Dure-Mansoor - Al-Waaqia : 88
فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
فَاَمَّآ : پھر اگر اِنْ كَانَ : اگر ہے وہ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین میں سے
پھر جو شخص مقربین میں سے ہوگا
6۔ ابن ابی شیبہ واحمد فی الزہد وعبد بن حمید وابن المنذر نے ربیع بن خیثم (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فاما ان کام من المقربین۔ فروح وریحان “ ( پھر جو شخص مقرب لوگوں میں سے ہوگا تو اس کے لیے راحت ہے اور فراغت کی غذائیں ہیں) یعنی یہ اس کے لیے موت کے وقت ہوگا آیت ” وجنت نعیم “ (اور آرام کی جنت ہے) یعنی اس کے لیے جنت چھ؛ الی جائے گی قیامت کے دن تک۔ آیت ” واما ان کان من المکذبین الضالین۔ فنزل من حمیم “ (اور جو شخص تکذیب والے گمراہوں میں سے ہوگا تو کھولتے ہوئے پانی سے اس کی دعوت ہوگی) یعنی یہ موت کے وقت ہوگا آیت ” وتصلیۃ جحیم (اور دوزخ میں اس کا داخلہ ہوگا) یعنی اس کے لیے دوزخ چھپادی جائے گی قیامت کے دن تک۔ 7۔ ابوعبید فی فضائلہ واحمد وعبد بن حمید والبخاری فی تاریخہ وابو داوٗد والترمذی وحسنہ والنسائی والحکیم الترمذی فی نوادر الاصول والحاکم وصححہ وابو نعیم فی الحلیۃ وابن مردویہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا آیت ” فروح وریحان “ یعنی راء کے رفع کے ساتھ۔ 8۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سورة واقعہ پڑھی جب اس آیت ” فروح وریحان “ پر پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یعنی آیت ” فروح وریحان “ 9۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا آیت ” فروح وریحان “ یعنی راء کے رفع کے ساتھ فروح پڑھتے تھے۔ 10۔ ابو عبید و سعید بن منصور وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا اس کو یوں پڑھتے تھے آیت ” فروح “ یعنی رحمت اور حسن (رح) بھ یہی پڑھتے تھے آیت ” فروح “ اور فرماتے کہ اس کے معنی ہے رحمت۔ 11۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” فروح “ سے مراد ہے راحت آیت ” وریحان “ سے مراد ہے راحت کو طلب کرنا۔ 12۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا آیت ” وریحان “ سے مراد ہے آرام پانے والا دنیا (کی تکلیفوں) سے آیت ” وجنت نعیم “ سے مراد ہے مغفرت اور رحمت۔ 13۔ مالک واحمد وعبد بن حمید فی مسندہ ووالبخاری ومسلم والنسائی نے ابوقتادہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ایک جنازہ گزرا آپ نے فرمایا یہ آرام پانے والا ہے یا اس سے (لوگوں نے) آرام پایا۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ” مستریح اور مستراح منہ “ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا مومن بندہ دنیا کی مشقت اور اس کی تکلیف سے اللہ تعالیٰ سبحانہ کی رحمت کی طرف آرام پاتا ہے۔ اور فاسق وفاجر بندے سے دوسرے بندے اور شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔ مومن کو موت کے وقت بشارت 14۔ القاسم بن مندہ نے فی کتاب الاحوال والایمان بالسوال سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وفان کے وقت مومن کو سب سے پہلے روح اور ریحان اور جنت نعیم کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اور سب سے پہلے مومن بندے کو قبر میں یہ خوشخبری دی جائے گی کہ تجھے اللہ کی رضامندی اور جنت کی خوشخبری ہو تیرا آنا خوب ہے مرحبا۔ خوش آمدید یقینی طور پر اللہ تعالیٰ نے تجھے بخش دیا ہے جس نے تجھ تیری قبر تک پہنچایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کردی جس نے تیری گواہی دی۔ اور اس کی دعا قبول ہوگی جس نے تیرے لیے استغفار کیا۔ 15۔ ہناد بن السری وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فروح وریحان “ کہ ” روح “ سے مراد ہے خوشی اور ریحان سے مراد ہے رزق۔ 16۔ ابن المنذر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فروح وریحان “ سے مراد ہے غم سے نجات جس میں وہ پہلے مبتلا تھے اور عمل کرنے سے راحت پانا کہ وہ نہ نماز پڑھیں گے اور نہ روزے رکھیں گے۔ 17۔ عبد بن حمید وابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” روح “ سے مراد ہے آرام اور ” ریحان “ سے مراد ہے رزق۔ 18۔ عبد بن حمید وابن جریر وابوالقاسم بن مندہ نے کتاب السوال میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فروح وریحان “ یعنی وہ آخرت میں ہوگا اور قوم کے بعض لوگوں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! موت کے وقت ان کو (اس خوشخبری سے) خوش کیا جائے گا۔ 19۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” فروح وریحان “ میں ریحان سے مراد ہے رزق۔ 20۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ روح سے مراد ہے رحمت اور ” الریحان “ سے مراد ہے پھول پودا۔ 21۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فروح وریحان “ میں الروح سے مراد ہے رحمت اور الریحان (یعنی خوشبو) کہ آدمی اس کو موت کے وقت جا ملتا ہے۔ 22۔ المروزی فی الجنائز وابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ مومن کی روح اس کے جسم سے ریحانہ میں نکلتی ہے پھر یہ آیت ” فاما ان کان من المقربین، فروح وریحان “ پڑھی۔ 23۔ عبد بن حمید وابن ابی الدنیا فی ذکر الموت و عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں ابو عمران جونی (رح) سے آیت ” فاما ان کان من المقربین۔ فروح وریحان “ کے بارے میں روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ مومن کو جب موت آتی ہے تو جنت سے ریحان کے گلدستے کو پاتا ہے اور اس میں اس کی روح رکھی جاتی ہے۔ 24۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ مقربین میں سے کوئی دنیا سے جدا نہیں ہوتا ہے یہاں تک کہ جنت کے خوشبو دار پودوں میں سے ایک ٹہنی لائی جاتی ہے وہ اس کو سونگھتا ہے پھر اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔ 25۔ ابن ابی الدنیا نے ذکر الموت میں بکر بن عبداللہ (رح) سے روایت کیا جب ملک الموت کو حکم کیا جاتا ہے مومن کی روح قبض کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ تو جہنم میں سے ایک دھاری دار کپڑا لایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کی روح کو اسی میں قبض کرو۔ اور جب کافر کی روح کو قبض کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ تو جہنم میں سے ایک دھاری دار کپڑا لایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کی روح کو اسی میں قبض کرو۔ 26۔ البزار وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کا جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو فرشتے ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں۔ اس میں مشک اور ریحان گلدستے ہوتے ہیں۔ تو اس کی روح اس طرح نکالی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے اے پاکیزہ جان باہر نکل (اس حال میں) کہ تو اپنے رب سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے اللہ کی رحمت اور کرامت کی طرف جب اس کی روح نکلتی ہے تو اس کو مشک اور ریحان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اور اس پر ریشمی کپڑا لپیٹ دیا جاتا ہے پھر اسے علیین کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اور کافر کی موت جب قریب آتی ہے تو فرشتے ٹاٹ لے کر حاضر ہوتے ہیں جس میں آگ کے انگارے ہوتے ہیں تو اس کی روح کو سختی کے ساتھ کھینچتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے اے خبیث اور ناپاک روح باہر نکل اللہ تعالیٰ کی جانب سے ذلت اور رسوائی اور اس کے عذاب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے ناراض اور وہ تجھ سے ناراض ہے۔ جب اس کی ورح نکلتی ہے تو ان انگاروں پر رکھا جاتا ہے اور وہ روح اس پر جوش مارنے اور کھولنے لگتی ہے اور پھر اس پر ٹاٹ کو لپیٹ دیتے ہیں۔ پھر اس کو سجین کی طرف لے جاتا ہے۔
Top