Dure-Mansoor - Al-Baqara : 273
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ١٘ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ١ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠   ۧ
لِلْفُقَرَآءِ : تنگدستوں کے لیے الَّذِيْنَ : جو اُحْصِرُوْا : رکے ہوئے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ نہیں طاقت رکھتے ضَرْبًا : چلنا پھرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں يَحْسَبُھُمُ : انہیں سمجھے الْجَاهِلُ : ناواقف اَغْنِيَآءَ : مال دار مِنَ التَّعَفُّفِ : سوال سے بچنے سے تَعْرِفُھُمْ : تو پہچانتا ہے انہیں بِسِيْمٰھُمْ : ان کے چہرے سے لَا يَسْئَلُوْنَ : وہ سوال نہیں کرتے النَّاسَ : لوگ اِلْحَافًا : لپٹ کر وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
صدقات فقراء کے لئے ہیں جو اللہ کی راہ میں روکے ہوئے ہیں وہ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ سوال سے بچنے کے سبب انجان آدمی انہیں مالدار سمجھتا ہے، تو انہیں پہچان لے گا ان کا نشانی سے، وہ لگ لپٹ کر لوگوں سے سوال نہیں کرتے اور جو بھی کچھ تم خرچ کرو گے، اچھا مال سو اللہ اس کا جاننے والا ہے۔
لوگوں سے سوال نہ کرنے والے فقراء پر صدقہ (1) ابن المنذر نے الکلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (2) بخاری ومسلم نے عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ اصحاب صفہ فقراء تھے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو اس کو چاہیے کہ وہ تیسرے کو ساتھ لے جائے۔ (3) بخاری ومسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اہل صفہ کے ساتھ مل جاؤ ان کو بلاؤ، پھر فرمایا صفہ والے اسلام کے مہمان ہیں، نہیں آرزور کھتے اہل و عیال کی اور نہ مال کی۔ جب آپ ﷺ کے پاس کوئی صدقہ آتا تو آپ ان کو بھیج دیتے اور اس میں سے خود نہ کھاتے اور جب آپ کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو بھی ان کے پاس بھیج دیتے اور اس میں خود بھی کھالیتے۔ (4) ابونعیم نے الحلیہ میں فضالہ بن عبید ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھاتے تو کچھ لوگ بھوک کی وجہ سے نماز میں کھڑے کھڑے گرجاتے اور وہ اہل صفہ تھے یہاں تک کہ بدو لوگ ان کو دیوانہ کہتے۔ (5) ابن سعید، عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں اور ابو نعیم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ اہل صفہ ستر آدمی تھے اور ان میں سے کسی ایک کے پاس (اوڑھنے کے لیے) ایک چادر بھی نہیں تھی۔ (6) ابو نعیم نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ صفہ (یعنی چبوترہ) غریب مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا تو مسلمان ان کی طرف اپنی طاقت کے مطابق صدقات بھیجتے رسول اکرم ﷺ (جب) ان کے پاس تشریف لاتے تو فرماتے السلام علیکم ! اے صفہ والو ! وہ لوگ کہتے وعلیکم السلام یا رسول اللہ ! پھر آپ فرماتے تم لوگوں نے کس حال میں صبح کی۔ وہ عرض کرتے یا رسول اللہ خیر کے ساتھ صبح کی پھر آپ فرماتے تم لوگ آج کے دن بہتر ہو یا اس دن صبح کو تمہارے پاس (کھانے کا) پیالہ ہوگا اور شام کو دوسرا پیالہ ہوگا صبح کو تم ایک جوڑے میں ہوں گے اور شام کو دوسرے جوڑے میں ؟ تو اصحاب صفہ نے عرض کیا ہم اس دن بھی خیر میں ہوں گے ہم کو اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے اور ہم اس کا شکر ادا کریں گے (پھر) رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن تم خیر میں ہو۔ (7) ابن سعید نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد اصحاب صفہ ہیں (کیونکہ) مدینہ طیبہ میں ان کا کوئی گھر بار نہیں تھا نہ کنبہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو (ان پر) صدقہ کرنے پر آمادہ فرمایا۔ (8) سفیان اور عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس قریش کے وہ مہاجرین مراد ہیں جو مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہجرت کر آئے تھے ان پر صدقہ کرنے کا حکم فرمایا گیا۔ (9) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ سے فقراء مہاجرین مراد ہیں مدینہ منورہ میں تھے۔ اپنی زندگی جہاد کے لئے وقف کرنے والے (10) عبدالرزاق، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ سے وہ فقراء مراد ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے روک رکھا ہے اور وہ تجارت کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے۔ (11) عبدبن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ سے مراد وہ قوم ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخم پہنچے اور وہ محتاج ہوگئے تھے (اس لیے) مسلمانوں کی جانوں میں ان کے لیے حق بنا دیا گیا۔ (12) ابن ابی حاتم نے رجاء بن حیوہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لا یستطیعون ضربا فی الارض “ سے وہ لوگ مراد ہیں جو تجارت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (13) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ زمین ساری کی ساری کفر سے بھری پڑی ہے کوئی شخص فضل الٰہی کو تلاش کرنے کے لیے نکلنے کی طاقت نہیں رکھتا جب بھی کفر میں نکلے گا۔ (14) ابن جریر ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو مشرکوں نے مدینہ میں محصور کردیا تھا (اور) لفظ آیت ” لا یستطیعون ضربا فی الارض “ سے مراد تجارت ہے (یعنی تجارت کی طاقت نہیں رکھتے تھے) لفظ آیت ” یحسبہم الجاہل “ سے مراد ہے کہ جاہل ان کی حالت دیکھ کر ان کو مالدار تصور کرتا ہے۔ (15) ابن ابی حاتم نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یحسبہم الجاہل اغنیاء “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات ان کو دیں اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا۔ (16) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” تعرفہم بسیمہم “ سے عاجزی مراد ہے (کہ عاجزی سے آپ ان کو پہچان لیں گے) ۔ (17) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تعرفہم بسیمہم “ سے مراد ہے کہ آپ ان کے چہروں میں سخت حاجت کے (آثار) پہچان لیتے ہیں۔ (18) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تعرفہم بسیمہم “ سے مراد ہے کہ ان کے پرانے کپڑوں سے آپ ان کو پہچان لیتے ہیں۔ (19) ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے یزید بن قاسط السکسکی (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس تھا اچانک ایک آدمی آیا جو سوال کر رہا تھا انہوں نے اپنے غلام کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا پھر اس آدمی سے بھی فرمایا کہ تو بھی اس کے ساتھ چلا جا پھر مجھ سے فرمایا کیا تو کہتا ہے کہ یہ فقیر تھا ؟ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! اس نے سوال نہیں کیا مگر فقر کی وجہ سے تو انہوں نے فرمایا وہ فقیر نہیں ہے جو ایک درہم کو دوسرے درہم کی طرف جمع کرے اور ایک کھجور کو دوسری کھجور کی طرف جمع کرے لیکن فقیر وہ ہے جو اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھے (لیکن) کسی چیز (کے کمانے پر) قادر نہ ہو (اسی کو فرمایا) لفظ آیت ” تعرفہم بسیمہم لا یسئلون الناس الحافا “ وہ فقیر ہے۔ (20) بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ مسکین نہیں ہے کہ اس کو ایک یا دو کھجوریں یا ایک دو لقمے گھماتے رہیں، مسکین وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے اور لوگوں سے اصرار کے ساتھ سوال نہیں کرتا اور تم چاہو تو (یہ آیت) پڑھ لو لفظ آیت ” لا یسئلون الناس الحافا “ (21) ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو تم پر چکر لگاتا رہے اور تم اس کو ایک ایک لقمہ دو بلا شبہ مسکین سوال سے بچنے والا ہے جو لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتا۔ (22) ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چکر لگانے والا مسکین نہیں ہے جس کو ایک یا دو لقمے ایک کھجور یا دو کھجوریں گھماتی رہتی ہیں۔ لیکن مسکین وہ ہے جو نہ پائے اتنی چیز جو اس کو کافی ہوجائے اور لوگون سے سوال کرنے سے شرماتا ہے اور نہ اس کا فقیر ہونا سمجھا جاتا ہے کہ اس پر صدقہ کیا جاتا ہے۔ (23) ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے بلا شبہ اللہ تعالیٰ حلیم، حیادار، غنی، سوال سے پرہیز کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور فحش گو زبان دراز اور سائل لپٹنے والے کو ناپسند فرماتے ہیں۔ (24) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے (لوگوں سے) بےپرواہی اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیں گے۔ اور جس شخص نے لوگوں سے لپٹ کر سوال کیا۔ تو گویا اس نے آگ کی کثرت کو طلب کیا۔ (25) مالک، احمد، ابو داؤد، اور نسائی نے بنو سعد کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ چاندی موجود ہے اور (پھر بھی) وہ سوال کرے تو اس نے (لوگوں سے) لپٹ کر سوال کیا۔ (26) ابن جریر نے ابن زید سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحافا “ سے وہ شخص مراد ہے جو مانگنے میں اصرار کرتا ہے۔ (27) ابن سعد نے سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ ان سے جب کوئی اللہ کے نام سے سوال کرتا تھا تو اس کو عطا فرما دیتے تھے۔ لیکن وہ اس کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ لپٹ کر سوال کرنا ہے۔ (28) ابن ابی شیبہ نے عطاء ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ دنیا کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ یا قرآن کے واسطہ سے مانگی جائے۔ صدقہ کا اجرو ثواب (29) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت کیا کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کیا گیا اور اس نے عطا کردیا تو اس کو ستر اجر ملیں گے۔ (30) ابن ابی شیبہ، بخاری مسلم اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے برابر سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے چہرہ میں گوشت کی بوٹی نہ ہوگی۔ (31) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) نسائی اور ابن حبان نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوال کرنا گویا خراش لگانا، خود نوچنا ہے اور سوال کے ذریعے انسان اپنے چہرے کو نوچتا ہے اور جو چاہے اپنے چہرے کو اسی حال میں باقی رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ مگر یہ کہ بادشاہ سے سوال کرے (تو اس کے لیے یہ سزا نہیں ہے) یا مجبور ہو کر سوال کرے اس کام کے بارے۔ (32) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا سوال کرنا ایک خراش ہے جو مانگنے والے کے چہرہ میں ہوگی سو جو شخص چاہے اپنے چہرہ پر اس کو باقی رکھے۔ (33) بیہقی نے حضرت بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے لوگوں سے سوا کیا بغیر فاقہ کے جو اس کو پہنچ جائے تو اس پر یا اس کے عیال پر ایسا فاقہ ظاہر ہوگا جس کی وہ طاقت نہیں رکھیں گے اور وہ قیامت کے دن ایسے چہرہ کے ساتھ آئے گا جس پر گوشت نہ ہوگا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے اوپر (لوگوں سے) مانگنے کا دروازہ کھول لیا بغیرفاقہ کے اس کو پہنچ جائے اس پر یا اس کے عیال پر ایسا فاقہ نازل ہوگا کہ وہ برداشت نہیں کرسکیں گے اللہ تعالیٰ اس پر ایسی جگہ سے فاقہ کا دروازہ کھولے گا۔ جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ (34) الطبرانی حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوع روایت کیا ہے کہ صدقہ مال کو کم نہیں کرتا جو بندہ اپنے ہاتھ کو صدقہ (دینے) کے لیے لمبا کرتا ہے تو (گویا) وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں پہنچتا ہے سائل کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے اور کوئی بندہ اپنے اوپر سوال کا دروازہ مالداری کے حاصل کرنے کے لیے کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ (35) احمد ترمذی ( اور اس کو صحیح کہا) اور ابن ماجہ نے ابو کبشہ انماری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تین کام ایسے ہیں کہ ان پر میں قسم اٹھاتا ہوں اور میں تم کو ایک بات بیان کرتا ہوں تم اس کو یاد کرلینا بندہ کا مال صدقہ سے کم نہیں ہوتا اور کسی بندہ پر ظلم ہوتا ہے اور پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کی عزت بڑھا دیتے ہیں جو بندہ (لوگوں سے سوال کرنے کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور میں تم کو ایک بات بیان کرتا ہوں تم اس کو یاد کرلینا (فرمایا) بلاشبہ دنیا چار آدمیوں کے لیے ہے وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دیا اور وہ اس کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے اور اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی جانتا ہے تو یہ افضل منزل ہے اور وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا اور مال نہیں دیا لیکن سچی نیت والا ہے اور کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اسی آدمی کی طرح (صلہ رحمی) کرتا تو یہ آدمی اپنی نیت پر ہوگا اور دونوں کا ثواب برابر ہوگا اور وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا مگر علم نہیں دیا تو وہ اپنے مال کو برباد کرتا ہے بغیر علم کے اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور صلہ رحمی نہیں کرتا اور اس میں اندر کے حق کو نہیں جانتا تو یہ بدترین منزل ہے اور وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ مال دیا اور نہ علم دیا لیکن وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اسی آدمی کی طرح خرچ (برباد) کرتا تو یہ آدمی اپنی نیت پر ہوگا اور دونوں کا گناہ برا بر ہوگا۔ بلا ضرورت مانگنا گناہ ہے (36) النسائی نے عائذ بن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر سوال کیا آپ نے اس کو عطا فرمایا جب اس نے اپنا پاؤں دروازے کی چوکھٹ پر رکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم جانتے کہ مانگنے پر کیا (گناہ) ہے تو کوئی کسی کے پاس مانگنے کے لیے نہ جاتا۔ (37) الطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مانگنے والا اس بات کو جانتا کہ اس (مانگنے) میں اس کے لیے کتنا (گناہ) ہے تو وہ کبھی نہ مانگتا۔ (38) احمد، البزار اور الطبرانی نے عمرو بن حصین ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غنی آدمی کا سوال کرنا اس کے چہرے میں ایک عیب ہوگا قیامت کے دن اور غنی آدمی کا سوال کرنا (گویا) آگ ہے اگر اس کو تھوڑا دیا گیا تو تھوڑی آگ ہوگی اگر اس کو زیادہ دیا گیا تو زیادہ آگ ہوگی۔ (39) احمد البزار اور الطبرانی نے ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس حال میں سوال کیا کہ وہ غنی تھا تو قیامت کے دن اس کے چہرے پر یہ عیب ہوگا۔ (40) الطبرانی نے الاوسط میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص مالدار ہو کر سوال کرے گا۔ وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر خراشیں ہوں گی۔ (41) الحاکم نے (اس کو صحیح کہا) عروہ بن محمد بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا اور ان کے والد نے ان کو بتایا کہ بنو سعد بن بکر کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے میں بھی (ان کے ساتھ) آیا۔ جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھے کتنی مالداری عطا فرمائی ہے پس تو لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کر۔ کیونکہ اوپر والا ہاتھ وہی دینے والا اور نیچے والا ہاتھ وہی لینے والا ہے اور بلاشبہ اللہ کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور (وہی) دینے والا ہے۔ راوی نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ نے ہماری لغت میں کلام فرمائی۔ (42) بیہقی نے مسعود بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی (یعنی اس کا جنازہ) لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز پڑھیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا اس نے کتنے پیسے چھوڑے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا دو دینار یا تین دینار۔ آپ نے فرمایا اس نے دو یا تین دینار۔ آپ نے فرمایا اس نے دو یا تین داغ چھوڑے ہیں۔ میں عبد اللہ بن قاسم سے ملا جو ابوبکر ؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ میں نے یہ بات ان سے بیان کی تو انہوں نے کہا یہ آدمی لوگوں سے مال اکٹھا کرنے کے لیے مانگا کرتا تھا۔ (43) ابن ابی شیبہ، ابن خزیمہ، طبرانی اور بیہقی نے حبشی بن جنادہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو آدمی بغیر ضرورت کے (لوگوں سے) سوال کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو انگارے چنا ہے اور ابن ابی شیبہ کے الفاظ یوں ہیں : جس شخص نے لوگوں سے اس لیے سوال کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے مال کو زیادہ کرے تو اس کے چہرے میں خراش کا باعث ہوگا۔ اور گرم پتھر ہوں گے جہنم سے جس کو وہ قیامت کے دن کھائے گا۔ اور یہ بات آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائی۔ (44) ابن ابی شیبہ، مسلم اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کیا تو گویا اس نے انگاروں کا سوال کیا پس چاہے کم جمع کرے یا زیادہ جمع کرے۔ (45) عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند میں اور طبرانی نے الاوسط میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مالداری کے ہوتے ہوئے سوال کیا تو اس نے جہنم کے گرم پتھروں کو اس کے ذریعہ زیادہ کرلیا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ مالداری کی مقدار کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا رات کا کھانا (یعنی جس کے پاس رات کا کھانا موجود ہے تو وہ مالدار ہے) ۔ (46) احمد، ابو داؤد، اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے سہل بن حنظلیہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی چیز کا سوال کیا اور اس کے پاس اتنی مقدار موجود تھی جو اس کو کافی ہوجاتی تو وہ جہنم کے انگاروں کو زیادہ کرتا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کتنی مقدار ہے جو اس کو کافی ہوجائے آپ ﷺ نے فرمایا وہ مقدار جو صبح کے کھانے کو یا رات کے کھانے کو کافی ہوجائے۔ بلا ضرورت مانگنے والوں کے لئے وعید (47) ابن حبان نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے لوگوں سے اس لیے سوال کیا تاکہ اس کا مال زیادہ ہوجائے تو یہ اس کے لیے آگ کا گرم پتھر ہے جو اس کو بھڑکاتا ہے سو جو شخص چاہے کم سوال کرے جو چاہیے زیادہ کر کے۔ (48) ابن ابی شیبہ نے ابن ابی یعلی (رح) سے روایت کیا کہ ایک سائل آیا اور اس نے ابوذر ؓ سے سوال کیا انہوں نے اس کو کچھ عطا فرمایا ان سے کہا گیا آپ نے اس کو عطا فرمایا حالانکہ وہ مالدار ہے تو انہوں نے فرمایا وہ سائل ہے اور سائل کا حق ہوتا ہے قیامت کے دن یہ خواہش کرے گا اور یہ اس کے ہاتھ میں گرم پتھر ہوگا۔ (49) مسلم، ترمذی اور نسائی نے عوف بن مالک اشجعی ؓ سے روایت کیا کہ ہم سات یا آٹھ یا نو تھے آپ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے ؟ ہم نے عرض کیا ہم کو آگاہ فرمائیں ہم کن باتون پر آپ سے بیعت کریں ؟ فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے کسی کو شریک نہ بناؤ گے اور پانچوں نمازیں قائم کرو گے اور (ہر حکم کی) اطاعت کروگے اور لوگوں سے سوال نہ کرو گے۔ راوی نے کہا میں نے ان میں سے بعض لوگوں کو دیکھا کہ اگر ان میں سے کسی کا کوڑا گرجاتا تھا تو وہ کسی سے سوال نہیں کرتے تھے کہ اس کو اٹھا کر دے دے۔ (50) احمد نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے بلا کر فرمایا کیا تو بیعت نہیں کرتا کہ تجھے جنت مل جائے ؟ میں نے عرض کیا ہاں ضرور بیعت کروں گا آپ نے یہ شرط لگائی کہ میں لوگوں سے کچھ بھی سوال نہیں کروں گا میں نے عرض کیا ٹھیک ہے آپ نے فرمایا اپنے کوڑے کا بھی سوال نہیں کرے گا اگر وہ تجھ سے گرجائے یہاں تک خود اتر کو اس کو اٹھائے گا۔ (51) احمد نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا ہے بعض اوقات حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ سے (اونٹ) کی مہار گرجاتی تو آپ اپنی اونٹنی کے بازو پر مارتے اور اس کو نیچے بٹھا دیتے پھر اس (مہار) کو اٹھا لیتے۔ لوگ ان سے کہتے آپ ہم کو حکم فرماتے تو ہم آپ کو اٹھا دیتے اس پر انہوں نے فرمایا میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو حکم فرمایا کہ میں کسی سے کچھ بھی سوال نہ کروں۔ (52) الطبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون (مجھ سے) بیعت کرے گا ثوبان ؓ نے عرض کیا یا رسول ﷺ ! ہم (آپ سے) بیعت کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس بات پر بیعت کرو کہ تم کسی سے کچھ بھی سوال نہ کروگے ثوبان ؓ سے عرض کیا پھر اس کے لیے یا رسول اللہ ! کیا (بدلہ) ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا جنت پس ثوبان ؓ سے بیعت کرلی۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں نے ثوبان کو لوگون کی بھیڑ میں دیکھا وہ اونٹنی پر سوار ہوتے تھے اور ان کو کوڑا کسی وقت کسی آدمی کی گردن پر گر جاتا تھا تو وہ آدمی ان کو اٹھا کردینے لگتا تھا تو وہ اس سے نہ لیتے تھے یہاں تک کہ وہ خود اتر کر اس کو اٹھاتے تھے۔ سوال نہ کرنے والوں کے لئے جنت کی بشارت (53) احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ کو اس بات کی ضمانت دے کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں میں نے عرض کیا اس کی میں ضمانت دیتا ہوں تو وہ کسی سے کچھ بھی سوال نہیں کرتے تھے اور ابن ماجہ میں یوں ہے کہ ثوبان ؓ کا سوار ہونے کی حالت میں کوڑا نیچے گرجاتا تھا تو وہ کسی کو اٹھانے کے لیے نہ کہتے تھے یہاں تک کہ نیچے اتر کر اس کو خود ہی اٹھاتے تھے۔ (54) احمد، بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حکیم بن حزام ؓ سے روایت کیا میں نے سوال کیا پھر آپ نے عطا فرمایا اے حکیم ! یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے جس نے اس کو نفس کی سخاوت کے ساتھ حاصل کیا اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور یہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب میں آپ کے بعد کسی سے مال نہیں لوں گا یہاں تک کہ میں دنیا سے جدا ہوجاؤں گا۔ حضرت ابوبکر ؓ سے حکیم کو بلوالیا تاکہ اس کو کچھ عطا فرمائیں تو وہ کچھ لینے سے انکار کردیتے پھر حضرت عمر ؓ سے ان کا بلوایا تاکہ اس کو کچھ عطا فرمائیں تو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حکیم ؓ سے کبھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگی نبی اکرم ﷺ کے بعد یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ (55) احمد نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تین باتوں کو میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اس لیے تم صدقہ کرو۔ اگر کوئی بندہ ظلم کو معاف کر دے (جو اس پر ہوا) تو اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس کی عزت بڑھا دیں گے اور کوئی اگر (لوگوں سے) سوال کرنے کا دروازہ کھول لے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر کا دروازہ کھول دیں گے۔ (56) احمد ابو یعلی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے فلاں فلاں کو اچھی تعریف کرتے ہوئے سنا۔ وہ اس بات کا ذکر کر رہے تھے کہ آپ نے ان کو دو دو دینار عطا فرمائے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لیکن فلاں ایسا نہیں کرتا جبکہ میں نے اس کو دس سے سو تک (دینار) عطا کیے وہ تو ایسا نہیں کہتا ہے اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی ایک ایسی چیز کا سوال کرنے کے لیے نکلتا ہے جو میرے پاس ہے تو (گویا) وہ اپنی بغل میں آگ کو لے کر نکلتا ہے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کو آپ کیوں عطا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں کیا کروں وہ لوگ مجھ سے مانگے بغیر راضی نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ میرے لیے بخل کا انکار فرماتے ہیں۔ (57) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے قبیصہ بن مخارق ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ایک ضمانت کا بوجھ اٹھا لیا۔ تو میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بارے میں (مدد کرنے کا) سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جا یہاں تک کہ ہمارے پاس کوئی صدقہ آجائے گا تو ہم تیرے لیے اس کا حکم کردیں گے۔ پھر فرمایا اے قبیصہ سوال کرنا تین میں سے ایک کے لیے جائز ہے۔ وہ آدمی جو کسی کی ضمانت کا بوجھ اٹھا لے۔ تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ضمانت ادا کرے پھر رک جائے (مزید آگے سوال نہ کرے) دوسرا وہ آدمی جس کو کوئی آفت پہنچ جائے (اور) اس کا مال برباد ہوجائے تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کی قوم میں سے تین عقل والے یوں کہیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچ گیا تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کی معیشت درست ہوجائے یا فرمایا زندگانی کا ضروری سامان حاصل کرلے اے قبیصہ ! ان کے علاوہ سوال کرنا حرام کمانا ہے جو اس کو حرام طریقے سے کھاتا ہے۔ (58) البزار، الطبرانی اور البہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں سے بےپرواہ ہوجاؤ اگرچہ مسواک رگڑ نا ہو یا اس میں جو ریزہ ریزہ ہو کر نکلتا ہے (مطلب یہ ہے کہ ایسی بےحقیقت چیز بھی کسی سے نہ مانگو) ۔ (59) البزار نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ غنی اور حلیم ہیں سوال سے بچنے والے کو پسند فرماتے ہیں اور فحش گو، فاجر اور اصرار سے سوال کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔ (60) البزار نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے ایک وعدہ فرمایا تھا جب قریظہ (مسلمانوں کے ہاتھوں) فتح ہوگیا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ میرے وعدہ کو پورا فرمائیں (اس وقت) میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو آدمی استغناء اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو غنی فرما دیتے ہیں اور جو آدمی قناعت کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قناعت کرنے والا بنا دیتے ہیں (اس دعا کو سن کر) میں نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں گا۔ (61) مالک، بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر (کھڑے ہو کر) صدقہ اور لوگوں سے سوال کرنے سے بچنے کا ذکر فرمایا (اور یہ فرمایا) کہ اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے اور اوپر والا ہاتھ وہ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ وہ سوال کرنے والا ہے۔ (62) ابن سعد نے عدی جذامی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اے لوگو ! تم سیکھ لو کہ بلاشبہ ہاتھ تین قسم کے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ سب سے اونچا ہے اور دینے والا درمیانہ ہے اور لینے والا ہاتھ نیچا ہے سو تم (لوگوں سے) بےنیازی اختیار کرو اگرچہ لکڑی کے ایک گھٹے کے ساتھ ہو۔ (63) البیہقی نے الاسماء والصفات میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاتھ تین قسم کے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ وہ سب سے اونچا ہے اور عطا کرنے والے کا ہاتھ جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے قریب ہے اور سوال کرنے والا ہاتھ نیچا ہے قیامت کے دن تک۔ سو تو سوال کرنے سے بچ جہاں تک تیری طاقت ہو۔ (64) الطبرانی نے الاوسط میں سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمد ﷺ جب تک آپ چاہیں زندہ رہیں مگر ایک دن آپ کو مرنا ہے جو آپ چاہیں عمل کریں مگر اس کا بدلہ (ضرور) ملے گا اور جس سے چاہیں محبت کریں آپ اس سے (ایک دن) جدا ہونے والے ہیں اس اس کی عزت لوگوں سے بےنیازی میں ہے۔ (65) بخاری مسلم ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تو نگری سامان کی کثرت کا نام نہیں لیکن تونگری دل کی تونگری ہے۔ (66) ابن حبان نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر ! کیا تو خیال کرتا ہے کہ زیادہ مال والا غنی ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! پھر فرمایا کیا تو خیال کرتا ہے کہ مال کا تھوڑا ہونا غریبی ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا بلکہ حقیقی غنادل کا غنا ہے، حقیقی فقر دل کا فقر ہے۔ (67) مسلم اور ترمذی نے عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص فلاح پا گیا جو اسلام لایا اور اتنا رزق دیا گیا جو کافی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ دیا اس پر اس کو قناعت عطا فرما دی۔ (68) ترمذی اور حاکم نے (اور دونوں نے اس کو صحیح کہا) فضالہ بن عبید ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اسلام کی طرف ہدایت دیا گیا اور اس کی معیشت بقدر کفایت ہو اور اس پر قناعت کرتا ہے۔ (69) الطبرانی نے الاوسط میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لالچ سے بچو کیونکہ وہی غربت ہے اور اس بات سے بچو جس سے معذرت کرنی پڑی۔ (70) الحاکم نے (اور اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے الزھد میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے جو مختصر ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس سے ناامید ہوجاؤ اور لالچ سے بچ کیونکہ وہ ایسا فقر ہے جو حاضر ہے اور ایسی بات سے بچ جس سے معذرت کرنی پڑے۔ (71) بیہقی نے الزہد میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قناعت ایسا خزانہ ہے جو فنا نہیں ہوتا۔ ہاتھ کی کمائی کھانے کی تاکید احمد، ابوداؤد، ترمذی نے (اس کو حسن کہا) نسائی اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر سوال کیا آپ نے اس سے پوچھا تیرے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا ہاں ایک کملی ہے اس کے بعض ہم اوڑھتے ہیں اور بعض بچھاتے ہیں اور ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں آپ نے فرمایا دونوں چیزیں لے آؤ جب وہ لے آیا تو آپ نے ان دونوں چیزوں کو ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ ان دونوں چیزوں کو کون خریدتا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا میں ان دونوں کو ایک درہم کے بدلہ میں لیتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا دو یا تین مرتبہ کہ کون ایک درہم پر زیادہ کرتا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں لیتا ہوں آپ نے اس کو دونوں چیزیں دے کر دو درہم لے لیے۔ اس انصاری کو دونوں درہم دے کر فرمایا۔ ایک درہم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ اور دوسرے درہم سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آ۔ وہ لے آیا تو آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس میں لکڑی لگا دی۔ پھر فرمایا چلا جا اس سے لکڑیاں کاٹ کر بیچو میں تجھ کو پندرہ دنوں تک نہ دیکھوں اس نے ایسا ہی کیا اور پندرہ (درہم) کما لے آیا۔ اس نے کچھ پیسوں سے کپڑے خریدے اور کچھ سے کھانا خریدا۔ تو (اس پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ تیرے لیے بہتر ہے کہ تو لوگوں سے سوال کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن اپنے چہرے پر خراش لائے۔ سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے صحیح ہے : اس شخص کے لیے جس کو افلاس نے مٹی سے لگا دیا ہو (یعنی بچھونا تک بھی نہ ہو) اور اس شخص کے لیے جو خوفناک حد تک مقروض ہو اور اس شخص کے لیے جو دوسرے کی جان بچانے کے لیے دیت کا ضامن ہو۔ (73) ابن ابی شیبہ، بخاری اور ابن ماجہ نے زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص تم میں سے لکڑیاں جمع کرے اور ان کا گٹھڑا باندھ کر اپنی پیٹھ پر لاد کرلے آئے (اور) ان کو بیچے (تاکہ) اپنے چہرہ کو (لوگوں سے سوال کرنے سے) بچائے۔ یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے (اب) لوگ اس کو دیں یا نہ دیں۔ (74) مالک، بن شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا کوئی آدمی اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد کر لائے۔ یہ بہتر ہے اس کے لیے کہ وہ کسی سے سوال کرے اور وہ آدمی اس کو دے یا منع کردے (75) الطبرانی اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں جو کمانے والا ہو۔ (76) احمد، طبرانی، ابو داؤد اور نسائی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے لوگوں سے استغناء اختیار کیا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیں گے اور جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیتے ہیں اور جس شخص نے کفایت کو طلب کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کفایت فرماتے ہیں۔ اور جس شخص نے اس حال میں سوال کیا کہ اس کے پاس اوقیہ چاندی کی قیمت موجود تھی تو (گویا) اس نے لپٹ کر سوال کیا (جو حرام ہے) ۔ بلا ضرورت سوال سے ملنے والا مال منحوس ہے (77) احمد، مسلم اور نسائی نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لپٹ کر سوال نہ کرو اللہ کی قسم تم میں سے کوئی ایک مجھ سے سوال نہیں کرتا کہ اس کا سوال مجھ سے کوئی چیز نکال دے اور میں اس کو ناپسند کرنے والا ہوتا ہوں تو اس کے لیے اس مال میں جو نے دیا برکت ڈال دی جائے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ (78) ابو یعلی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لپٹ کر سوال نہ کرو جو اس طریقہ پر ہم سے لے گا اس میں برکت نہ ہوگی۔ (79) ابن حبان نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے میں اس کو عطا کرتا ہوں پھر وہ چلا جاتا ہے تو (گویا) وہ اپنی گود میں آگ کو اٹھاتا ہے۔ (80) ابن حبان نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان میں کہ رسول اللہ ﷺ سونا تقسیم فرما رہے تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھ کو عطا فرمائیے آپ نے اس کو عطا فرمایا پھر اس نے کہا مجھے زیادہ دیجئے۔ آپ نے تین مرتبہ عطا فرمایا پھر وہ پیٹھ پھیر کر چلا گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے میں اس کو دیتا ہوں پھر مجھ سے سوال کرتا ہے میں اس کو دوبارہ دیتا ہوں پھر وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے (گویا) وہ اپنے کپڑے میں آگ لے کرجاتا ہے جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کرجاتا ہے۔ (81) ابو یعلی اور ابن حبان نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ فلاں آدمی (اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کرے اور وہ یاد کرتا ہے کہ آپ نے اس کو دو دینار عطا فرمائے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن فلاں آدمی کو میں نے دس سے سو تک دئیے تھے اس نے شکر ادا نہیں کیا وہ کیا کہتا ہے بلاشبہ تم میں سے کوئی میرے پاس اپنی حاجت کے لیے آتا ہے تو (گویا) وہ اپنی بغل میں آگ کو دباتا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے ان کو کیوں دیا ؟ آپ نے فرمایا وہ لوگ سوال کرنے میں مجھ سے انکار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ میرے لیے بخل کا انکار فرماتے ہیں (یعنی بخل نہ کرنے کا حکم فرماتے ہیں) ۔ (82) احمد، البزار اور ابن حبان نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ یہ مال ہرا بھرا اور میٹھا ہے جس شخص کو ہم اس میں سے کوئی چیز اپنے دل کی خوشی سے دیں اور اس کی طرف سے عمدہ طلب ہو لالچ کی بنا پر نہ ہو تو اس میں برکت دی جائے گی اور جس شخص کو ہم اس دنیا میں عطا کریں دل کی خوشی کے بغیر اور اس کی طرف سے اچھی طلب نہ ہو اور اس کا دل لالچ کر رہا ہو تو اس میں ان کے لیے برکت نہیں ہوگی۔ حضرت عمر ؓ کا عطیہ لینے سے انکار (83) بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کچھ عطا فرمایا میں نے عرض کیا (یہ مال) اس شخص کو عطا فرمائیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو آپ نے فرمایا اس کو لے لو جب تیرے پاس اس مال میں سے کوئی چیز نہ آئے اس حال میں کہ نہ تیرے دل میں کوئی خواہش تھی نہ تو سوال کرنے والا تھا تو اس کو لے لیا کرو اور اس کو جمع کرلیا کرو اگر تم چاہو تو اس کو کھالو اور اگر چاہو تو اس کو صدقہ کر دو اور مال کے پیچھے اپنے دل کو نہ لگاؤ سالم بن عبد اللہ نے فرمایا اس وجہ سے حضرت عبد اللہ ؓ کسی سے سوال نہ کرتے تھے اور جو چیز ان کو دی جاتی وہ واپس کردیتے تھے۔ (84) مالک نے عطاء بن یسار ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کی طرف مال بھیجا اس کو حضرت عمر نے واپس کردیا یا رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تو نے اس کو کیوں واپس کیا ؟ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ نے ہم کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم میں سے بہتر وہ ہے جو کسی سے کوئی چیز نہ لے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سوال کرنے کے بارے میں ہے لیکن وہ جو بغیر مانگے ملے وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ اس کو رزق عطا فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا اور جو چیز بغیر مانگے میرے پاس آئے گی تو اس کو لے لوں گا۔ (85) بیہقی نے زید بن اسلم (رح) کے طریق سے ان کے والد سے روایت کیا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا۔ (86) احمد اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ رضی للہ عنہا ! جو شخص کوئی چیز تجھ کو بغیر مانگے دے تو اس کو قبول کرلینا کیونکہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تیری طرف بھیجا ہے۔ (87) ابو یعلی نے کہا واصل بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تیرے لیے بہتر یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی سے سوال نہ کر آپ نے فرمایا وہ مسئلہ تھا سوال کرنے کا اور جو تمہارے پاس بغیر سوال کے آئے وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تجھ کو رزق دیا ہے۔ (88) ابو یعلی، احمد، ابن حبان، طبرانی اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) خالد بن عدی جہنی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی اچھی چیز پہنچ جائے بغیر سوال کیے اور بغیر دل کی خواہش کے تو اس کو چاہیے کہ اس کو قبول کرے اور اس کو رد نہ کرے کیونکہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ (89) احمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ کوئی چیز اس مال میں سے بغیر سوال کیے عطا فرمائے تو اس کو چاہیے کہ اس کو قبول کرے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف بھیجا ہے (90) احمد، طبرانی، اور بیہقی نے عائذ بن عمر وؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اس رزق میں سے کوئی چیز پیش کی جائے۔ بغیر سوال کئے اور بغیر لالچ کے تو اس کے چاہیے کہ اس کے ذریعہ اپنے رزق میں وسعت کرے اگر وہ (خود) مالدار ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو اس کی طرف بھیج دے تو اس سے زیادہ محتاج ہے۔ (91) ابن ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں سے مستغنی ہوجاؤ اگرچہ مسواک کے ایک خشک ٹکڑے کے ساتھ ہو۔ سوال کب حلال ہے ؟ (92) ابن ابی شیبہ نے حبشی بن جنادہ سلولی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور آپ کے پاس ایک دیہاتی نے آکر سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ سوال کرنا حلال نہیں ہے مگر ایسے فقیر کے لیے کہ جس کو افلاس نے مٹی سے لگا دیا ہو ایسے قرض کی وجہ سے جو خوفناک حد تک پہنچا ہو۔ (93) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ یوں فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں فضول بحث اور تکرار کرنے کو، مال کے ضائع کرنے کو اور کثرت سے سوال کرنے کو۔ جب تو چاہے اس شخص کو دیکھ لے جو فضول بحث و تکرار کرے اور وہ رات کو لوٹتا ہے تو مردار اپنے سر پر رکھے ہوئے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے دن میں اور اس کی رات میں کوئی حصہ نہیں بناتا (ثواب میں سے) اور جب تو چاہے اس مال والے کو دیکھ لے جو اپنی خواہشات میں سے اور اپنی لذتوں میں اور اپنے کھیل کود میں مال کو صرف کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حق سے ہٹا ہوا ہے تو یہی مال کا ضائع کرنا ہے اور جب تو چاہے اس شخص کو دیکھ لے جو اپنے ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے اور لوگوں سے مانگ رہا ہے جب دیا جاتا تو ان کی خوب زیادہ تعریفیں کرتا ہے اور اگر نہیں دیا جاتا ہے تو ان کی خوب زیادہ برائی بیان کرتا ہے۔ (94) الطبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی وسعت سے دینے والا افضل نہیں ہے لینے والے سے جب کہ وہ (لینے والا) محتاج ہو۔ (95) ابن حبان نے الضعفاء میں انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو اپنی وسعت کی وجہ سے کسی (محتاج) کو دیتا ہے اس شخص سے زیادہ زجر والا نہیں ہے جو قبول کرتا ہے اگر وہ محتاج ہے۔ (96) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) وسلم سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما تنفقوا من خیر فان اللہ بہ علیم “ سے مراد ہے کہ جو تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے وہ اس (خرچ کرنے کو) جانتا ہے اور اس کی قدر دانی کرنے والا ہے اور بلاشبہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر قدر دانی کرنے والا نہیں اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بہتر بدلہ دینے والا نہیں۔
Top