Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 44
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠   ۧ
اَمْ تَحْسَبُ : کیا تم سمجھتے ہو اَنَّ : کہ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں اَوْ يَعْقِلُوْنَ : یا عقل سے کام لیتے ہیں اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا : مگر كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں جیسے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ سَبِيْلًا : راہ سے
یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ (ن ہیں) یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں
(25:44) ام۔ کیا۔ خواہ۔ یا ۔ یحسب : مضارع واحد مذکر حاضر۔ تو گمان کرتا ہے، تو خیال کرتا ہے۔ (باب حسب ، سمع) حسبان مصدر۔ ان ھم : میں ان نافیہ ہے۔ بل : حرف اضراب ہے۔ یہاں تدارک کی دوسری صورت ہے (پہلی صورت 25:40 ملاحظہ ہو) کہ پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا جائے ۔ جیسے بل قالوا اضغاث احلام۔ بل افترہ بل ہو شاعر (21:5) بلکہ انہوں نے کہا کہ خیالات پریشاں ہیں بلکہ اس کو اس نے (آنحضرت ﷺ نے) گھڑلیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے۔ مطلب یہ کہ ایک قرآن کو خیالات پریشان کہتے ہیں پھر مزید اسے افتراء بتلاتے ہیں اور اسی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ نعوذ باللہ آپ کو شاعر سمجھتے ہیں۔ یہاں آیۃ ہذا میں ہے کہ وہ محض چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔
Top