Al-Qurtubi - Al-Baqara : 273
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ١٘ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ١ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠   ۧ
لِلْفُقَرَآءِ : تنگدستوں کے لیے الَّذِيْنَ : جو اُحْصِرُوْا : رکے ہوئے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ نہیں طاقت رکھتے ضَرْبًا : چلنا پھرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں يَحْسَبُھُمُ : انہیں سمجھے الْجَاهِلُ : ناواقف اَغْنِيَآءَ : مال دار مِنَ التَّعَفُّفِ : سوال سے بچنے سے تَعْرِفُھُمْ : تو پہچانتا ہے انہیں بِسِيْمٰھُمْ : ان کے چہرے سے لَا يَسْئَلُوْنَ : وہ سوال نہیں کرتے النَّاسَ : لوگ اِلْحَافًا : لپٹ کر وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اور ہاں تم جو خرچ کرو گے) تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ خدا اس کو جانتا ہے
آیت : نمبر، 273۔ اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” للفقرآء۔ اس میں لام (آیت) ” وما تنفقوا من خیر “ کے متعلق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ محذوف کے متعلق ہے اور تقدیر عبارت ہے : الانفاق او الصدقۃ للفقراء، سدی مجاہد وغیرہمانے کہا ہے : ان فقراء سے مراد فقراء مہاجرین ہیں جو قریش اور دوسرے قبائل سے تعلق رکھتے تھے، پھر یہ آیت ہر اس کو شامل ہے جو مستقبل میں فقراء کی صفت کے تحت داخل ہوگا اور مہاجرین فقراء کو ذکر کے ساتھ خاص اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ وہاں ان کے سوا کوئی (فقیر) نہ تھا، اور یہ فقراء اہل صفہ تھے اور تقریبا چار سو افراد تھے، وہ فقر و افلاس کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے نہ ان کے اہل و عیال تھے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی مال تھا پاس انکے لئے رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں ایک صفہ (سیاہ دار چبوترہ) تعمیر کیا گیا، پس ان کو اہل صفہ کہا گیا۔ حضرت ابوذر ؓ نے بیان فرمایا ہے : میں اہل صفہ میں سے تھا جب شام ہوتی تھی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر حاضر ہوتے تھے تو آپ ﷺ ہر آدمی کو حکم ارشاد فرماتے تھے اور وہ ایک آدمی کو ساتھ لے جاتا تھا، اور اہل صفہ میں جو باقی رہ جاتے وہ دس یا اس سے کم افراد ہوتے تو حضور نبی مکرم ﷺ اپنا شام کا کھانا لے آتے اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ کھانا تناول کرلیتے اور جب ہم فارغ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ فرماتے : ناموا فی المسجد مسجد میں جا کر سوجاؤ۔ اور ترمذی نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : (یہ آیت) ” ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون “۔ ہم گروہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی، ہم کھجوروں کے مالک تھے، فرمایا : ہر آدمی اپنے درخت سے اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ یا کم کھجوریں لاتا تھا اور کوئی آدمی ایک خوشہ اور دو خوشے لے کر آتا تھا اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتا تھا اور اہل صفہ کے لئے کوئی کھانے کی شے نہ ہوتی تھی تو ان میں سے جب کسی کو بھوک ستاتی تھی تو وہ اس خوشے کے پاس آتا، اسے اپنا عصا مارتا، تو اس سے خشک اور پکی کھجوریں گرپڑتی اور وہ کھا لیتا تھا اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اچھی اور عمدہ شے میں رغبت نہ رکھتے تھے اور وہ ایسا خوشہ لے آتے جس میں ردی اور گھٹیا قسم کی کھجوریں ہوتی تھیں اور کوئی ایسا خوشہ لے کر آتا جو ٹوٹا ہوا ہوتا اور وہ اسے مسجد میں لٹکا دیتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ “۔ فرمایا : اگر تم میں سے کسی کو ایسا ہدیہ دیا جائے جیسا اس نے دیا ہے تو وہ اسے نہ لے گا مگر چشم پوشی کرتے ہوئے اور حیاء کرتے ہوئے، فرمایا پس اس کے بعد ہم میں سے ہر آدمی وہی لاتا تھا جو اس کے پاس عمدہ اور اچھی شے ہوتی تھی، فرمایا : یہ حدیث حسن، غریب، صحیح ہے۔ ہمارے علماء نے بیان کیا ہے کہ وہ مسجد میں ضرورت کے تحت رہتے تھے اور ضرورت کے تحت ہی صدقہ وغیرہ کھاتے تھے، پس جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر خوشحالی کے دروازے کھول دیئے وہ اس حالت سے مستغنی ہوگئے اور نکل گئے پھر وہ مالک بن گئے اور حاکم بن گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان فقراء مہاجرین کے وہ احوال بیان کئے جوان پر واپس مڑنے کو واجب کرتے ہیں اور فرمایا (آیت) ” الذین احصروا فی سبیل اللہ “۔ اور معنی ہے وہ جو روک دیئے گئے، حضرت قتادہ اور ابن نے کہا ہے : احصروا فی سبیل اللہ “۔ کا معنی ہے : جنہوں نے اپنے آپ کو دشمن کے خوف سے اپنے کاروبار میں تصرف کرنے سے روک لیا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” لا یستطیعون ضربا فی الارض “۔ وہ زمین میں چلنے پھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ تمام شہر مکمل طور پر کفر کے زیر تسلط ہیں اور یہ ابتدائے اسلام میں تھا اور انہیں اکتساب دولت سے باز رکھنے کی علت جہاد تھا اور کفار کا اسلام قبول کرنے سے انکار کرنا کاروبار تجارت میں تصرف کرنے سے مانع تھا، نتیجتا وہ فقراء ہی باقی رہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” لا یستطیعون ضربا فی الارض “۔ کا معنی ہے یعنی کیونکہ انہوں نے جہاد کو لازم پکڑ لیا ہے اور پہلا معنی زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف “۔ یعنی بیشک انکے سوال کرنے اور مانگنے کو چھوڑنے اور ترک کرنے کے سبب اور ان کے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کے سبب ناواقف لوگ انہیں مالدار اور اغنیاء گمان کرتے ہیں، اس میں اس پر دلیل موجود ہے، کہ لفظ فقر کا اطلاق اس پر بھی کرنا جائز ہے جس کا لباس بہت قیمتی ہو اور وہ اسے زکوۃ دینے سے مانع نہیں ہوتا، تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو زکوۃ دینے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور وہ ان مہاجرین میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جہاد کرتے تھے نہ وہ مریض تھے اور نہ ہی اندھے، اور ” التعفف “ یہ تفعل کے وزن پر ہے اور یہ عف من الشیء سے مبالغہ کا وزن ہے جب کوئی اس شے سے رکار ہے اور اس کی طلب سے احتیاط برتے، اس معنی کے ساتھ حضرت قتادہ وغیرہ نے تفسیر بیان کی ہے اور یحسبھم میں سین کو فتحہ اور کسرہ دونوں دیئے گئے ہیں اور یہ دو لغتیں ہیں۔ ابو علی نے کہا ہے : فتحہ زیادہ قیاس کے مطابق ہے کیونکہ اس کی ماضی میں عین کلمہ مکسور ہے، پس اس کا باب مضارع میں مفتوح آتا ہے اور کسرہ کے ساتھ پڑھنا اچھا اور حسین ہے، کیونکہ سماع اسی طرح ہے۔ اگرچہ یہ قیاس کے مقابلہ میں شاذ ہے اور ” من التعفف “ میں من ابتدائے غایت کے لئے ہے اور بعض نے کہا ہے : یہ بیان جنس کے لئے ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” تعرفھم بسیمھم “۔ اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ شکل و صورت سے کسی پر جو آثار ظاہر ہوتے ہیں ان کا اعتبار میں خاصا اثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب ہم کسی میت کو دارالاسلام میں دیکھیں اور اس پر زنار ہو (مراد وہ دھاگا سا ہے جو ذمی لوگ اپنی کمر میں باندھتے ہیں) اور وہ غیر مختون ہو تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا اور اکثر علماء کے قول کے مطابق اسے دار کے حکم پر آگے کردیا جائے گا اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے۔ (آیت) ” ولتعرفنھم فی لحن القول “۔ (محمد : 30) ترجمہ : اور آپ ضرور پہچان لیا کریں گے انہیں ان کے انداز گفتگو سے) پس یہ آیت ایسے آدمی کو صدقہ دینا جائز ہونے پر دلیل ہے جس کے پاس اپنے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے لباس، کپڑے وغیرہ موجود ہوں، اور علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے، اگرچہ اس کے بعد اس مقدار میں انہوں نے اختلاف کیا ہے جو ضرور مند ہونے کی صورت میں وہ لے سکتا ہے، پس امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اتنی مقدار کا اعتبار کیا ہے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے اور امام شافعی (رح) نے ایک سال کی خوراک کا اعتبار کیا ہے اور امام مالک (رح) نے چالیس درہم کا اعتبار کیا ہے اور امام شافعی (رح) کمانے والے کو زکوۃ کا مصرف قرار نہیں دیتے۔ اور السیما (الف مقصورہ کے ساتھ) اس کا معنی علامت، نشانی ہے اور کبھی اسے مد کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے : السیماء “۔ اور یہاں اس کے معنی کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت مجاہد نے کہا ہے : اس سے مراد خشوع اور تواضع ہے، سدی (رح) نے کہا ہے : ان کے چہروں پر حاجت اور فاقہ کشی اور تنگدستی کا اثر مراد ہے۔ ابن زید نے کہا ہے : ان کے کپڑوں کا پھٹا پرانا ہونا مراد ہے اور ایک قوم نے کہا ہے اور اسے مکی نے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد سجدوں کا اثر ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول اچھا ہے اور یہ اس لئے کہ وہ فارغ اور توکل کرنے والے لوگ تھے ان کا زیادہ تر نماز کے سوا کوئی شغل نہ تھا لہذا ان پر سجدوں کے نشانات تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : وہ سیما جس سے مراد سجدوں کا اثر ہے اس میں تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین مشترک ہیں اللہ تعالیٰ نے سورة الفتح کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” سیماھم فی وجوھھم من اثرالسجود “۔ (الفتح : 29) ترجمہ : ان (کین ایمان و عبادت) کی علامت انکے چہروں پر سجدوں کے اثر سے نمایاں ہے۔ لہذا اس معنی میں تو ان کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہ رہا، پس کوئی معنی باقی نہ رہا، مگر یہ کہ سیما سے مراد فقر و افلاس اور حاجت مند ہونے کا اثر ہو یا پھر سجدوں کے نشانات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہوں، وہ رات کے قیام اور دن کے روزوں کی وجہ سے چہروں کی زردی سے پہچانے جاتے تھے۔ واللہ اعلم۔ اور رہا خشوع، تو اس کا محل دل ہے اور اس میں غنی اور فقیر سب مشترک ہوتے ہیں، نتیجتا جو معنی ہم نے اختیار کیا ہے اس کے سوا کوئی باقی نہیں رہا، والموفق الالہ۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا یسئلون الناس الحافا “۔ الحاف مصدر ہے جو حال کے محل میں واقع ہے، یعنی معنی والحفین، کہا جتا ہے : الحف، احفی اور الخ سوال میں اصرار کرنے کے معنی میں برابر ہیں اور کہا جاتا ہے، ولیس للملحف مثل الرد۔ اور الالحاف اللحاف سے مشتق ہے، سوال کرنے اور مانگنے میں وجوہ طلب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے جیسا کہ اللحاف ڈھانپنے کے معنی کو شامل ہوتا ہے، یعنی یہ سائل عوام الناس سے اپنا سوال کرتا ہے اور اپنے سوال میں خوب اصرار کرتا ہے۔ (گویا وہ ان کے ساتھ لپٹ کر سوال کرر ہا ہے) اسی معنی میں ابن احمر کا یہ قول ہے : فضل یحفھن بقفقفیہ ویلحفھن ھفھافا ثخینا : شاعر شترمرغ کا ذکر کر رہا ہے کہ وہ انڈوں کو اپنے پیروں کے نیچے چھپا لیتے ہیں اور وہ ان پر اس طرح پر ڈال لیتا ہے جیسا کہ لحاف اور وہ اپنے سخت ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا باریک ہوتا ہے۔ نسائی اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے (1) (صحیح بخاری، باب لایسئالون الناس الحافا، حدیث نمبر 4175، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجوریں اور ایک یا دو لقمے دیئے جاتے ہیں بلکہ مسکین تو پاکدامن بننے والا (سوال کے لئے ہاتھ نہ پھیلانے والا) ہے اگر چاہو تو یہ پڑھ لو (آیت) ” لا یسئلون الناس الحافا “۔ مسئلہ نمبر : (5) علماء نے قول باری تعالیٰ ، (آیت) ” لا یسئلون الناس الحافا “۔ کے معنی میں دو مختلف قول بیان کئے ہیں : پس ایک گروہ نے کہا ہے جن میں طبری اور زجاج ہیں کہ اس کا معنی ہے : وہ قطعا سوال نہیں کرتے اور یہ اس بنا پر ہے کہ وہ سوال سے کلی طور پر بچتے اور پاکدامن رہتے ہیں، یہی موقف جمہور مفسرین کا ہے اور پاکدامنی کی صفت ان کے لئے ثابت ہوتی ہے یعنی وہ لوگوں سے سوال نہیں کرتے نہ اصرار کے ساتھ اور نہ بغیر اصرار کے، اور ایک گروہ نے کہا ہے : اس سے مراد الحاف کی نفی ہے یعنی وہ اصرار اور لپٹے بغیر تو سوال کرتے رہتے ہیں اور یہ فہم کے زیادہ قریب اور اس میں جلدی آنے والی شے ہے اور اس میں اس کی بری حالت پر تنبیہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کر سوال کرتا ہے۔ ائمہ نے روایت کیا ہے اور الفاظ امام مسلم کے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم سوال میں اصرار نہ کرو قسم بخدا ! تم میں سے کوئی بھی مجھ سے کسی شے کا سوال نہیں کرتا تو اس کا سوال اس کے لئے مجھ سے کوئی شے نکال لاتا ہے اور میں اسے ناپسند کرتا ہوں، پس اس کے لئے اس میں برکت رکھ دی جائے گی جو کچھ میں نے اسے عطا کیا۔ “ اور مؤطا میں ہے، حضرت زید بن اسلم نے حضرت زید بن اسلم ؓ نے حضرت عطاء بن یسار ؓ سے اور انہوں نے بنی اسد کے ایک آدمی سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں اور میرے گھر والے بقیع غرقد میں اترے تو میرے گھر والوں نے مجھے کہا : تو رسول اللہ ﷺ کے پاس جا اور آپ سے ہمارے لئے کوئی چیز لے آتا کہ ہم اسے کھائیں اور وہ اپنے حاجت اور ضرورت ذکر کرنے لگے پس میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی کو سوال کرتے ہوئے پایا اور رسول اللہ ﷺ اسے فرما رہے تھے، ” لا اجد ما اعطیک “ میں کوئی ایسی شے نہیں پاتا جو میں تجھے دوں، وہ آدمی آپ سے پیٹھ پھیر کر لوٹا اس حال میں کہ وہ بڑے غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا مجھے اپنی عمر کی قسم بلاشبہ آپ جسے چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بیشک یہ مجھ پر غصے ہو رہا ہے کہ میں نے اسے دینے کے لئے کوئی شے نہیں پائی تم میں سے جس نے اس حال میں سوال کیا کہ اس کے پاس ایک اوقیہ (چاندی) یا اس کے برابر (سامان) ہو تو تحقیق اس نے بالاصرار اور لپٹ کر سوال کیا۔ “۔ اسدی نے کہا ہے : پس میں نے کہا ہمارے لئے تو دودھ دینے والی ایک اونٹنی اوقیہ سے بہتر ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں۔ اس آدمی نے بیان کیا تو میں واپس لوٹ گیا اور میں نے آپ سے کچھ نہ مانگا پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اور کشمش لائے گئے تو آپ ﷺ نے انہیں ہمارے لئے تقسیم فرما دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی فرما دیا۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے اسی طرح اسے مالک نے روایت کیا ہے اور ہشام بن سعد وغیرہ نے ان کی اتباع کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اور علماء کے نزدیک جب صحابہ کا نام نہ لیا جائے اتو اس کا حکم کسی دوسرے آدمی کے حکم کی طرح نہیں ہے جب اس کا نام نہ لیا جائے، کیونکہ تمام صحابہ کرام سے جرح اٹھ چکی ہے اور ان کے لئے عدالت ثابت ہے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے لئے سوال کرنا مکروہ ہے جس کے پاس ایک اوقیہ چاندی ہو، پس جس نے سوال کیا اس میں کہ اس کے پاس یہ حد ہو اور اتنی مقدار اور تعداد میں چاندی یا وہ شے ہو جو اس کے قائم مقام ہوتی ہے اور وہ اس کے مساوی ہو تو وہ منحف ہے (یعنی لپٹ کر سوال کرنے والا ہے) اور میں اہل علم میں سے کسی کو نہیں جانتا مگر ہر کوئی اس کے لئے سوال کو مکروہ قرار دیتا ہے جس کے پاس اتنی مقدار میں چاندی ہو یا اس کے مساوی سونا ہو، یہ حکم اس حدیث کے ظاہر کی بنا پر ہے اور جو شے بغیر سوال کے کسی کے پاس آجائے تو اس کے لئے اسے کھانا جائز ہے اگر وہ زکوۃ میں سے نہ ہو، اور یہ ان (مسائل) میں سے ہے جس میں میں کسی اختلاف سے واقف نہیں اور اگر وہ شے مال زکوۃ میں سے ہو تو اس میں اختلاف ہے اس کا بیان آیۃ الصدقات میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (6) ابن عبدالبر نے کہا ہے : سوال کے معانی اور اس کی کراہیت کے بارے میں فقہاء جوابات اور اہل ورع کا مذہب بیان کیا گیا ہے اس میں سے احسن ترین وہ ہے جسے اثرم نے امام احمد بن حنبل ؓ سے بیان کیا ہے۔ آپ سے سوال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کب حلال ہوتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : جب اس کے پاس اتنی شے بھی نہ ہو جس سے وہ اپنی صبح اور شام کا کھانا تیار کرسکے تیار کرسکے، یہ حضرت سہل بن حنظلیہ ؓ کی حدیث کے مطابق ہے (1) (ابی داؤد، باب من یعطی من صدقۃ وحد الغناء حدیث نمبر : 1388، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عبداللہ (یہ حضرت امام احمد (رح) کی کنیت ہے) کو کہا گیا اگر وہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائے، تو آپ نے فرمایا : جب وہ مجبور جائے تو اس کے لئے مانگنا مباح ہے پھر کہا گیا : اور اگر وہ مانگنے سے باز رہے تو ؟ آپ نے فرمایا : یہ اس کین لئے بہت بہتر ہے۔ پھر آپ نے فرمایا : میں : کسی کے بارے یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ بھوک سے مرجائے گا ! اللہ تعالیٰ اسے اس کا رزق ضرور عطا فرمائے گا۔ (ما اظن احد ایموت من الجوع اللہ یاتیہ برزقہ) پھر آپ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث ذکر فرمائی : من استعف اعفہ اللہ (2) (صحیح بخاری، باب الاستعفاف عن المسالۃ حدیث نمبر 1376، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (جوپاکدامنی کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اسے پاکدامن کر دے گا (یعنی جو سوال سے رکا رہا اللہ تعالیٰ اسے اس سے محفوظ کر دے گا۔ ) اور حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث ہے حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : تعفف “ تو پاکدامن رہ (یعنی کسی سے نہ مانگ) ابوبکر نے بیان کیا ہے : میں نے آپ کو سنا۔ آپ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جس کے پاس کوئی شے نہیں ہوتی کیا وہ لوگ سے سوال کرسکتا ہے یا مراد رکھا سکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : کیا وہ مردار کھا سکتا ہے جو ایسے آدمی کو پائے جس سے وہ کچھ مانگ سکتا ہو، یہ بہت شفیع اور برا ہے، مزید بیان کیا اور میں نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ سے سوال کیا گیا کیا آدمی کسی دوسرے کے لئے مانگ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، البتہ وہ تعریض کرسکتا ہے۔ (یعنی اشارۃ توجہ اس کی طرف دلوا سکتا ہے) جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس وقت فرمایا جب آپ ﷺ کے پاس ایک قوم آئی وہ ننگے پاؤں تھے، بدن پر کپڑے نہ تھے اور اپنے جسموں کو ادنی دھاری دار چادروں سے ڈھانپے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تصدقوا (اے صحابہ) تم صدقہ کرو۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : اعطوھم تم انہیں دو ۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اشفعوا توجروا “ تم تم مدد کرو تم اجر دیئے جاؤ گے (1) (صحیح بخاری کتاب الزکاۃ حدیث نمبر 1342 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو اس میں دوسرے کے لئے سوال کا اطلاق ہے۔ واللہ اعلم، اور فرمایا : الا رجل یتصدق علی ھذا “ کیا کوئی آدمی نہیں جو اس پر صدقہ کرسکتا ہو۔ ؟ ابوبکر نے بیان کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) کو کہا گیا ایک آدمی اس آدمی کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے : بیشک وہ محتاج ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ تعریض ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بیشک سوال تب بنتا ہے کہ وہ کہے : اعطہ تو اسے دے، پھر فرماما : میرے نزدیک یہ پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی ذات کے لئے سوال کرے تو پھر کسی دوسرے کے لئے یہ کیسے پسندیدہ ہو سکتا ہے ؟ البتہ میرے نزدیک تعریض کرنا پسندیدہ ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابو داؤد اور نسائی وغیرہما نے روایت کیا ہے کہ فراسی (بنی فراس بن مالک کا کوئی آدمی) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا میں سوال کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں اور اگر تو سائل ہے تو پھر ضروری ہے کہ تو صالحین سے مانگ۔ “ پس آپ ﷺ نے حاجت و ضرورت کے وقت اہل فضل وصلاح کے سوال کو مباح قرار دیا ہے اور اگر وہ اپنی حاجت اللہ تعالیٰ کے پاس پیش کرے تو یہ اور اعلی ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم (رح) نے کہا ہے : لوگوں سے حاجات کا مطالبہ کرنا یہ تیرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب ہے۔ پس تو اپنی حاجت اس کے پاس پیش کر جو ہر قسم کے نفع اور نقصان کا مالک ہے اور چاہیے کہ تیرا بھاگ کر جانا اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ماسوی سے کافی ہوجائے گا اور تو خوشحال اور مسرور زندگی گزارے گا۔ مسئلہ نمبر : (7) اگر بغیر مانگے کسی کے پاس کوئی شے آجائے تو اس کے لئے جائز ہے وہ اسے قبول کرلے اور اسے رد نہ کرے کیونکہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے۔ امام مالک (رح) نے حضرت زید بن اسلم (رح) سے اور انہوں نے حضرت عطا بن یسار سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف کچھ عطا (ہدیہ تحفہ) بھیجی تو آپ نے اسے واپس لوٹا دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فرمایا : ” تم نے اسے کیوں لوٹا دیا ہے ؟ “ تو آپ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے ہمیں بتایا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ کوئی شے نہ لے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ وہ سوال کے بارے میں ہے اور رہی وہ شے جو بغیر مانگے مل جائے تو یقینا وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمایا ہے۔ “ تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا : قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ میں کسی سے کسی شے کے بارے میں سوال نہیں کروں گا اور بن مانگے جو شے بھی میرے پاس آئے گی میں اسے لے لوں گا۔ یہ نص ہے مسلم نے اپنی صحیح میں اور نسائی نے اپنی سنن میں (2) (صحیح بخاری، کتاب الاحکام، حدیث نمبر 6630، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا میں نے حضرت عمر ؓ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ مجھے عطیات عطا فرماتے رہتے تھے تو میں عرض کرتا : آپ اسے عطا فرما دیجئے جو مجھ سے زیادہ اس کا محتاج ہے حتی کہ ایک بار آپ ﷺ نے مجھے مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کی : آپ مجھ سے زیادہ محتاج اور حاجت مند کو عطا فرما دیجئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اسے لے لو اور اس مال میں سے جو تمہارے پاس آئے اور تو نہ اس پر جھانکنے والا ہے اور نہ سوال کرنے والا پس اسے اور اس مال کو لے لو اور تم اس میں اپنے نفس کی اتباع وپیروی نہ کرو “۔ نسائی نے خذہ کے قول کے بعد یہ اضافہ نقل کیا ہے۔ ” پس تم اسے اپنے پاس جمع کرلو یا اسے صدقہ کر دو ۔ “ اور مسلم نے حضرت عبداللہ بن سعدی مالکی سے حدیث نقل کی ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الاحکام، حدیث نمبر 6630، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ، کہ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا : اذا اعطیت شیئا من غیر ان تسال فکل وتصدق “۔ (کہ جب تمہیں کوئی شے بغیر سوال کے دی جائے تو اسے کھاؤ اور صدقہ کرو) یہ روایت تمہارے لئے امام مالک (رح) کی مرسل حدیث کو صحیح بناتی ہے۔ الاثرم نے کہا ہے : میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل (رح) سے سنا ان سے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کے بارے میں سوال کیا گیا، ” جو شے تیرے پاس بغیر سوال اور بغیر اشراف کے آجائے ، “ اس میں اشراف سے آپ نے کون سا ارادہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تو اس پر جھانکتا رہین اور اپنے دل میں یہ کہتا رہے، شاید یہ شے میری طرف بھیج دی جائے، آپ سے کہا گیا : اگرچہ وہ تعرض نہ بھی کرے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں بلاشبہ وہ (اشراف) دل کے ساتھ ہوتا ہے پھر آپ سے کہا گیا : یہ تو بہت سختی ہے آپ نے فرمایا : اگرچہ یہ شدید ہے لیکن یہ اسی طرح ہے۔ آپ سے کہا گیا : اگر کوئی آدمی مجھے عادی نہ بنائے کہ وہ میری طرف کوئی شے بھیجے مگر یہ کہ اس کا خیال میرے دل میں آئے اور میں کہوں : قریب ہے کہ وہ میری طرف کوئی شے بھیجے، تو آپ نے فرمایا : اشراف ہے، پس اگر وہ تیرے پاس آئے اس کے بغیر کہ تو اس کا تصور کرے اور نہ ہی وہ تیرے دل میں کھٹکے تو یہ وہ شے ہے جس میں اشراف نہیں ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : لغت میں الاشراف سے مراد اس شے کی طرف سراٹھانا ہے جو اس آدمی کے پاس ہو جس کی حرص ہو اور اس شے میں بھی حرص اور طمع ہو۔ اور یہ کہ وہ انسان کو خوش کرے اور یہ تعرض کرنے لگے۔ اور امام احمد (رح) نے اشراف کی تاویل میں جو کچھ کہا ہے وہ تضییق اور تشدید ہے اور وہ میرے نزدیک بعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے اس سے درگزر فرما لی ہے جو کچھ ان کے دلوں میں پیدا ہو، نہ زبان اس کے ساتھ بولے اور نہ ہی اعضاء اس کے مطابق عمل کریں، کفر کے سوا گناہوں میں سے دل جن کا اعتقاد رکھے وہ کوئی شے نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے مطابق عمل کرے اور دل میں کھٹکنے والے خیال اور وہم سے بالاجماع درگزر کرلیا گیا ہے۔ (یعنی ان پر کوئی مواخذہ نہیں جب تک انہیں عملی جامہ نہ پہنایا جائے۔ ) مسئلہ نمبر : (8) کسی سے کچھ مانگنے میں اصرار کرنا اور اس سے مسغنی ہونے کے باوجود اس سے لپٹ جانا حرام ہے حلال نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کثرت مال کے باوجود لوگوں سے انکے مالوں کے بارے سوال کیا تو وہ (آگ کے) انگارے مانگ رہا ہے چاہے وہ قلیل طلب کرے یا زیادہ مانگے ، “ اسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے اور مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ؓ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی مسلسل (بھیک) مانگتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے گا اور اس کے چہرے میں گوشت (٭) (قاضی عیاض (رح) نے فرمایا ہے کہ وہ قیامت کے دن ذلیل و خوار ہو کر آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی اور یہ بھی کہا گیا ہے یہ حدیث اپنے ظاہر پر ہی محمول ہے اسے اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے چہرہ میں فقط ہڈیاں ہوں گی گوشت نہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب) کا ٹکڑا تک نہ ہوگا۔ “ اسے مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، باب من سال الناس تکثرا، حدیث نمبر 1381، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (9) سائل جب محتاج ہو تو کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ تین بار تک عذر پیش کرتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے اپنا سوال بار بار کرے اور ایسا نہ کرنا افضل ہے اور اگر وہ آدمی جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس کے بارے جانتا ہو اور وہ اس پر قادر بھی ہو جو شے اس نے مانگی ہے تو اس پر اسے عطا کرنا واجب ہے اور اگر وہ اس کے بارے ناواقف ہو تو وہ اسے اس خوف سے دے ددے کہ ہوسکتا ہے وہ اپنے سوال میں سچا ہو اور وہ اسے واپس لوٹانے میں کامیاب نہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (10) اور اگر وہ ایسی شے کا محتاج ہو جس کے ساتھ وہ سنت کو قائم کرسکتا ہے مثلا ایسے کپڑے کے ساتھ آراستہ ہونا جسے وہ عید اور جمعہ ( کی نمازوں) میں پہنتا ہو۔ تو ابن عربی نے ذکر کیا ہے : ” میں نے خلیفہ بغداد کی جامع مسجد میں ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا یہ تمہارا بھائی ہے جو تمہارے ساتھ جمعہ کی نماز میں حاضر ہوتا ہے اور اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ جمعہ کی سنت کو قائم کرسکتا ہو۔ پس جب دوسرا جمعہ آیا تو میں نے اس پر دوسرا لباس دیکھا تو مجھے بتایا گیا۔ ابو الطاہر سنی نے اسے یہ لباس پہنایا ہے۔ اور مدح وتعریف حاصل کی ہے۔
Top