Dure-Mansoor - Al-Waaqia : 82
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ
وَتَجْعَلُوْنَ : اور تم بناتے ہو رِزْقَكُمْ : اپنا حصہ اَنَّكُمْ : بیشک تم تُكَذِّبُوْنَ : تم جھٹلاتے ہو
اور تم نے اپنا حصہ یہی تجویز کرلیا ہے کہ جھٹلاتے رہو
35۔ ابو عبید فی فضائلہ سعید بن مبصور عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ ما سے روایت کیا کہ وہ یہ آیت پڑھتے تھے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ اور فرماتے تم بارشوں کو جھٹلاتے ہو اور کسی قوم پر بارش نہیں ہوئی مگر ان کے بعض کافر ہوگئے اور وہ یہ کہتے تھے کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ (یہ آیت) اتاری۔ آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ رزق صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ 36 ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شدید گرمی میں سفر کیا اور لوگ ایسی جگہ پر اترے جہاں پانی نہیں تھا۔ تو ان کو شدید پیاس لگی اور رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے پانی مانگا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا شاید کہ میں ایسا کروں اور تم پیاس بجھالو پھر تم یہ کہوگے کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! یہ ستاروں کا وقت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی منگواکر وضو فرمایا پھر آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو ہوا چلی بادل جمع جمع ہوئے اور انہوں نے بارش برسائی یہاں تک کہ ہر وادی بہنے لگی اور ان کو یقین ہوگیا رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو اپنے پیالے کو بھر رہا تھا اور کہہ رہا تھا یہ فلاں ستارے کے سبب سے ہوئی تو اس پر (یہ آیت) نازل ہوئی۔ آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 37۔ ابن ابی حاتم نے ابو حرزہ ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت انصار میں سے ایک آدمی کے بارے میں غزوہ تبوک میں نازل ہوئی۔ حجر کے مقام پر صحابہ ؓ اترے رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ اس کے پانی میں سے کچھ بھی اٹھائیں۔ پھر روانہ ہوئے اور دوسری منزل پر اترے اور ان کے پاس پانی نہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پانی کی شکایت کی آپ نے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی پھر دعا فرمائی ایک بادل آیا اور اس نے ان پر بارش برسائی یہاں تک کہ وہ اس سے سیراب ہوگئے۔ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنی قوم میں سے دوسرے آدمی سے کہا اور وہ آدمی متہم کیا جاتا تھا نفاق کے ساتھ اس نے کہا تیرے لیے ہلاکت ہے تو دیکھ رہا ہے کہ جونہی نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر آسمان سے بارش برسائی تو اس منافق نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے کے سبب ہم پر بارش ہوئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 38۔ احمد وابن منیع وعبد بن حمید والترمذی وحسنہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والخرائطی فی مساوی الاخلاق وابن مردویہ والضیاء نے المختارہ میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ کے بارے میں فرمایا کہ تمہارا شکریہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہم پر فلاں فلاں بارش والے ستارے نے اور فلاں فلاں نجم کے سبب بارش برسائی گئی۔ 39۔ ابن جریر نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کسی رات بھی قوم پر بارش نہیں ہوئی مگر قوم نے اس کے ساتھ کفر کرتے ہوئے صبح کی پھر فرمایا آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ (یعنی) ایک کہنے والا کہتا ہے ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی۔ بارش برسانا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے 40۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں پر بارش ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لوگوں نے اس حال میں صبح کی کہ بعض ان میں شکر کرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے کفر کرنے والے ہیں جنہوں نے کہا یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ اور بعض لوگوں نے کہا بارش لانے والے ستارے نے اس طرح سچ کیا (یعنی ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی) تو یہ آیت نازل ہوئی آیت ” فلا اقسم بموقع النجوم “ سے لے کر یہاں تک پہنچے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 41۔ ابو عبید نے اپنے فضائل میں سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن زبیر وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ یہ آیت پڑھتے تھے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ اور فرماتے تھے کہ اس سے مراد ستارے ہیں اور کسی قوم پر بارش نہیں ہوتی مگر ان میں بعض کافر ہوجاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 42۔ ابن مردویہ (رح) نے روایت کیا کہ رسول اللہ نے صرف تھوڑی سی آیات کی تفسیر فرمائی۔ ان میں یہ آیت بھی ہے آیت ” تجعلون رزقکم “ یعنی تمہارا شکریہ ہے ( کہ تم کہتے ہو کہ فلان ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ) ۔ 43۔ ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح پڑھا۔ آیت ” تجعلون شکرکم “۔ 44۔ ابن مردویہ نے ابو عبدالرحمن السمی (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ نے فجر کی نماز میں سورة واقعہ پڑھی اور اس طرح پڑھا آیت ” تجعلون شکرکم انکم تکذبون “ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا بلاشبہ میں پہچان چکا ہوں کہ عنقریب ایک کہنے والا کہے گا۔ اس کو اس طرح کیوں پڑھا ؟ بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا جب بارش ہوتی تھی تو لوگ کہتے تھے کہ فلان فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت ” تجعلون شکرکم انکم اذا مطرتم تکذبون “ (اور تم نے اپنے شکو کرو اس طرح باتاتے ہو کہ تم پر اچانک بارش ہوتی ہے تو تم جھٹلاتے ہو) ۔ 45۔ عبد بن حمید وابن جریر نے ابو عبدالرحمن (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ اس طرح پڑھتے تھے آیت ” تجعلون شکرکم انکم تکذبون “۔ 46۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ کے بارے حسن (رح) نے فرمایا کہ کتنا برا ہے اس قوم کے لیے کہ جس نے کتاب اللہ سے سوائے تکذیب کے اپنے لیے کوئی حصہ نہیں بنایا۔ راوی نے کہا اور ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ لوگوں پر نبی ﷺ کے زمانہ میں بارش رک گئی اور وہ قحط زدہ ہوگئے تو ان لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی اگر آپ ہمارے لیے بارش کی دعا مانگیں آپ نے فرمایا عنقریب ایک قوم پانی سے سیراب ہوگی تو وہ کہیں گے کہ ہم کو فلاں فلاں ستارے کے سبب بارش عطا کی گئی پس اللہ کے نبی ﷺ نے بارش طلب فرمائی تو ان پر بارش برسا دی گئی۔ تو ایک آدمی نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے ابھی تک باقی تھی (یعنی ان کی وجہ سے بارش ہوئی) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “۔ 47۔ عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ کے بارے میں روایت کیا کہ ان کا یہ کہنا کہ بارش والے ستاروں میں سے ایک ستارے کے ذریعہ ہم پر بارش ہوئی۔ اور آپ کہتے ہیں تم یوں کہوں۔ ” ہو من عند اللہ تعالیٰ ہو رزقہ “ (کہ بارش اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور وہ اس کا رزق ہے) ۔ 48۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ سے مراد ہے کہ ستاروں سے بارش طلب کرنا تم نے اپنا حصہ بنا رکھا ہے۔ 49۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ کہو آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ سے مراد ہے کہ تم نے بنالیا ہے اپنا حصہ اس میں سے کہ تم جھٹلاتے رہو گے۔ عوف (رح) نے فرمایا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عرب کے مشرکین جب زمانہ جاہلیت میں بارش ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسائی گئی۔ 50۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید والبخاری ومسلم والدارمی والنسائی وابو یعلی اور ابن حبان نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ لوگوں سے بارش کو روک لیں پھر اس کو بھیج دیں تو یقیناً ایک جماعت کافرہوجائے اور وہ کہیں گے کہ یہ ذبح یعنی دبران ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی۔ 51۔ مالک وعبدالرزاق وعبد بن حمید والبخاری وملسم وابوداوٗد والنسائی والبیہقی نے الاسماء والصفات میں زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی۔ صلح حدیبیہ کے دوران بارش کے نشانات پر پھر جب ہم پر متوجہ ہوئے تو فرمایا کیا تم نے نہیں سنا کہ جو کچھ تمہارے رب نے اس آیت میں فرمایا کہ میں اپنے بندوں پر کسی نعمت (کے ستھ) انعام کرتا ہوں تو ان میں سے ایک فریق کفر کرنے لگتا ہے لیکن جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور میری حمد بیان کی میرے بارش عطا کرنے پر تو یہ وہ ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی وہ وہی ہے جو ستاروں پر ایمان لایا اور میرا انکار کیا۔ بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرنا کفر ہے 52۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب ؓ سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کے ذریعہ بارش حاصل کرتے ہیں تو انہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا۔ اور اس ستارے پر ایمان لائے اور جو لوگ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کو پلایا تو وہ اللہ پر ایمان لائے اور اس تارے کا انکار کیا۔ 53۔ عبد بن حمید نے عبداللہ بن محیریز (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان بن عبدالملک نے ان کو بلایا۔ اور کہا اگر تو علم نجوم سیکھ لیتا تو میں تیرے علم میں اضافہ کردیتا۔ تو اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر تین چیزوں کا خوف ہے حکمرانوں کا ظلم کرنا اور تقدیر کو جھٹلانا اور ستاروں پر ایمان لانا۔ تقدیر کو جھٹلانا کفر ہے 54۔ عبد بن حمید نے رجاء بن حیوۃ ؓ سے روایت کیا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا جن چیزوں کے بارے میں کہ میں اپنی امت پر ڈرتا ہوں (وہ یہ ہیں) ستاروں کی تصدیق کرنا۔ اور تقدیر کو جھٹلانا، اور اماموں یعنی حکمرانوں کا ظلم کرنا۔ 55۔ عبد بن حمید وابن جریر جابر سوائی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ میں اپنی امت پر تین چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا۔ اور بادشاہ وقت کا ظلم کرنا اور تقدیر کو جھٹلانا۔ 56۔ احمد نے معاویہ اللیثی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ قحط زدہ ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنے رزق خاص میں سے رزق کو نازل فرماتا ہے مگر وہ مشرک ہوجائیں گے آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! یہ کیسے ہوگا فرمایا وہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش برسائی گئی۔ 57۔ ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کو صبح کے وقت یا شام کے وقت اپنی نعمت (یعنی بارش) سے نوازتا ہے پھر وہ قوم اس کے ساتھ کفر کرنے لگتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش برسائی گئی۔ 58۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ آیت ” تجعلون شکرکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ جو تم پر بارش اور رحمت اتاری گئی اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی۔ اور یہی ان کی طرف سے کفر اور انکار ہے اس انعام کے بدلہ میں جو اللہ نے ان پر کیا۔ 59۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کسی قوم پر بارش نہیں اتاری گئی مگر ان میں سے بعض کافر ہوگئے وہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی پھر ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی آیت ” وتجعلون شکرکم انکم تکذبون “۔ 60۔ ابن جریر نے عطا خراسانی (رح) سے آیت ” وتجعلون رزقکم انکم تکذبون “ کے بارے میں روایت کیا کہ لوگوں پر جب بارش ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی۔ آیت ” فلولا اذا بلغت الحلقوم “۔ 61۔ ابن ماجہ نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ کب بندے کی پہچان لوگوں سے ختم ہوتی ہے ؟ فرمایا جب وہ اپنی آنکھوں سے (موت کے فرشتے کو) دیکھنے لگے۔ 62۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب المحتضرین میں عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اپنے مرنے والوں کے پاس حاضر ہوا کرو اور ان کو (کلمہ شریف) یاد دلایا کرو کیونکہ وہ (ایسی چیز) دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے۔ 63۔ سعید بن منصور ابن ابی شیبہ وابوبکر المروزی نے کتاب الجنائز میں عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اپنے مرنے والوں کے پاس (ان کی موت کے وقت) حاضر ہوا کرو۔ اور ان کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کیا کرو کیونکہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان سے کہا جارہا ہوتا ہے۔ 64۔ سعید بن منصور والمزوری نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ اپنے قریب المرگ لوگوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کیا کرو۔ اور اسے سمجھو جو تم اطاعت کرنے والوں سے نتے ہو کیونکہ ان کے لیے امور صادقہ (یعنی حقائق) ظاہر کردئیے جاتے ہیں۔ 65۔ ابن ابی الدنیا ذکر الموت میں وابو یعلی نے طریق ابی یزید الرقاشی کے طریقے سے تمیم الداری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتے ہیں میرے دوست کے پاس چلا جا۔ اس کو میرے پاس لے آ۔ کیونکہ میں نے اس کو آزمایا ہے خوشحالی میں اور تنگ دستی میں اور میں نے اس کو ویسے ہی پایا ہے جو میں پسند کرتا ہوں۔ اس کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں اس کو راحت پہنچاؤ دنیا کے غموں سے۔ ملک الموت اس کی طرف جاتے ہیں ان کے ساتھ پانچ سو فرشتے ہوتے ہیں جن کے پاس کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے اور ان کے پاس پھولوں کی گلدستے ہوتے ہیں اس پھول کی اصل ایک ہوتی ہے لیکن اس کے اوپر سرے میں بیس رنگ ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک رنگ کی خوشبو ہوتی ہے جو ساتھ والے دوسرے رنگ سے علیھدہ ہوتی ہے اور ان کے ساتھ سفید ریشم ہوتا ہے جس میں اذفر کی مشک ہوتی ہے۔ ملک الموت اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ اور فرشتے اس کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور ان میں سے ہر فرشتہ اپنے ہاتھ کو اس کے اعضاء میں سے کسی عضو پر رکھتا ہے۔ اس کے لیے وہ سفید ریشم اور اذخر کی خوشبو کو اس کی ٹھوڑی کے نیچے بچھا دیتا ہے اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے تو اس کی ذات اس وقت جنت کی طرف دیکھنے میں مشغول ہوجاتی ہے کبھی جنت میں موجود بیویوں کی طرف دیکھتا ہے کبھی ان کے کپڑوں کی طرف اور کبھی اس کے پھلوں کی طرف دیکھتا جیسے جب کوئی بچہ رونے لگتا ہے تو اس کے گھروالے اسے مشغول کردیتے ہیں۔ اور اس کی بیویاں اس وقت اس کی مشتاق ہوتی ہیں اور روح خوشی سے اچھلنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے کہتے ہیں اے پاکیزہ ورح باہر نکل آ۔ بےخار بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں اور جاری پانی کی طرح۔ اور ملک الموت اس سے بہت زیادہ مہربان ہوتا ہے جتنا ماں اپنے بیٹے سے شفقت اور محبت کا اظہار کرتی ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ روح اپنے رب کے ہاں محبوب ہے اور اللہ کے نزدیک عزت والی ہے پس وہ اس روح کے ساتھ اپنی مہربانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی آرزو کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی روح کو نکالتا ہے جیسے بال کو نکالا جاتا ہے آٹے سے۔ اور جب اس کی روح نکلتی ہے تو فرشتے اس کے اردگرد ہوتے ہیں اور کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو جنت میں داخل ہوجاؤ ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے اور اسی کو فرمایا آیت ” الذین تتوفہم الملئکۃ طیبین، یقولون سلم علیکم “ (النحل : آیت 32) (جن کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ پاک ہیں فرشتے کہیں تم پر سلامتی ہو) اور فرمایا آیت ” فاما ان کان من المقربین، فروح وریحان، وجنت نعیم (پھر قیامت کے دن جو شخص مقرب لوگوں میں سے ہوگا تو اس کے لیے راحت ہے اور فراغت کی غذائیں ہیں اور آرام کی جنت ہے) فرمایا اور روح موت کی تلخی اور شدت سے اس کے لیے راحت ہوتی ہے اور جسم سے خارج ہوتے ہی اسے پھولوں کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں۔ اور نعمتوں والی جنت اس کے سامنے ہوتی ہے جب ملک الموت اس کی روح کو قبض کرتے ہیں تو روح جسم سے کہتی ہے کہ تو میرے ساتھ اللہ کی اطاعت کی طرف جلدی کرنے وال اتھا۔ اور اس کی نافرمانی اور گناہ سے بچتا رہا تھا سو آج تجھ کو مبارک ہو (آج) تو نے خود بھی نجات پالی اور مجھے بھی نجات دلائی اور جسم روح سے اسی طرح کہتا ہے اور اس پر زمین کا وہ ٹکڑا روتا ہے جس پر وہ اللہ کی عبادت کرتا تھا۔ اور آسمان کے ہر اس دروازہ سے جس سے اس کے اعمال چرھتے تھے اور اس سے اس کا رزق نازل ہوتا تھا چالیس راتوں تک روتا ہے جب فرشتے اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں تو پانچ سو فرشتے اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں کوئی انسان اس کی طرف اور اس کی کروٹ تبدیل نہیں کرتا مگر فرشتے ان سے پہلے اسے بدل دیتے ہیں اور انسانوں کے کفن پہنانے سے پہلے اس کو کفن پہنا دیتے ہیں اور ان کی خوشبو سے پہلے اس کو خوشبو لگا دیتے ہیں اور اس کے گھر کے دروازے سے اس کی قبر تک فرشتے دو صفوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور استغفار کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں اس وقت ابلیس سخت چیخ مارتا ہے اور اس وجہ سے اس کے جسم کی بعض ہڈیاں گرجاتی ہیں اور وہ اپنے لشکر سے کہتا ہے تمہارے لیے ہلاکت ہو کس طرح یہ بندہ تم سے نجات پا گیا تو وہ کہتے ہیں بیشک آدمی گناہوں سے محفوط رہا اور جب ملک الموت اس کی روح کے ساتھ آسمان پر چڑھتے ہیں تو جبرئیل (علیہ السلام) ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں وہ سب مل کر اسے اپنے رب کے پاس سے لاتے ہیں جب ملک الموت عرش تک پہنچتا ہے تو روح اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتے ہیں میرے بندے کی ورح لے جاؤ اور اسے خار بیریوں میں، اور تہ بہ تہ کیلوں میں اور لمبے سایوں میں اور جاری پانی میں رکھ دو جب جب اس کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے داہنی جانب نماز آجاتی ہے اور روزہ اس کی بائیں جانب آجاتا ہے قرآن اور ذکر اسے کے سر کی طرف آجاتے ہیں، اور نماز کی طرف اس کا چلنا آجاتا ہے اس کے پاؤں کی طرف اور صبر قبر کے ایک کونے میں آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایک گردن عذاب میں سے بھیجتے ہیں وہ اس کی داہنی طرف آجاتی ہے اور نماز کہتی ہے پیچھے ہٹ جا۔ اللہ کی قسم یہ ساری عمر مشقت کرتا رہا۔ اب اس نے آرام پایا ہے جب اس کو قبر میں رکھا گیا پھر وہ گردن اس کی بائیں طرف آتی ہے تو روزہ اسی طرح کہتا ہے پھر وہ اس کے سر کی طرف آتی ہے تو وہ بھی اسی طرح کہتا ہے سو کسی جانب سے بھی عذاب اس کے پاس نہیں آسکتا پھر وہ تلاش کرتا رہتا ہے کیا کسی طرف سے عذاب کے لیے اترنے کی جگہ ہے ؟ مگر اللہ کا ولی یہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی اطاعت نے اسے بچا لیا ہے تو جونہی وہ دیکھتا ہے عذاب اس سے نکل جاتا ہے اور صبر سارے اعمال سے کہتا ہے کہ بیشک اس نے مجھے روکا نہیں کہ میں خود اس سے ملوں مگر اس نے دیکھا لیا ہے جو تمہارے پاس ہے پس اگر تم عاجز آجاتے ہو تو میں اس کا ساتھی ہوتا پس جب تم اسے جزا دلا دی ہے تو میں اس کے لیے ذخیرہ ہوں پل صراط پر اور اس کے لیے ذخیرہ ہوں میزان کے پاس پھر اللہ تعالیٰ دو فرشتوں کو بھیجتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چندھیا کردینے والی بجلی کی طرح ہیں اور ان کی آواز سخت گرج کی طرح ہے۔ اور ان کے نوکیلے دانت مرغ کی خاروں کی طرح ہیں۔ اور ان کی سانس شعلہ کی طرح ہے جو اپنے بالوں کو درست کیے ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک کے دونوں کندھوں کے درمیان اتنااتنا فاصلہ ہے۔ ان سے نرمی اور رحمت کھینچ لی گئی مگر ایمان والوں کے ساتھ نرمی کریں گے ان کو منکر نکیر کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے اگر تمام جن وانس اس پر جمع ہوجائیں تو اس کو نہ اٹھاسکیں۔ وہ دونوں اس سے کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کون ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے تو وہ ان کو جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ وحدہ لا شریک ہے اور اسلام میرا دین ہے اور محمد ﷺ نبی ہیں اور وہ نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں تو وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں کہ تو نے سچ کہا پھر وہی دونوں قبر کو دھکیلتے ہیں۔ اور اس کو کشادہ کردیتے ہیں سامنے کی جانب سے پیچھے کی جانب سے دائیں اور بائیں کی جانب سے اس کے سر کی جانب سے اور اس کے پاؤں کی جانب سے پھر اس سے کہتے ہیں اپنے اوپر کی جانب سے دیکھ وہ دیکھتا ہے تو اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھلا ہوتا ہے۔ وہ اس سے کہتے ہیں اے اللہ کے ولی یہ تیر اگھر ہے۔ جب تو نے اللہ کی اطاعت کی اس ذات قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے۔ کہ اس کے دل کو ایسی فرحت ومسرت حاصل ہوتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی پھر اس سے کہا جائے گا اپنے نیچے دیکھ۔ وہ دیکھے گا تو دوزخ کی طرف دروازہ کھلا ہوتا ہے تو وہ دونوں اسے کہتے ہیں اے اللہ کے دوست تو نے اس سے نجات پالی۔ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت بھی اس کے اس کے دل کو ایسی فرحت حاصل ہوتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور اس کے لیے ستر دروازے جنت کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں جس سے اس کی خوشبو اور اس کی ٹھنڈک اس کے پاس آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی قبر میں سے اٹھا کر جنت کی طرف لے جائے گا۔ لیکن کافر کے لیے اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتے ہیں کہ میرے بندے کی طرف جاؤ اور اس کو میرے پاس لے آؤ۔ میں نے اسے اپنا وسیع رزق عطا فرمایا اور میں نے اس کو اپنی نعمتوں سے نوازا۔ اگر اس نے میری نافرمانی کی اور میری نعمتوں کا انکار کیا۔ اس کو میرے پاس لے آؤ۔ آج میں اس سے انتقام لوں گے۔ ملک الموت کی بارہ آنکھیں ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ کثیر کانٹوں والی آگ کی سلاخیں ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ پانچ سو فرشتے ہوتے ہیں۔ اور ان فرشتوں کے پاس تانبا اور جہنم کے انگاروں میں سے انگارے اور آگ کے کوڑے ہوتے ہیں جو بھڑک رہے ہوتے ہیں۔ ملک الموت ان سلاخوں کے ساتھ اس کو مارتے ہی۔ تو ان سلاخوں میں سے ہر کانٹے کی جڑ ہر با اور اس کی رگوں میں سے ہر رگ میں پیوست ہوجاتی ہے۔ پھر اسے شدت کے ساتھ مروڑ تے ہیں پھر اس کی روح کو اس کے پاؤں کے ناخنوں میں سے کھینچ لیتے ہیں اور اس کو اس کی ایری میں ڈال دیتے ہیں اس وقت اللہ کا دشمن مدہوش ہوجاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے کو اور اس کی دبر پر ان کوڑوں سے مارتے ہیں۔ پھر اس طرح اس کی کوکھ اور اس کے سینے تک لے جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح اس کے حلق تک کھینچ لاتے ہیں۔ پھر فرشتے وہ تانبا اور جہنم کے انگاروں کو۔ اس کی ٹھوڑی کے نیچے بچھا دیتے ہیں پھر ملک الموت کہتے ہیں اے لعنتی اور ملعون جان تو نکل آ۔ آگ اور کھولتے ہوئے پانی کی طرف اور لسیاہ دھویں کے سائے میں جو نہ ٹھندا ہوگا اور نہ فرحت بخش ہوگا۔ جب ملک الموت اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں تو روح جسم سے کہتی ہے اللہ تعالیٰ میری طرف سے تجھ کو برا بدلہ دے۔ جو تو میرے ساتھ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کی طرف تیزی سے بڑھتا رہا۔ میرے ساتھ تو اللہ کی اطاعت میں سستی اور غفلت برتتا رہا۔ تو خود بھی ہلاک ہوا اور مجھے بھی ہلاک کیا اور جسم بھی روح سے اسی طرح کہے گا اور زمین کا وہ ٹکڑا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کیا کرتا تھا۔ وہ اس پر لعنت کرے گا۔ اور ابلیس کے لشکر اس کی طرف چل پڑتے ہیں اور اس کو خوشخبری دیتے ہیں کہ انہوں نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اس کے بندہ کو آگ میں ڈال دیا۔ جب اس کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کی قبر اس پر تنگ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ دائیں پسلیاں بائیں جانب میں اور بائیں پسلیاں دائیں جانب میں گھس جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک کالا سانپ بھیج دیتا ہے وہ اس کی ناک کی نوک اور اس کے قدموں کے انگوٹھوں سے پکڑ لیتے ہیں اور اس کے اندر داخل ہوجاتے ہیں کہ اس کے وسط میں پہنچ کر آپس میں مل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتوں کو بھیجتا ہے وہ اس سے سوال کرتے تیرا رب کون ہے تیرا دین کیا ہے تیرا نبی کون ہے۔ تو وہ جواب دیتا ہے میں نہیں جانتا تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے خود جانا اور نہ تو نے کسی کی اتباع کی پھر فرشتے اس کو سخت مارتے ہیں کہ چنگاریاں اس کی قبر میں اڑتی ہیں۔ پھر وہ اپنی حالت پر لوٹ آتا ہے وہ فرشتے اس کو کہتے ہیں اپنے اوپر دیکھ۔ وہ دیکھتا ہے تو جنت کی طرف دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ اور اس سے کہتے ہیں اے اللہ کے دشمن اگر تو اللہ کی اطاعت کرتا تو تیرا یہ گھر تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس کے دل میں ایسی حسرت پہنچتی ہے جو کبھی نہ ہوگی۔ اور اس کے لیے دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے اے اللہ کے دشمن یہ تیرا مقام ہے جب تو نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور اس کے لیے ستتر دروازے آگ کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔ اس کی گرمی اور اس کی تپش اس کے پاس آتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی قبر سے اٹھا کر جہنم کی طرف لے جائے گا۔
Top