Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 88
فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
فَاَمَّآ : پھر اگر اِنْ كَانَ : اگر ہے وہ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین میں سے
پھر اگر وہ (خدا کے) مقربوں میں سے ہے
(فاما ان کان۔۔۔۔۔۔ ) فاما ان گان میں المقربین۔ موت اور بعث کے وقت مخلوق کے طبقات کا ذکر کیا اور ان کے درجات کو بیان کیا اور کہا : اگر یہ فوت ہونے والا مقربین میں سے ہوا جو سابقوں میں (1) فروح وریحان وجنت نعیم۔ عام قرأت فروح ہے وائو پر فتحہ ہے۔ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کے نزدیک اس کا معنی دنیا سے راحت ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : روح سے مراد راحت ہے۔ ضحاک نے کہا : روح سے مراد استراحت ہے (2) قتبی نے کہا : اس کا معنی ہے اس کے لیے قبر میں عمدہ خوشبو ہوگی۔ ابو العباس بن عطاء نے کہا روح سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف دیکھنا ہے۔ ریحان سے مراد اس کی کلام اور وحی کو سننا ہے وجنت نعیم اس سے مراد ہے کہ جنت میں وہ اللہ تعالیٰ سے حجاب میں نہیں ہوگا۔ حضرت حسن بصری، قتادہ، نصر بن عاصم، حجدری، ویس اور زید نے یعقوب سے یہ قرأت نقل کی ہے (3) فروح یعنی راء پر ضمہ ہے : یہ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : روح سے مراد رحمت ہے کیوکنہ مرحوم کے لیے یہ زندگی کی طرح ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے پڑھا فروخ یعنی راء پر ضمہ ہے معنی ہے اس کے لیے جنت میں بقاء اور زن دگی ہے، یہی رحمت ہے۔ وریجان مجاہد اور سعید جیر نے کہا : اس سے مراد رزق ہے۔ مقاتل نے کہا : اس سے مراد حمیر کی لغت میں رزق ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : خرجت اطلب ریحان اللہ میں اللہ تعالیٰ کے رزق کی تلاش میں نکلا۔ نمربن قولب نے کہا : سلا الا لہ وریحانہ یہاں بھی ریحان سے مراد رزق ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد جنت ہے۔ ضحاک نے کہا : مراد رحمت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد وہ معروف ریحان ہے جسے سونگا جاتا ہے : یہ حضرت حسن بصری اور قتادہ کا نقطہ نظر ہے۔ ربیع 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 466 2 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 254 3 ؎۔ ایضاً بن خثیم نے کہا : وہ کے وقت ہوگا اور جنت دوبارہ اٹھائے جانے تک اس کے لیے چھپا کر رکھی جائے گی۔ ابو جوزاء نے کہا : یہ اس کی روح کے قبض کے وقت ہوگا وہ ریحان کا بنڈل پائے گا۔ ابو العالیہ نے کہا : مقربین میں سے کوئی بھی دنیا اپنی روح سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ اسے ریحان کی دو ٹہنیاں دی جائیں گی وہ ان دونوں کو سونگھے گا پھر اس کی روح قبض کی جائے گی۔ ریحان کی اصل اور اس کا اشتقاق سورة رحمن کے آغاز میں گزر چکا ہے اس میں غور و فکر کیجئے۔ ثعلبی نے روح و ریحان میں ان اقوال کے علاوہ اقوال ذکر کیے ہیں جو ہم نے ذکر کیے، جو ان کا ارادہ کرے وہاں سے دیکھ لے۔
Top