ اس بات کا اظہار ان آیات وہدایات سے اچھی طرح ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ان ہدایات کے گہرے مطالعے سے ہمیں اس وقت کی مسلم سوسائٹی کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے اور جماعت مسلمہ کے ایسے خدوخال سامنے آتے ہیں جن میں یہ سوسائٹی ایک انسانی سوسائٹی نظر آتی ہے ۔ اس کا یہ پہلو ہم اکثر اوقات نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اس سوسائٹی میں ہمیں اعلیٰ معیار کی تربیت اور قوت بھی نظر آتی ہے اور اس میں بعض کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں ۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ قرآن کریم انسانی کمزوریوں ‘ جاہلیت کے باقی ماندہ آثار اور اسلام کے مخالف کیمپ کے ساتھ کس طرح معرکہ آرائی کرتا ہے اور یہ سب کام بیک وقت ہوتا ہے ۔ ہم قرآن کریم کے انداز تربیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن عالم واقعہ میں زندہ انسانوں کے ساتھ معامل کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ تربیت کے میدان میں قرآن کریم نے کس قد کامیاب جدوجہد کرکے ایک ایسی سوسائٹی تخلیق کی جس کو جاہلیت کے معاشرہ سے لیا گیا تھا ‘ جس میں مختلف درجات اور مختلف طبقات کے لوگ موجود تھے اور جس میں مختلف خصوصیات کے لوگ موجود تھے قرآن نے انہیں اس قدر ہم آہنگ ‘ اس قدر بلند ‘ اس قدر متحد بنا دیا جس کا کامل رنگ حضور کے آخری دور میں صاف نظر آتا ہے اور یہ اس قدر بلند اور کامل ومکمل سوسائٹی تھی جس سے آگے جانا انسانوں کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ کسی انسانی سوسائٹی کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نفس کے اندر کیا کیا صلاحیتیں ہیں ‘ اور دنیا کی بہترین جماعت اور سوسائٹی میں ان کا ظہور کس شکل میں ہوتا ہے ۔ وہ جماعت جس کی تربیت خود حضور ﷺ نے فرمایا تھی اور یہ تربیت تھی بھی قرآنی منہاج کے مطابق ۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا منہاج تربیت کیا تھا اور یہ کہ قرآن کریم انسانی نفوس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا تھا ۔ اس کا رویہ اس کے ساتھ کس قدر پر لطف تھا اور جماعت کے اندر مختلف سطح کے لوگوں کو اس نے کس طرح باہم متحد اور منسلک کردیا تھا ۔ ہم قرآن کریم کا مجاز تربیت دیکھتے ہیں اور ہمیں عالم واقعہ میں انسانی طبیعت کے مطابق یہ تربیتی نظام کام کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس سے ایک فائدہ ہمیں یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم اپنے حالات اور دوسری انسانی سوسائٹیوں کے حالات کا مقابلہ اس انسانی جماعت سے کریں جو اللہ نے برپا کی ہے اس کے بعد ان سوسائٹیوں کی انسانی اعتبار سے جو اصل صورت حال تھی اس کا مطالعہ کریں تاکہ اپنی کوتاہیوں کو دیکھ کر دور جدید میں اصلاح حال سے مایوس نہ ہوجائیں اور اپنی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ترک نہ کردیں ۔ یہ بھی نہ ہو کہ اسلام کی یہ پہلی سوسائٹی ہمارے تصورات میں کہیں محض خیالی سو سائٹی ہی نہ بن جائے اور ہم کہیں یہ سعی ترک نہ کردیں کہ اس جماعت کے نقش قدم پر ہمیں چلنا ہے اور دور جدید میں ان جدید سوسائٹیوں کو موجودہ گراوٹ سے اونچا کرکے مقام بلند تک پہنچاتا ہے ۔ یہ عبرتوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے ۔ اور ظلال القرآن میں زندگی بسر کرکے جب ہم یہ ذخیرہ اخذ کریں گے تو یہ ہمارے لئے بھلائی کا ایک عظیم سامان ہوگا ۔ اس سبق میں دی گئی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی صفوں میں اس وقت درج ذیل قسم کے لوگ موجود تھے ۔ (الف) ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے آپ کو جہاد میں پیچھے رکھتے تھے اس سے دوسروے لوگوں میں بھی سستی پیدا ہوتی تھی اور اگر وہ جہاد کو نہ جاتے اور گھروں میں صحیح وسالم رہتے تو اسے اپنے لئے کامیابی سمجھتے تھے جبکہ جہاد میں شریک ہونے والے مسلمانوں کو اس جہاد میں مشکلات اور تکالیف پیش آتیں ۔ اسی طرح یہ لوگ اگر جہاد میں نہ جاتے اور مسلمانوں کو مال غنیمت مل جاتا تو ایسے لوگ محسوس کرتے کہ ان کو خسارہ ہوگیا کہ مال غنیمت میں سے ان کو حصہ نہ ملا ۔ اس طرح یہ لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو خریدتے تھے ۔ (ب) ان لوگوں میں بعض مہاجرین بھی تھے جب یہ لوگ مکہ میں تھے اور ان پر مظالم ہوتے تھے تو وہ جوش دفاع اور بہادری کے جذبے سے یہ کہتے تھے کہ کاش انہیں جہاد کرنے اور جنگ کرنے کی اجازت ہوتی لیکن وہاں ان کے لئے جنگ کرنا بالکل بند کردیا گیا تھا ۔ اب مدینہ طیبہ میں جب جہاد کا حکم آگیا اور یہ کہا گیا کہ کفار کے ساتھ جنگ شروع کر دو تو یہ لوگ تمنا کرنے لگے کہ کاش ابھی اور مہلت ملتی اور جنگ کا حکم نہ آیا ہوتا ۔ (ج) ان میں ایسے لوگ بھی تھے کہ اگر کوئی بھلائی نصیب ہوتی تو کہتے کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور مصیبت آتی تو کہتے کہ یہ مصیبت نبی ﷺ کی ذات کی وجہ سے ہے ۔ یہ بات وہ اس لئے نہ کہتے تھے کہ ان کا خدا تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان اور بھروسہ تھا بلکہ وہ یہ باتیں اسلامی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کرتے تھے ۔ (د) بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ جو حضور ﷺ کے سامنے اپنے آپ کو نہایت مطیع فرمان ظاہر کرتے مگر جب آپ کے پاس سے چلے جاتے تو مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے اور اپنے ہم نشینوں کے ساتھ کوئی اور بات کرتے ۔ (ھ) بعض ایسے لوگ تھے جو افواہوں پر کان دھرتے تھے اور اسلامی صفوں میں انہیں پھیلاتے تھے ۔ اس طرح وہ اسلامی محاذ میں بےچینی پیدا کردیتے تھے حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ وہ بات کو ثبوت تک پہنچاتے یا خود اسلامی قیادت کی طرف رجوع کرتے ۔ (ر) بعض لوگ ایسے بھی تھے جن کو اس بارے میں شک تھا کہ آیا ان ہدایات کا مصدر اور منبع اللہ کی ذات ہے یا نہیں ‘ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بعض باتیں نبی ﷺ اپنی جانب سے کرتے ہیں ۔ (ز) بعض ایسے تھے جو منافقین کی جانب سے مدافعت کیا کرتے تھے جیسا کہ اگلے سبق کے شروع میں بعض نمونے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی کہ منافقین کے بارے میں جماعت مسلمہ دوگروہوں میں بٹ جائے ۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے اسلامی تصور اور تنظیم میں ابھی تک مکمل ہم آہنگی نہ تھی اور یہ لوگ قیادت کے فرائض اور ایسے معاملات میں قیادت کے ساتھ رابطے کی ضرورت کو اچھی طرح نہ سمجھتے تھے ۔ یہ تمام عناصر جو اسلامی صفوں میں موجود تھے یہ منافقین کے گروہ تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ہی گروہ سے متعلق ہوں ‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ کی سوسائٹی میں یہ لوگ منافقین کے کئی گروہوں سے تعلق رکھتے ہوں یا ان لوگوں میں بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ہوں جن کی ایمانی حالت ابھی پختہ نہ ہوئی ہو ۔ ان میں سے کچھ لوگ مہاجریں بھی ہو سکتے ہیں ۔ بہرحال ایسے کئی گروپ اسلامی جماعت کے اندر موجود تھے اور یہ جماعت اس وقت مدینہ کے یہودیوں میں گھری ہوئی تھی جبکہ مکہ میں وہ مشرکین کے نرغے میں تھی اور پورے جزیرۃ العرب میں یہ جماعت متربصین کے نرغے میں تھی جو انتظار کر رہے تھے کہ اس تحریک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ جماعت مسلسل مسلمانوں کی صفوں کے اندر بےچینی پیدا کر رہی تھی ۔ لہذا اندرونی صفوں میں تربیت وتطہیر کی ضرورت تھی اور لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کی ضرورت تھی ۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے یہ داخلی جہاد اور تربیت کس نہج پر کی ۔ قرآن نے مسلمانوں کی صفوں سے مایوسی کو دور کیا اور جماعت کے ہر فرد کو مطمئن کردیا ۔ نہایت ہی گہرائی دقت اور صبر کے ساتھ اور اس تحریک کے قائد حضرت محمد ﷺ نہایت ہی صبر آزما حالات میں یہ تربیت فرما رہے تھے ۔ ذرا اس کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔ (الف) حکم دیا جاتا ہے کہ ہر وقت محتاط رہو ۔ مجاہدین اور مومنین اکیلے نہ پھریں اور مہمات اور سرایا میں اکھٹے جائیں ۔ یعنی سرایا اور دستوں کی شکل میں یا سب کے سب فوج کی شکل میں نکلیں ۔ اس لئے کہ ان کے اردگرد کے علاقے میں مختلف قسم کی دشمنیاں ہیں اور دشمن گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں جن کے اندر منافقین ہیں یا ایسے دشمن ہیں جن کو منافقین پناہ دے رہے ہیں ۔ نیز یہودی بھی پورے جزیرۃ العرب کے دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جو موقع کے انتظار میں ہیں۔ (ب) بعض لوگ جو جہاد میں پیچھے رہ جاتے تھے ان کی بھی یہاں ایک قابل نفرت تصویر نظر آتی ہے ۔ ان کی ہمت جواب دے گئی ہے وہ مفاد پرست ہیں اور نہایت ہی متلون مزاج ہیں اور حالات کے ساتھ بہت جلد یہ لوگ بدل جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حال پر تعجب ہوتا ہے کہ مکہ میں تو بہت ہی پرجوش تھے مگر اب جبکہ مدینہ میں جہاد فرض ہوگیا ہے تو وہ جزع وفزع کرتے ہیں ۔ (ج) یہاں اللہ کی راہ میں مقاتلین کے لئے اللہ کی جانب سے وعدہ بھی صاف نظر آتا ہے کہ اللہ انہیں اجر عظیم عطا کرے گا اور انہیں دو اچھے انجاموں میں سے ایک ضرور ملے گا ۔ یعنی ” اور جو شخص اللہ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور مارا جاتا ہے ‘ یا غالب ہوجاتا ہے تو دونوں صورتوں میں اللہ اسے اجر عظیم دے گا “۔ (د) قرآن کریم مقاصد کی بلندی ‘ اہداف کی پاکیزگی ‘ اور کامرانی کے مقاصد کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس کی وجہ سے جہاد و قتال فرض کیا گیا ہے کہ یہ ” اللہ کے راستے میں ’ ضعیف مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کی حمایت میں ہے ‘ جو ہر وقت یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس گاؤں سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی جانب سے کوئی ولی مقرر کر اور اپنی جانب سے ہمارے لئے کوئی مدد گار بنا ۔ “ (ھ) پھر قرآن مجید ان مقاصد کی سچائی کو بھی ریکارڈ پر لاتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ ان کی پشت پر سند قوی ہے اور ان مقاصد کا برسرباطل ہونا بھی بتاتا ہے جن کے لئے کافر لڑتے ہیں اور ان کی سند بھی ضعیف ہے ۔ ” وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ‘ پس تم شیطان کے دوستوں کے ساتھ لڑو ‘ بیشک شیطان کا مکر کمزور ہے ۔ “ ّ (و) ان آیات میں قرآن کریم ان تصورات فاسدہ کا علاج بھی کرتا ہے جن کی وجہ سے دل و دماغ میں فاسد احساسات اور کردار میں فاسد اور ضعیف طرز عمل جنم لیتا ہے ۔ اور یہ کام وہ غلط عقائد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے کرتا ہے ۔ ایک تو حقیقت دنیا اور حقیقت آخرت کے بیان کے ذریعے کرتا ہے ۔ ” کہہ دیجئے دنیا کا سامان بہت قلیل ہے ۔ اور آخرت ان لوگوں کے بہت ہی خیر ہے جو متقی ہیں اور تم پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ۔ “ اور دوسری حقیقت موت اور مقررہ وقت کے اٹل ہونے کے بارے میں کہ انسان جس قدر بھی احتیاط کرے اور جس قدر بھی جہاد سے دور بھاگے ‘ موت بہرحال اپنے وقت پر آپہنچتی ہے ۔ ” جہاں بھی تم ہوگے ‘ موت تمہیں پالے گی اگرچہ تم پختہ محلات میں بیٹھے ہو۔ “ پھر ان کے تصورات مسئلہ تقدیر کے بارے میں درست کئے جاتے ہیں کہ انسان کے عمل اور قضا وقدر کا تعلق کیا ہے ۔ ” اگر انکو کوئی بھلائی نصیب ہو تو کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کی جانب سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچے تو وہ کہتے ہیں یہ تمہاری جانب سے ہے ۔ کہو سب کچھ اللہ کی جانب سے آتا ہے ۔ لیکن ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ بات کو سمجھنے والے نہیں ۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی ملے تو یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اگر کوئی برائی تمہیں ملے تو یہ تمہارے نفس کی وجہ سے ہے ۔ “ (ز) قرآن کریم اللہ اور رسول ﷺ کے درمیان گہرے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ کہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت تصور ہوتی ہے ۔ پورے کا پورا قرآن مجید اللہ کی جانب سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اس کے اندر پائی جانے والی مکمل وحدت فکر پہ غور کرو ‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن ایک ہی منبع سے آیا ہے ۔ “ ” جو رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ قرآن کریم پر غور نہیں کرتے ‘ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی جانب سے آتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف فکرپاتے ۔ “ (ح) ان آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ میں افواہیں پھیلانے والوں کو صحیح طریق کار اپنانے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ وہ طریق کار کسی بھی صحت مند جماعت کی قیادت اور تنظیم کے لئے مناسب ہے اور وہ یہ ہے کہ ” اگر وہ کسی واقعہ کو رسول اللہ ﷺ اور ان لوگوں کے پاس لاتے جن کے ہاتھ میں امور مملکت تھے تو جو لوگ اس سے صحیح نتائج اخذ کرسکتے تھے وہ ان کے علم میں آجاتا۔ “ (ط) ان آیات میں اس غلط طریق کار سے انہیں ڈرایا جاتا ہے اور ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اللہ نے اپنا کرم کیا کہ ان کو ہدایت سے نوازا ” اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم لوگ شیطان کے متبع ہوتے مگر کم لوگ ۔ مدینہ کی اسلامی جماعت اور سوسائٹی کے جو حالات ان آیات ان آیات میں بیان ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی وجہ سے اس جماعت کے اندر کس قدر انتشار اور بےچینی پیدا کردی گئی تھی ۔ ان حالات میں جب نبی کریم ﷺ کو جہاد و قتال کا حکم ہوا تو آپ کو کس قدر ہمہ جہت اور مختلف قسم کی جدوجہد کرنا پڑی ہوگی ۔ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ سے کہتے کہ وہ جہاد کریں اگرچہ وہ اکیلے ہوں اور یہ کہ اہل ایمان کو جہاد پر اکسائیں ۔ آپ اپنی ذات ہی سے مسئول ہوں گے اور اللہ خود ہی معرکے میں حصہ لے گا ۔ ” پس اے نبی ﷺ تم اللہ کی راہ میں لڑو ‘ تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے ذمہ دار نہیں ہو ۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لئے اکساؤ ‘ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے ۔ اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے ۔ “ اس انداز گفتگو سے اہل ایمان کے اندر بہت ہی زیادہ جوش پیدا ہوتا ‘ اور ان کی ہمتیں بلند ہوجاتیں کیونکہ اس میں فتح ونصرت کی پوری امید بھی تھی ‘ اور اللہ کی تائید اور اس کی قوت پر پورا یقین بھی ۔ قرآن کریم اس جماعت کو لے کر متعدد میدانوں میں برسرپیکار تھا ۔ پہلا معرکہ نفس انسانی کے اندر برپا تھا ۔ یہ معرکہ وساوس ‘ خواہشات نفسانی ‘ بدظنی ‘ غلط افکار ‘ جاہلی تصورات اور انسانی اخلاق کی کمزوریوں کے خلاف تھا۔ اگرچہ یہ کمزورریاں نفاق کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ بشری کمزوریاں ہوں ۔ قرآن کریم اس جماعت کو ایسی پالیسی کے ساتھ چلا رہا تھا کہ وہ قوت اور شوکت کے مقام تک پہنچ جائے ۔ پھر اس کے اندر ہر قسم کی ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا ہوجائے ۔ اور یہ نہایت ہی دور رس اغراض ومقاصد تھے ۔ اس لئے کہ اگر کسی جماعت کے اندر زور آور لوگ بھی ہوں تو بھی اسے بےفکر نہ ہونا چاہئے ۔ اگر اس کی صفوں میں کمزور لوگ موجود ہوں ۔ تو جماعت کے اندر مختلف سطح کے لوگوں کے اندر مکمل تناسق اور مکمل یک جہتی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خصوصا جب اسے مختلف قسم کے معرکوں سے سابقہ درپیش ہو۔ اس تبصرہ کے بعد اب مناسب یہ ہے کہ ہم اس سبق کی آیات پر تفصیلی بات چیت کریں ۔
Top