Tafseer-Ibne-Abbas - Nooh : 2
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
(75۔ 77) سو میں اس چیز کی قسم کھاتا ہوں کہ قرآن حکیم رسول اکرم پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے ایک دم پورا نازل نہیں ہوا اگر تم تصدیق کرو تو قرآن ایک بڑی چیز ہے یا یہ کہ میں قسم کھاتا ہوں صبح کے وقت ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو اور تصدیق کرو تو یہ ایک بڑی قسم ہے یہ ایک مکرم معزز قرآن حکیم ہے جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ شان نزول : فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (الخ) اور امام مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم کے زمانہ میں لوگوں پر بارش ہوئی اس پر رسول اکرم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے بعض شاکر ہیں اور بعض ان میں کافر ہیں شاکر کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ فلاں ستارہ ٹھیک رہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے ابو حزرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیات ایک انصاری شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ غزوہ تبوک میں لوگوں کا ایک وادی پر پڑاؤ ہوا رسول اکرم نے ان کو حکم دیا کہ اس وادی کے پانی میں سے کچھ ساتھ نہ لینا پھر آپ نے کوچ کیا اور دوسرے مقام پر پڑاؤ کیا اور وہاں لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا لوگوں نے رسول اکرم سے پانی کی شکایت کی آپ نے کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھیں اور دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا اور ان پر بارش ہوئی اور وہ سب سیر ہوگئے تو ایک انصاری شخص نے جسے نفاق کا الزام دیا گیا تھا۔ اپنی قوم کے دوسرے شخص سے کہا ارے رسول اکرم نے کوئی دعا نہیں فرمائی جس سے ہم پر بارش ہوئی بلکہ ہم پر تو فلاں فلاح ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔
Top